بچوں کی دنیا

بسم اللہ الرحمن الرحیم

گمنام اللہ والا

دریا کا پانی خوش کن منظر پیش کررہا تھا۔وہ شخص دریا کے کنارے چلتا ہی جا رہا تھا،یہ بغدادکا رہائشی تھا۔اللہ کی بنائی ہوئی صنعت کاری کو دیکھ کروہ اللہ کا شکر ادا کرتا جارہا تھا۔کچھ ملاح اپنی کشتیوں پرمسافر بٹھائے منزل کی جانب رواں دواں تھے۔کچھ مسافروں کے انتظار میں تھے،کب کوئی مسافر آئے اوروہ اس کو لے کر روانہ ہوجائیں۔کیونکہ ان ملاحوں کی زندگی کا دارومدار اسی پر تھا۔ملاح سارا دن مسافروں کو دریا کے آرپار لاتے جاتے اور پھر جو رقم اکھٹی ہوتی تھی اس سے اپنے اہل وعیال کا پیٹ پالتے۔ وہ سارے منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوا چلتا ہی جارہا تھا۔ چلتے چلتے اس کے قریب سے ایک کشتی گزری جو باالکل آہستہ رفتار میں دریا کے کنارے کے ساتھ ساتھ منزل مقصود کی جانب رواں دواں تھی۔اس میں 30کے قریب مٹکے رکھے ہوئے تھے۔
’’ان میں کیا ہوسکتا ہے؟‘‘وہ دل ہی دل میں بڑبڑایا۔’’ممکن ہے کوئی ضرورت کی شے ہو لیکن یہ مٹکے تو شراب کے لگ رہے ہیں۔‘‘
وہ اچانک رک گیا اور اس کشتی کی جانب تیزی سے بڑھا۔کشتی کے قریب پہنچ کر اس پر سوار ہوگیا۔کشتی کا مالک یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ یہ کون اجنبی ہے اور اس طرح کشتی پر کیوں چڑھ آیا ہے۔اس سے پہلے کہ کشتی والا اس سے اس کی حرکت کے بارے میں کچھ پوچھتا اس نے فوراً ہی سوال داغ دیا:’’ان میں کیا ہے؟اور یہ کس کے لیے لے کر جارہے ہو؟‘‘کشتی والا اس سے مخاطب ہوا کہ:’’تمہیں اس سے کیا غرض کہ ان میں کیا ہے اور کہاں لے کر جارہا ہوں؟‘‘ اس نے جھٹ سے کہا:’’میںنے جو پوچھا ہے جواب دو ،ان میں کیا ہے اور یہ کہاں لیے جارہے ہو؟‘‘کشتی والے کی طرف سے انکار تھا مگر اس کی طرف مسلسل اصرار تھا۔آخر کار کشتی والے کو ہارماننا پڑی اوراسے یہ بتانا ہی پڑا کہ ان میں کیا ہے اور یہ کہاں لیے جارہا ہے۔کشتی والا کہنے لگا:’’أَنْتَ وَاللّٰہِ!کَثِیْرُ الْفُضُولِ ھَذٰا خَمْرٌ لِلْمُعْتَضِدِ‘‘ کہا:’’اللہ کی قسم آپ بڑے فضول گو آدمی ہیں،یہ خلیفہ معتضد کے لیے لیئے جارہا ہوں اور ان میں خلیفہ کے لیے شراب ہے۔‘‘کشتی والے کی زبان سے جیسے ہی یہ الفاظ ادا ہوئے،الفاظ کا سلسلہ منقطع ہوتے ہی اس شخص کا ہاتھ حرکت میں آیا۔ہاتھ میں موجود لاٹھی مٹکوں پر برسانا شروع کردی۔مٹکے لاٹھی کا وار کہاں برداشت کرنے والے تھے،یکے بعد دیگرے ٹوٹتے چلے جارہے تھے۔اس دوران ملاح بہت پریشان ہوا،اس کا روکنا چاہا مگر ناکام رہا۔ملاح نے مدد کے لیے چیخ وپکار شروع کردی۔اس کی آواز سن کر لوگ اکھٹے ہوگئے۔اس کی لاٹھی کی ضرب سے سارے مٹکے ٹوٹ چکے تھے صرف ایک مٹکا سلامت رہ چکا تھا۔لوگوں نے اس مٹکے توڑنے والے شخص کو پکڑ لیااور فوراً پولیس کو اطلاع کردی۔کچھ ہی دیر میں پولیس آن پہنچی۔پولیس نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا،کیونکہ اس نے شاہی کشتی پر موجود شراب کے شاہی مٹکے توڑ ڈالے تھے۔انہوں نے اس کو پکڑ کر فوراً معتضد کے سامنے پیش کردیا۔خلیفہ معتضد نے پوچھا:’’من انت؟ ویلک‘‘ ’’تو برباد ہوجائے آخر تو کون ہے؟‘‘اس نے کہا:’’أنا محتسبٌ‘‘’’میں محتسب ہوں‘‘(یعنی امر باالمعروف اور نھی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے والا ہوں)معتضد نے پوچھا:’’تمہیں اس کا م کے لیے کس نے مقرر کیا ہے؟‘‘اس نے جواب دیا:’’امیرالمؤمنین !جس ہستی نے آپ کو خلیفہ بنایا ہے ،اس ہستی نے مجھے محتسب مقرر کیاہے‘‘یہ سنتے ہی معتضد کا سرشرم کے مارے جھک گیا۔جھکے سرمعتضد نے اس نے پوچھا:’’تمہیں ایسا کرنے کی جرأت کیسے ہوئی اور تم نے یہ کام کیوں کیا؟‘‘وہ کہنے لگا:’’تمہارے ساتھ محبت اور پیار کی وجہ نے مجھے اس کام پر مجبور کیا ،کیونکہ یہ چیز تمہارے لیے نہایت غیرمفید،ضرررساں اورنقصان پہنچانے والی تھی۔‘‘خلیفہ نے اپنے سرکو جھکائے رکھا اور اس سے پھر پوچھا:’’اچھا اگر مٹکے توڑے تھے تو سب توڑتے ،آخر ایک مٹکا کیوں بچا دیا اسے کیوں نہیں توڑا؟‘‘وہ کہنے لگا:’’میں نے جب ان مٹکوں پر اپنی لاٹھی چلائی تھی اس وقت صرف اللہ کی رضا میرے دل میں تھی۔صرف اس کی جلالت کی وجہ سے میں نے ان مٹکوں کو توڑا تھا۔مگر جب وہ آخری مٹکا بچا رہ گیا تھا میرے نفس نے مجھے یہ کہا کہ میں نے کتنابڑا کام کردیا ہے،سارے شراب کے مٹکے توڑ دیئے ہیں۔یہ جاننے کے باوجود کہ یہ خلیفہ کا مال ہے،مگر اللہ کی رضا کو خلیفہ پر ترجیح دی ہے۔جیسے ہی میرے دل میں یہ خیال آیا میں نے اپنا ہاتھ روک لیا کیونکہ اب میرے نفس کا معاملہ آچکا تھا۔‘‘

معتضد نے کہا:’’جائو ہم نے تمہیں واقعی محتسب مقرر کرتے ہیں ،آج کے بعد جو برائی نظر آئے اسے فوراًمٹا دینا۔‘‘وہ کہنے لگا :’’اب یہ کام کرنے کا میرا بالکل ارادہ نہیں رہا ۔‘‘خلیفہ نے پوچھا :’’کیوں کیا وجہ ہے؟‘‘اس نے جوباًکہاـ:’’کیونکہ پہلے یہ کام رب کی رضا کے لیے اوراس کی مدد سے کرتا تھا،اور اب تمہیں راضی کرنے کے لیے پولیس کی مدد سے کروں گا۔‘‘معتضد کہنے لگا:’’اچھا کوئی ضرورت ہو تو بتائو ہم پوری کریں گے۔‘‘وہ کہنے لگا:’’مجھے کوئی ضرورت نہیں ،ہاں البتہ!مجھے اس دربار سے بغیر کسی نقصان کے جانے دیں اور کوئی شخص میرے راستے میں رکاوٹ نہ بنے۔‘‘معتضد نے سب سپاہیوں اور درباریوں کو حکم دیا کہ اس کی راہ چھوڑ دی جائے اور کوئی اس سے کچھ نہ پوچھے۔سب ہٹ گئے،راستہ خالی پاکر وہ فوراً ہی دربار سے نکلا اور غائب ہوگیا۔وہ بغداد سے نکلا اور بصرہ جاکر گوشہ نشینی کی زندگی بسر کرنے لگا تاکہ کوئی معتضد کے کہنے پر بلانے نہ آجائے۔جب معتضد نے وفات پائی تو اس وقت یہ بصرہ واپس آگیا۔یقیناآپ اس کانام جاننے کے لیے بے تاب ہورہے ہوں گے۔تو لیجیے ہم نام بتائے دیتے ہیں۔اس گمنام اللہ والے کانام ’’ابوحسین احمد بن محمدخراسانی نوری‘‘تھا جو کہ خلیفہ معتضد کے زمانے میں بغدادکا رہنے والا تھا۔اس کی وفات سن295ہجری میں ہوئی۔

بحوالہ:’’انظر المختصر ھذہ القصۃ فی المکتبۃ الشاملۃ کتاب سیرأعلام النبلاء:(76/14)مؤسسۃ الرسالۃ بیروت‘‘

تحریر:حبیب اللہ 
جامعۃ الدراسات الاسلامیہ کراچی

No comments:

Post a Comment