Monday 13 March 2017

محمدبن قاسم (ایک عظیم نوجوان سپہ سالار)


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

محمدبن قاسم (ایک عظیم نوجوان سپہ سالار)

جوانی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عظیم نعمت ہے۔جوانی میں انسان کا عزم بلند،ارادے پختہ،جذبہ جوان،کچھ کرگزرنے کی تمنا ہر نوجوان مطمع نظر ہوتی ہے۔مگر اس میں کامیابی صرف انہی جوانوں کو ہوتی ہے کہ جو جوانی کے مقاصد سے بابہرہ اوراس نعمت عظمیٰ کی قدر کرتے ہوں۔وگرنہ کتنے ہی جوان اس جوانی کو دنیا کی چکا چوندیوں میں برباد کرتے نظر آتے ہیں ۔خصوصاً اس نام نہاد ترقی کے دور میں تو ہر جوان کا مطمع نظر یورپ وامریکہ نظر آتا ہے۔سرمائے کی تمنا میں وہ ساری زندگی ڈگری کے حصول کے لیے برباد کرکے چند ٹکوں کا مالک بن کر یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ وہ اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب ٹھہر چکا ہے۔
حالانکہ دنیا کا مال اورجاہ وجلال ایک مسلم نوجوان کی گردراہ بننا تودرکنار ایسی سوچ بھی مذموم گرداننا چاہیے مگراغیار کی سازشیں اورپروپیگنڈہ مسلم نوجوانوں کے دلوں میں گھر کر چکا ہے۔اس لیے ان کی زندگی کا کل مقصدڈگری کے حصول میں کامیابی کے بعد کسی کا نوکر بننا اورچندٹکوں پر راضی ہوجاناہی رہ چکا ہے۔وہ اپنے ماضی کے کردار کو فراموش کرتے نظر آتے ہیں ۔یہی نوجوان تھے کہ جن کی ہیبت سے کفرکے محلوں میں خوف کے سائے گردش کرتے تھے،انہی کے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز کفر کے دل کو روندتی چلی جاتی تھی،انہی کے کردارکی ہیبت ،تلواروں کی مار،نیزوں کی کی جھنکار اورگھوڑوں کی یلغارسے سردارانِ کفر سہمے سہمے نظرآتے تھے۔

مگرآہ!افسوس کے جب انہوں نے اپنی جوانیوں کی قدر کو پہچاننے سے انکار کردیا تو وہ پرواز شاہینی اوراندازِرزم ان کی نظروں سے اوجھل ہوتا چلا گیااوریہ ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتے چلے گئے ۔آج ہم ماضی کے دریچوں میں جھانک کرانہی جوانوں میں سے ایک بہادر نوجوان کی حیات مبارکہ چند گوشوں سے روشناس ہوں گے کہ جنہوں نے اپنی زندگی کا مقصد یہ وضع کیا تھا کہ 
خون جگر دے کے نکھاریں گے رخ برگِ گلابہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے
پھراس جوان نے اپنی جوانی کواللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف کرکے قتالِ فی سبیل اللہ کواپنااوڑھنا بچھونا بنایا اوراللہ تعالیٰ کو اس کی قربانی اتنی پسند آئی کہ اس کے ذریعے سے رہتی دنیا تک اسلام کا چراغ برصغیر میں جگمگا اٹھا۔میری مراد سپہ سالارِاسلام محمد بن قاسم رحمہ اللہ ہیں۔  محمدبن قاسم بن محمد بن حکم بن ابی عقیل عرب کے مشہور قبیلہ بنو ثقیف سے تعلق رکھتے تھے۔مورخین نے ان کی والدہ کا نام حبیبۃ العظمیٰ لکھا ہے۔ان کی ولادت باسعادت 75ہجری میں طائف میں ہوئی۔ان کے والد قاسم، حجاج بن یوسف کے سگے چچا زاد بھائی تھے،چنانچہ جب حجاج عراق کا حاکم اعلیٰ ہوا تو انہوں نے اپنے چچازادبھائی قاسم کو بصرے کا عامل مقرر کردیا۔ان کے فرزند محمد بن قاسم نے بصرہ ہی میں تعلیم حاصل کی ۔محمد بن قاسم کوایک خوشبودار پودے ’’البہار‘‘ سے خاص شغف تھا اس لیے مورخین کے مطابق ان کی کنیت’’ ابوالبہار‘‘ پڑگئی ، ’’چچ نامہ‘‘(فارسی میں ،جو کہ سندھ کی ایک مستند تاریخ ہے )ان کا لقب عمادالدین ملتاہے۔محمد بن قاسم رحمہ اللہ کو ان کے عسکری کارناموں کی وجہ سے چھوٹی عمر سے ہی شہرت ملنا شروع ہوگئی تھے۔15برس کی عمر میں حجاج نے انہیں کرد قبائل کی طرف بھیجا جو کہ سرکشی پر اترآئے تھے،انہوں نے اکڑی گردنوں کو تلوار کے ذریعے سیدھا کرکے انہیں فرمانبردار بنادیا۔انہیں سیدھا کرنے کے بعد انہوں نے شہرشیراز کی بنیادڈالی اوراسے فارس کا پایہ تخت بنایا۔شاپوراورجرجان کے علاقوں میں فتوحات حاصل کرکے رے کی طرف جانے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ انہیں حجاج نے سندھ کی پر لشکرکشی کے لیے نامزد کیا۔
سندھ کے راجہ داہر کو سبق سکھانے کی خاص وجہ بنی،کہ سندھ کی ساحلی پٹی پر تجارتی اورمسافروں کے قافلے گزرتے رہتے تھے ۔نیز اس کے ساتھ کے علاقوں میں مسلمان بھی بستے تھے ۔ان کے بھی قافلے گزرتے تھے۔ان قافلوں کو ساحلی علاقوں میں پناہ گزین ڈاکو لوٹ لیا کرتے تھے۔وہ بحری قذاق اورڈاکو راجہ داہر کی حکومت اورپناہ میں یہ کام کرتے رہتے تھے مگر انہیں ٹوکنے والا کوئی نہیں تھا۔اس زمانہ میں بحری تجارت اورسمندروں پر مسلمانوں کی ہیبت کا سکہ چھایا ہوا تھا۔عرب تاجر مالیپ،سکادیپ سری لنکا(سلیون ،سراندیپ)فلپائن وغیرہ کے جزائر میں تجارت کیا کرتے تھے۔عربوں کے حسن اخلاق ،امانت ودیانت داری ست متاثر ہوکر ان ساحلی پٹیوں اورجزائر میں آباد لاکھوں لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔سراندیپ (لنکا)کے راجہ کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات بہت عمدہ سطح پر استوار تھے۔راجہ نے کچھ تحائف تاجروں کی بیوگان اوریتیم بچوں کو جن کے والدین حوادث زمانہ کاشکار ہوگئے تھے ،نیزکچھ حاجیوں کے ایک قافلے کوآٹھ جہازوں پرسوار کرکے بصرہ کی جانب روانہ کیا۔راستہ میں طوفان کی شروعات ہوگئیں۔جب طوفان کچھ بڑھنے لگا مجبوراً بحری کارواں نے دیبل کی راہ لی۔دیبل راجہ داہر کی حکومت کابحری اڈہ اوربندرگاہ تھی۔بحری قذاقوں نے حملہ کرکے بہت سے حاجیوں کو شہید کرڈالا،عورتوں اوربچوں کو قید کرلیا اورساراسامان قبضے میں لے لیا۔کچھ لوگ بھاگ کر بڑی مشکل سے جان بچانے میں کامیاب ہوئے ۔ ان میں ایک عورت بھی تھی، جس نے حجاج بن یوسف کو خط لکھ کر دہائی دی،حجاج نے آنے کا وعدہ کرلیا۔حجاج بن یوسف نے خلیفہ عبدالملک بن مروان کی طرف سے راجہ داہر کو لکھ بھیجا کہ چونکہ مسلمانوں کے خلاف یہ واردات تمہارے علاقے میں ہوئی ہے اس لیے کارروائی کرو،مگر راجہ داہر نے جان بوجھ کر یہ جواب دیا کہ میں اس معاملے میں بے بس ہوں اوراس نے معذوری ظاہر کردی۔جس کے بعد حجاج نے خلیفہ عبدالملک کے دور میں ہی ان ڈاکوئوں کو خود سبق سکھانے کی تیاری شروع کردی مگراسی دوران 86ہجری میں خلیفہ عبدالملک کا انتقال ہوگیا۔حجاج نے تین بار لشکر بھیجے لیکن راجہ داہر کی سرپرستی کے باعث وہ ڈاکوئوں کو سبق سکھانے اوران سے مقابلہ کرنے میں ناکام رہے۔جس پر ولید بن عبدالملک کے دور میں سپہ سالارِ اسلام محمد بن قاسم رحمہ اللہ 5000کے لشکرلیئے حجاج کے حکم پر نکلے۔ پہلے مکران( بلوچستان ) کے علاقے ارمن بیلہ کو فتح کیااور پھرسندھ کی مشہور بندرگاہ دیبل کا محاصرہ کرلیا۔عراق سے آدمیوں ،اسلحے اوردیگر سازوسامان کی مزید کمک آن پہنچی تو محمد بن قاسم نے منجنیق نصب کروائی کہ جسے ایک وقت میں 500سپاہی مل کرچلاتے تھے اوروہ بڑے بڑے پتھر اٹھا پھینکتی تھی۔قلعہ دیبل میں مہاتما بدھ کا بہت بڑابت تھا۔اس کے اوپرایک مضبوط بانس میں ایک سرخ رنگ کا بڑاجھنڈا تھا،ہواچلنے پر لہرا پڑتا تھا۔اس دوران حجاج کے ساتھ محمد بن قاسم خط وکتابت کے ذریعے رابطے میں تھا۔خط و کتابت کا یہ عمل ہر تیسرے دن ہوتا تھا۔آخر حجاج کی طرف سے خط میں یہ حکم نامہ جاری کیا گیا کہ منجنیق کو مشرقی جانب نصب کرو،پھران کے جھنڈے پر پتھر برسائو۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیا کچھ ہی دیر میں وہ جھنڈا نیچے آن گرا۔ فوجی باہر نکل کر لڑنے لگے مگر انہیں شکست وہزیمت سے دوچار ہونا پڑا۔پھر مجاہدین نے قلعے کے ساتھ سیڑھیاں لگا کر اس میں داخل ہوتے ہی حملہ کرکے قلعہ کو فتح کرلیا۔بت خانے کے مجاور کو مارگرایا۔محمد بن قاسم نے 4000مسلمانوں کو یہاں آباد کرنے کے ساتھ ہی مسجد کی بنیاد رکھ دی۔اس کے بعد محمد بن قاسم دریائے سندھ کے دائیں کنارے نیرون،کوٹ ،سہون اوربدھیہ کو فتح کرلیا اوردریائے سندھ میں زیریں سندھ کے مثلث دھانے سے کشتیوں کا پل بناکر دریا کو پارکرلیا۔انہوں نے داہر کو قبول اسلام یا جزیہ دینے کی دعوت دی مگر اس نے سرکشی وہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انکار کردیا اورساتھ کہنے لگا کہ:’’تمہیں تمہاری موت یہاں کھینچ لائی ہے۔‘‘اس پر محمد بن قاسم نے کہا کہ:’’جو ہونے والا ہے تو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا‘‘اس کے بعد10رمضان 93ہجری کوکفرواسلام کا فیصلہ کن معرکہ برپا ہوا اور مسلمانوں نے راوڑ(بقول البلاذری ’’الرور‘‘یاروہڑی )کے قلعے کے نزدیک مغرور راجا داہر کو شکست دی اوروہ مارا گیا۔محمد بن قاسم آگے بڑھے اوردریائے سندھ کے بائیں جانب کے سارے قلعے بہرور،دھیلہ،برہمن آباداورآخر میں پایہ تخت ارُور فتح کرلیے ،پھر مزیدآگے بڑھے اوچ اورملتان کے علاقے فتح کیے ،نیز کشمور تک فتح کو بڑھا لیا۔پھر راجپوتانے میں بیلمان(بھنمل)اورکاٹھیاواڑ گجرات میں سرست(سوراشٹر)کی طرف فوجیں بھیجیں ۔وہاں کے حکمرانوں نے اطاعت قبول کرکے صلح کے معاہدے کرلیے ۔خود محمد بن قاسم نے گجرات کے پایہ تخت (کیرا،نزداحمد آباد)پر لشکر کشی کی اورراجہ شکست کھاکر بھاگ گیا۔
اب محمد بن قاسم نے شمالی ہندوستان کی طرف توجہ کی اورقنوج کے راجہ کی طرف توجہ کی اورقنوج کے راجہ کواطاعت اورصلح کا پیغام بھیجا مگراس نے صاف انکار کردیا،لہٰذا محمدبن قاسم قنوج(یوپی)پر حملے کی تیاری مکمل کرکے روانہ ہوئے اورشہر اودھا پور پر پہنچے تھے کہ دارالخلافہ دمشق سے ان کی معزولی کاپیغام آگیا ۔سندھ کے نئے حاکم یزیدبن ابی کبشہ سکسکی نے محمد بن قاسم رحمہ اللہ کو گرفتار کرکے واپس عراق بھیج دیالیکن خلیفہ کے پاس واپس پہنچنے سے پہلے ہی عراق کے گورنرصالح بن عبدالرحمٰن نے (جو خارجی تھا)انہیں واسط میں قید کرلیا، کیونکہ صالح کے بھائی کو حجاج نے قتل کیا تھا جس کا انتقام اس نے محمد بن قاسم رحمہ اللہ سے لیا اورانہیں قید خانے میں ہی اذیت پہنچا کرشہید کردیا۔

محمد بن قاسم رحمہ اللہ نے ان مفتوحہ علاقوں میں امن قائم کیا کہ جو لوگ برسوں سے وہاں کے راجائوں اوروڈیروں کی غلامی میں پس رہے تھے ،انہیں بھی سکون کا سانس لینا نصیب ہوا۔ لوگ شخصی غلامی سے نکل کر عزت کی زندگی گزارنے لگے اورسپہ سالارِ اسلام اورمسلمانوں کے رویے سے جس سے وہ پہلے بھی متاثرتھے، مزید گرویدہ ہوگئے۔مسلمانوں نے مملکت کے انتظامات بہتر بنائے اورنظام انصاف قائم کیا۔محاصل کی وصولی کے قواعدوضوابط اس قدر اعلیٰ و منظم تھے کہ عوام خوشی سے نہال تھی ۔کیونکہ مسلمانوں سے اراضی پر عشر ولگان وصول کیا جاتا اورغیر مسلموں سے خراج کی وصولی اورمسلم ریاست میں بسنے والے غیر مسلموں سے جزیہ کی وصولی کے بعدعوام کے لیے فلاح وبہبود کے کاموں میں خرچ کردیا جاتا اورجن کاشتکاروں کی پیداوار کم ہوتی ان سے لگان وصول نہیں کیا جاتا تھا۔مسلمانوں نے امن کی راہ میں روڑے اٹکانے والوں اورناصرف مسلمانوں بلکہ انسانیت کے دشمنوں کی جہاں سرکوبی کرکے عوام الناس کوان کے ظلم سے راحت پہنچائی وہاں وصول شدہ رقم عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر خرچ کی جاتی تھی۔اس کے ساتھ ساتھ عام آدمیوں ،عورتوں اوربچوں کواسی طرح زندگی گزارنے کے مواقع میسر تھے جیسا کہ کسی فاتح مسلمان کو حاصل تھے۔بزرگوں اورپرامن شہریوں کوکئی تکلیف نہیں دی گئی ۔احترام انسانیت کے ان مناظر نے بہت جلد ہی سپہ سالارِ اسلام محمد بن قاسم رحمہ اللہ کو اہلِ سندھ کا گرویدہ بنادیا۔ یقینا یہ واقعی حیرت والی اورچونکا دینے والی بات تھی کی 17سالہ نوجوان نے ناصرف اپنے سے عمر میں بڑے اورتجربہ کار مشرک جتھوں کو شکست دینے کے ساتھ ساتھ امن بحال کردیا،اس لیے ان کے اقدامات مقامی باشندوں کو چونکا دینے اورورطہ حیرت میں ڈالنے والے تھے۔
سپہ سالارِاسلام محمد بن قاسم رحمہ اللہ کی تاریخ پیدائش مورخین نے 75ہجری لکھی ہے البتہ جس وقت انہوں نے سندھ کومکمل طور پر فتح کرلیا اس وقت وہ 18برس کے ہوچلے تھے۔ہند میں ذات پات کی وجہ سے جن قوموں کوانسان تک نہیں سمجھا جاتا تھا انہیں انسانیت کے مقام پر فائز کرکے اورعزت سے نوازنے کی وجہ سے ان میں ہیرو کا درجہ حاصل کیا اوروہ لوگ محمدبن قاسم کو اپنا خیرخواہ ،مسیحا اوربھائی سے قریبی سمجھنے لگے۔اس لیے جب انہیں گرفتار کرکے واپس بھیجا گیا تو یہاں کے لوگ صدمے سے دھاڑیں مار مار کررونے لگے حتی کے شہر کیراج (کیرا) میں ان کی مورتیاں بنا کرلگائی گئیں۔محمد بن قاسم رحمہ اللہ کو نئی حکومت کی اس روش پر بہر غمناک ہوئے اوران کے اس طرزِعمل پرالعرجی کا یہ شعر پڑھا
أَضَاعُوْنَیْ وَأَیَّ فَتیً أَضَاعُوْا
لِیَوْمٍ کَرِیْھَۃٍ وَسَدَادٍ ثَغْرٍ
’’مجھے یہ لوگ کھو بیٹھے اورکیسے جوانمرد کو کھو بیٹھے جو جنگ کے دن اورسرحد کی حفاظت کے لیے کام آیا کرتا تھا۔‘‘
یہ 96ہجری (715ء) کا فسوسناک واقعہ ہے۔یوں اسلامی تاریخ ایک روشن باب آپس کی عصبیت کی نظرہوا اورمسلمان ایک بہادر سپہ سالار سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوگئے ۔ایک ایسا سپہ سالار کہ جو چاہتا تو سب لوگوں کو ایک اشارہ کرتا اورسب تیروتلوار لیے اس کے ایک اشارے پر کٹ مرنے کے لیے تیارہوجاتے مگرلوگوں کے اصرار کے باوجود بھی بغاوت پر نہ تلا۔بلکہ اطاعت میں ہی کٹ گیا،مگر تاریخ کے اوراق کراپنے پاک خون سے ہمیشہ کے لیے سرخ کرکے یہ پیغام دے گیا کہ حق کا راستہ ہمیشہ مصائب سے گھراہوا ہے اورراحتیں فقط رب کی جنتوں میں ملیں گے۔اللہ تعالیٰ اس عظیم سپہ سالار کی قربانیاں قبول فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اورآج اس کے نقش پا پر چل کر مظلوم مسلمانوں کی دادرسی کرنے کے توفیق عطا فرمائے۔اس وقت امتِ مسلمہ ذلت ورسوائی میں ڈوبی نظرآتی ہے۔اس امت کوگھِن لگ چکا ہے جواسے اندر ہی اندرسے کھائے جارہاہے۔اندرونی وبیرونی دشمن امت کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں مگن ہیں۔ہر طرف مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔آزمائشوںاور مصائب کے بظاہراََنہ ختم ہونے والے سلسلے جاری ہو چکے ہیں۔جدھر بھی نگاہوں کارخ اٹھتا ہے تو نظریں یہ مشاہدہ کرتی ہیں کہ مسلمان کٹ رہے ہیں ،پِٹ رہے ہیں ،کفار کے ظلم وستم کاہدف بنے نظرآتے ہیں ۔ ان کے قرآن کو جلایا جارہا ہے ۔ان کے نبی کی توہین کی جارہی ہے۔ان کی مساجد کو گرایا جارہاہے۔ان کے دین کی ہر نشانی کو مٹانے کی تگ ودو کی جارہی ہے۔ آج امت کسی محمد بن قاسم جیسے مسیحا کی منتظر ہے مگرمحمد بن قاسم کے جانشین دنیا کی رنگینیوں اورچاشنیوں میں اپنی جوانی کے مقاصد سے بے بہرہ ہوچکے ہیں۔ فضولیات میں اپنی جوانی کو ضائع کرکے دنیاوآخرت کی رسوائی کا سامان کررہے ہیں ۔اس لیے ابھی وقت ہے کہ پلٹ آئو کہیں دیر نہ ہوجائے۔

تحریر:حبیب اللہ خان پاندہ
جامعہ الدراسات الاسلامیہ کراچی
رابطہ:8939478@gmail.com

No comments:

Post a Comment