Thursday, 12 January 2017

انسانیت کو پہچانیے!

بسم اللہ الرحمن الرحیم
تحریر:حبیب اللہ جامعةالدراسات الاسلامیہ کراچی
رابطہ:Email:8939478@gmail.com Fb:ha8939478@gmail.com

انسانیت کو پہچانیے!

اللہ تعالیٰ نے انسان کوکمال تخلیق کیا ہے۔ خاک کے اس پتلے میں ایسی صلاحتیں پنہاں رکھی ہیں کہ کائنات میں دیوقامت پہاڑ ہوں یاچہار سو پھیلے نظارے اورکائنات کے دروبام سب اس کے دم سے مزین نظر آتے ہیں۔اگرچہ جہاں انسان نہیں پہنچا وہاں کا ماحول فطرت پر گامزن ہے۔ مگر جہاں انسان پہنچا ،اس فطرت کو چار چاند لگادیے۔اس بات سے اختلاف نہیں کہ فطرت کو بگاڑنے میں انسان کا کوئی ثانی نہیں مگر اس بات میں بھی دورائے نہیں کہ فطرت کومزین کرنے میں بھی اس کا ثانی نہیں۔جہاںکائنات میں زیب و زینت اوررنگ وبو بھی حضرت انسانیت سے ہے، وہاں کائنات کا نکھار بھی اسی کے دم سے نظرآتا ہے۔جس علاقہ سے انسانیت بے دخل ہوجائے، وہاں درندوں کا راج ہوتا ہے۔

اگرچہ انسان اورانسانیت ایک ہی سانچے میں ڈھلے دوپیمانے ہیں مگران دونوں کی قدرومنزلت اپنے،اپنے اعتبار سے ہے۔حقیقت میں انسانیت کا وجودہی انسان سے ہے، مگر جب انسان ،انسانیت ترک کردے تودرندگی جگہ لے لیتی ہے۔اس لیے انسان کے لیے ایسی صفات کاادراک کرنا ضروری ہے کہ جن کی بدولت وہ انسانیت کے راز جان سکے اور اپنی حیثیت پہچان سکے ۔ اس کے سبب سے انسان انسانیت کے اعلیٰ مراتب پر فائز ہوسکے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو نہایت ہی کمزور پیدا کیا ہے۔ نا توانسان کو پہاڑوں جیسی جسامت دی ہے نا صحراجیسی طوالت دی ہے۔ناپتھروں سی سختی ہے ناریشم سی نرمی ہے۔ناشیرسی ہیبت ناچیتے سی روانی ہے۔ناسمندروں کا پھیلاﺅ ناگوہرسی نایابی ہے۔نا آندھی سی تیزی ہے نا زلزلے سی شدت ہے۔نہ گینڈے سی جسامت ہے نہ ہاتھی سی طاقت وضخامت ہے۔لیکن ان تمام کے بدلے عقل سلیم عطاکرکے علم عطا کردیا ہے تاکہ اس کے سبب سے انسان انسانیت کاادراک کرکے کامیابی و کامرانی کی منازل عبور کرسکے اورکائنات کے رازوں کو مسخر کرکے مخلوق خداکی خدمت کرنے میں اپنی طرف سے حتیٰ الوسع کوشش کرسکے۔ مگر یہ تب ہی ممکن ہے جب انسان میں انسانیت کا گوہرِ نایاب پنپ رہا ہو۔انسان انسانیت کی پہچان کرکے کامیابی کے زینے عبور کررہا ہو۔ 
مگر جب انسان کی انسانیت خاک میں مل جائے اوراس کی جگہ درندگی لے لے توپھر نظام کائنات بگڑنا شروع ہوجاتا ہے۔
کائنات میں اللہ تعالیٰ نے توازن رکھا ہے،اس توازن کومتوازن رکھنا انسان پر چھوڑدیا ہے۔جب انسان انسانیت کے منازل پر فائز رہتا ہے تو کائنات متوازن رہتی ہے مگر جیسے ہی انسان انسانیت کے پردے کو چاک کرکے حیوانیت کواپنااوڑھنا،بچھونا بنالیتا ہے تو نظامِ کائنات بگڑنا شروع ہوجاتا ہے۔اس وقت اگر عقل خداوندی کواستعمال کرتے ہوئے حقیقت کی نگاہوں سے اس نظامِ کائنات اورانسانوں کے کردار کا ہلکہ سا تنقیدی تجزیہ کیا جائے توعام ساآدمی بھی جوعقل وشعور رکھتا ہو، اس بات کو جان لے گا کہ جب تک حضرت انسان دین فطرت پر عمل پیرارہا اورانسانیت کی حدوں سے تجاوزکرکے حیوانیت کے جنون میں مجنوں نابنا ،نظام کائنات درست انداز سے چلتا رہا۔بارشیں برستی رہیں اورکھیت کھلیان خوب پھلتے پھولتے اورغلہ دیتے رہے۔ناانسان مشقت میں پڑاناچرندوپرنداذیت میں مبتلا ہوئے۔مگر جیسے ہی انسان نے فطرت انسانی سے تجاوز کرکے حیوانیت کا لبادہ اوڑھااورخالقِ کائنات کے اشاروں پر چلنے کے بجائے اپنی طرف سے قوانین تخلیق کرنے اوران پر عمل پیرا ہونے لگا تونظامِ کائنات بھی بگڑنے لگا۔بارشیںرک گئیں،قحط سالی مسلط کردی گئی،نا صرف انسان مشقت میں پڑ گئے بلکہ چرندوپرند بھی اذیت کاشکار ہوگئے۔اسی حقیقت کی طرف خالقِ کائنات اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:”یہ جو کچھ بھی زمین کی پشت پر اورسمندروں کی تہہ میں فساد برپا ہے انسان کے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کو اس ابتلاءمیں اس لیے مبتلاءکیا ہے تاکہ وہ اپنے کیے کاانجام چکھ لے اورواپس (دینِ فطرت وانسانیت) کی طرف پلٹ آئے۔“(الروم:41)اس لیے اس وقت ہر انسان معرفتِ انسانیت کا محتاج ہے۔ ناصرف محتاج بلکہ ہر انسان پر لازم ہے کہ وہ انسانیت کی معرفت کے حصول کو یقینی بنائے تاکہ وہ اس وسیع وعریض کائنات میں اپنے حصے کا کردارادا کرے اورانسانیت کی خدمت کے لیے اپنی کوششوں کویقینی بناسکے۔مگر یہ تب ہی ممکن ہوگا جب اس میں احساس کا وجود ہوگا اگراس میں احساس کا شعور موجود نہ ہوگا تو معاشرے کی ترقی و بناوٹ میں اپنا کردارادا نہیں کرسکتا۔کہیں یہ نا ہو کہ غفلت میں ہی زندگی کاخاتمہ ہوجائے اورانسان کی مثال یہ ہو


وائے نادانی متاعِ کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

No comments:

Post a Comment