بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
تحریر: حبیب اللہ جامعہ الدراسات الاسلامیہ کراچیرابطہ:Email:8939478@gmail.com Fb:ha8939478@gmail.com
امن کے متلاشی اہلیانِ کراچی
کراچی میں ٹارگٹ کلنگ روزانہ کا معمول بن چکا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ جس دن اخبارات یا میڈیا میں اموات و زخمی کی خبریں سننے کو نہ ملتی ہوں ۔ یہ وہی کراچی ہے جو روشنیوں کے شہر سے مشہور تھا۔ لیکن ناجانے اس جگمگاتے شہر کو کس کی نظر لگ گئی ہے۔ کل جو روشنیوں سے رنگین تھا آج وہ خون میں رنگین ہے۔ آئی دن ہڑتالیں، مظاہرے، احتجاج، بم دھماکے اور نت نئے طریقوں سے کراچی کے امن کو تباہ و برباد کیا جارہا ہے۔ سارے وطن کا حال بھی کچھ اس سے مختلف نہیں۔ گھر سے نکلنے والا ہر شخص یہ سوچ کر نکلتا ہے کہ شاید آج یہ میری زندگی کا آخری دن ہو۔
شاید اس کے بعد میں اپنے اہلِ و عیال کو نہ دیکھ پاو ¿ں۔ کاروباری حضرات ہوں یا دکاندار، فیکٹری مالکان ہوں یا امراءسب اپنی جگہ خوف و ہراس کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ اس کے ساتھ یہ کراچی کا خاصہ ہے یا بد نصیبی کہ مرتا کوئی ہے اور سزا کوئی بھگتتا ہے۔ ایک شخص کے قتل کی خبر پر ہزاروں اشخاص کی زندگی مفلوج کردی جاتی ہے۔ کہیں بینک اور دکانوں کو لوٹا جا رہا ہے۔ تو کہیں انہیں آگ سے بھڑکایا جا رہا ہے۔ کہیں گاڑیوں کو جلایا جا رہا ہے تو کہیں لوگوں کو خاک و خون میں تڑ پایا جا رہا ہے۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ مرے کوئی اور اجڑیں بے شمار غریب۔ یہ بات تو عیاں ہے کہ ہڑتالیں ہوں یا مظاہرے اس کے نتیجے میں ہمیشہ بیچارے غریب ہی متاثر ہوتے ہیں۔ ارباب ِ اختیار اور سیاستدان تو مال و دولت کے نشے میں بدمست ہیں۔
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور یہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔اس لیے تو اسے ”منی پاکستان“ کا نام دیا گیا ہے۔ مگر افسوس! آج منی پاکستان بھی خون میں لت پت ہے۔ اس میں بیرونی سازشوں کے ساتھ ساتھ اندرونی کالی بھیڑیں بھی اپنے مطلوبہ مقاصد کے حصول کے لیے بھرپور تندہی سے مگن ہیں۔ اہلیانِ کراچی پر ہر وقت موت کا خوف سوار رہتا ہے۔ کراچی کے باسی امن کو ترس گئے ہیں۔ اس امن کی تلاش میں کبھی عدالتوں کا رخ کرتے ہیں تو کھبی سیاستدانوں کی چوکھٹوں پر سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ مگر وہ حقیقی امن دینے والی ذات کو بھلا چکے ہیں۔ عوام کی اکثریت اطاعتِ الٰہی سے بیزار نظر آتی ہے۔ آج ہم اپنی زندگیوں میں نظر دوڑائیں ، نظر آتا ہے کہ ہم نے اسلام سے کنارہ کشی اختیار کر کے اسلامی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ دین کو گلے کا طوق سمجھ کر اتار پھینکا ہے۔ بقولِ شاعر
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے
پھر بھی یہ ہماری سمجھ نہیں آرہا کہ ہم پرذلتیں کیوں مسلط ہو چکی ہیں۔ اس سوال کا جواب قرآن میں اللہ تعالیٰ کچھ اس طرح سے دیتا ہے کہ جو ہمارے ذکر (قرآن و حدیث) سے منہ موڑ لیتے ہیں ہم ان کی زندگیوں کو تنگ کر دیتے ہیں۔ (طہٰ : 124 )
ہاں ہاں! یہی تو وجہ ہے کہ ہم نے اسلامی تعلیمات سے منہ موڑ لیا ہے۔ اس لیے امن ہماری زندگیوں سے نکل چکا ہے۔ ہم امن کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ مگر ناجانے امن کیوں ہم سے دور بھاگتا ہے۔ ہم پر جو کھٹن حالات آچکے ہیں یہ بھی عذاب کی ایک شکل ہے۔ قرآن نے سابقہ تمام اقوام پر آنے والے عذاب کے اسباب کو ذکر کردیا ہے۔ کہ ” ہم نے سابقہ اقوام کو گناہوں کی وجہ سے پکڑ لیا کچھ پر ہم نے تندو تیز طوفان بھیجے بعض کو ہم نے زبردست چیخ کی آواز سے (دل چیر کر) ہلاک کردیا۔ کچھ اقوام کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا ، کچھ اقوام کو ہم نے پانی میں غرق کردیا اور اللہ کسی پر بھی ظلم نہیں کرتا مگر حقیقتاََ لوگ ہی اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔“ (العنکبوت: 40 ) آج ذلت و رسوائی کی یہی تو وجہ ہے کہ سابقہ تمام اقوام جن جرموں کے نتیجے میں تباہ و برباد کردی گئیں وہ تمام اقوام کا مشترکہ سب سے بڑا جرم شرک تھا۔ وہ قوم کے خون میں سرایت کر چکا ہے۔ اسی طرح تکبر، فحاشی، بے حیائی، نا انصافی، جھوٹ، دھوکہ، غیبتِ چغلی، غرض کون سی برائی ہے جو ہمارے اندر نہ پائی جاتی ہو۔ پھر مزید عصبیت کی صورت میں خوفناک مرض قوم کو لاحق ہو چکا ہے۔ جس نے ایک دوسرے کے خون کا پیاسہ بنا دیا ہے
آج ہر طرف شرک و بدعات ، سودی نظام اور اللہ کی نافرمانیوں کا دور دورہ ہے۔ اس کے باوجود ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ امن ہم سے کیوں دور بھاگ گیا ہے۔ بھلا گھر میں لگی آگ بجھائے بغیر امن کی توقع کی جا سکتی ہے؟جس کے بارے میں شاعر کہتا ہے
تعصب نے اس صاف چشمے کو آکرکیا بغض کے خار و خس سے مکدربنے خصم جو تھے عزیز اور برادرنفاق اہلِ قبلہ میں پھیلاکرنہیں دستیاب ایسے اب دس مسلماںکہ ہو ایک کو دیکھ کر دوسرا شاداں
ہاں ہاں ! جہاں اللہ کے نظام کو ٹھکرادیا جائے۔ جہاں بے حیائی اور فحاشی عام ہو ۔ بھلا وہاں امن آسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ آج ہم نے اللہ سے بے وفائی کی ہے تو ہمیں راحت اور سکون والی زندگی کیسے میسر ہو سکتی ہے۔ امن و امان اور برکتوں کا نزول کیسے ہوگا؟ امام احمد کتاب الزھد میں حدیث قدسی نقل کرتے ہیں کہ ”میں اللہ ہوں جب میں(انسانوں کی نیکیوں سے) خوش ہوتا ہوں تو اپنی برکتوں کے دروازے کھول دیتا ہوں۔ لیکن جب (انسانوں کی بداعمالیوں کے سبب سے) مجھے غصہ آتا ہے میری لعنتیں (دنیا والوں پر) برسنے لگتی ہیں جن کی زد میں معصوم سات سال کا بچہ بھی آجاتا ہے۔“
آج ہم نے انصاف نہیں کیا۔ امن انصاف سے آئے گا اور انصاف اس وقت ممکن ہے جب ایمان پختہ ہو۔ جب اللہ کے بندے انصاف کا دامن ہاتھ میں تھام کر اللہ کی زمین پر طرقِ ایمان کے راستوں پر گامزن ہوں گے۔ تو پھر حقیقی انصاف بھی قائم ہوگا ۔ امن بھی آئے گا۔ برکتوں کا بھی نزول ہوگا۔ پھر منی پاکستان کے ساتھ ساتھ پورا وطن امن و امان سے شاداں اور فرحاں ہوجائے گی لیکن اللہ کی زمین پر غیروں کی حاکمیت اور نظام چلیں گے تو امن کا سوچنا ہی فضول ہے۔ اس سے امن اور بھاگے گا اور فساد برپا ہوگا۔ دنیا کے نظام تو عارضی ہیں۔ چاہے ظاہراََجتنے بھی رنگین ہوں۔ حقیقی نظام تو اللہ کا بنا ہوا ہے۔ اسی پر عمل پیرا ہو کر امن ممکن ہے۔ اگر اہلیانِ کراچی موجودہ مصائب سے نجات پانا چاہتے تو پھر اسی نظام کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال لیں۔
No comments:
Post a Comment