Thursday 12 January 2017

بے حیائی کے داعی سائن بورڈ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
تحریر: حبیب اللہ جامعہ الدراسات الاسلامیہ کراچی
رابطہ:Email:8939478@gmail.com Fb:ha8939478@gmail.com


بے حیائی کے داعی سائن بورڈ

غیرت قابل ممدوح صفت ہے۔ دنیا میں ہمیشہ غیرت مند اقوام کو اچھی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ غیرت کا تعلق حیا سے ہے۔ جب تک قومیں حیا کے دامن کو تھامیں رکھتی ہیں ۔ اس وقت تک وہ غیرت مند کہلاتی ہیں ۔ غیرت مند اقوام کو ہی دنیا میں حکمرانیاں ملا کرتی ہیں۔ 
غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں 
پہناتی ہے درویش کو تاج سرداراں 

لیکن جن قوموں کے افراد حیا کی چادر کو تارتار کردیں ۔ بے حیائی کو دل میں سمالیں ۔ نظریں جھکانے کے بجائے اٹھالیں ۔ شرافت سے جان چھڑا کر بے غیرتی کی زندگی کو ترجیح دینے لگیں ۔ تو ایسی اقوام دنیا سے جلدہی مٹ جایا کرتی ہیں ۔ ان کا نام و نشان تک باقی نہیں رہتا۔ قوم لوط کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ جب وہ اعلانیہ بے حیائی کے کاموں میں مگن ہوگئے ۔ تو اللہ کے غضب نے انہیں برباد کردیا۔ غیرت انسانی کو خاک میں ملانے میں دو چیزیں بڑا کردار ادا کرتی ہیں۔ وہ بے حیائی اور فحاشی ہے۔ اسلام نے بے حیائی و فحاشی کو ناپسند قرار دیا ہے۔ قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : ” (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) فرما دیجئے یقینا میرے رب نے بے حیائی کو وہ ظاہر ہو یا باطن حرام قرار دیا ہے ۔“ (الاعراف:33 )


 میں آپ کے سامنے کسی سینما کی مثال پیش نہیں کرتا اور نہ ہی کسی فحاشی کے اڈے کی بات کررہا ہوں ۔ میں تو یہ بتانے لگا ہوں کہ آج کراچی کے بازاروں میں جہاں بھی جائیں ۔ ہر طرف فحاشی ، عریانی و بے حیائی سے بھرپور تصاویر عام ہیں ۔ کسی بھی کمپنی نے اپنی مصنوعات کی تشہیر کرانی ہو تو جب تک کسی خاتون کی عریاں تصویر سائن بورڈ پر شایع نہ کی جائیں تو اس وقت تک اس سائن بورڈ کو نامکمل سمجھا جاتا ہے ۔ آج ایسی عریاں تصاویر آپ کو کراچی کی تمام شاہراہوں اور چوراہوں پر سائن بورڈ کی صورت میں دیکھنے کو ملیں گی۔ یہیں تک بس نہیں بلکہ کچھ کمپنیاں تو حد کر دیتی ہے ۔ ناصرف تصاویر بلکہ حیا سے عاری جملے بھی پڑھنے کو ملیں گے ۔ یہ صرف بڑی مصنوعات کی تشہیر کے لئے نہیں بلکہ چھوٹی سے چھوٹی چیزیں جن میں سرفہرست صابن، شیمپو، کریم، ٹوتھ پیسٹ ، ٹافی ، بسکٹ ، پانی، سری لیک، ہاشمی سرمہ، غرض اس جیسی بہت سے مصنوعات کے اشتہارات آپ کو نظر آئیں گے۔ کسی بھی چیز کی تشہیر کے لیے عورت کی تصویر کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ یہ صرف سائن بورڈ تک محدود نہیںہے بلکہ عام اشتہارات یا اخباری اشتہارات میںبھی یہ چیزیں دیکھنے کوملیں گی۔

 غرض آج نظر کی حفاظت کرنا ناممکن نظر آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی تصویر کے بغیر مصنوعات کی تشہیر ممکن نہیں ؟ اس فحاشی و بے حیائی کی تصاویر کے ذریعے نوجوان نسل کے اذہان کو منتشر کیا جا رہا ہے۔ جب نوجوان نسل ہر طرف فحاشی و عریانی کی نمائندہ تصاویر کو دیکھتے ہیں تو ان کے ذہن خود بخود ہی اس کی طرف مائل ہوکر اگلہ قدم اٹھانے پر مجبور کرتے ہیں۔ نتیجاََ پھر پارک غیر شادی شدہ جوڑوں سے بھرے نکل آتے ہیں۔ غرض نوجوان نسل کو تباہ کرنے کی بہت بڑی سازش اس میں نمایاں ہے۔ لیکن سماجی و صحافتی حلقے اس کو عیب سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ بلکہ یہ کام تسلسل سے جاری ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے۔ جب قوموں کے نوجوانوں کے اندر سے غیرت اور حیا کا مادہ نکال دیا جائے تو ایسی اقوام کا مقدر ہمیشہ مٹ جانا ہی ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جب تیرے اندر حیا نہ رہے تو پھر جو بھی جی میں آئے تو کرتا رہ۔ “ جب قومیں حیا سے تہی دامن ہوجاتی ہیں تو وہ تباہی کے دھانے پر پہنچ جاتی ہیں۔

ہاں ہاں ! آج ہم یورپ کی طرف نظر دوڑائیں وہاں بے حیائی اس حد تک عام ہو چکی ہے کہ ہم جنس جوڑوں کے آپس میں تعلقات قائم کرنے کو قانونی حیثیت مل چکی ہے۔ اور اس کے علاوہ روزانہ بے شمار معصوم کلیوں کو مسل دیا جاتا ہے۔ وہاں کی نوجوان نسل کی کثیر تعداد ایسی بھی ہے جنہیں اپنے باپ کا علم نہیں ۔ غرض اس بے حیائی سے تنگ آنے کا ہی نتیجہ ہے کہ یورپ میں کثیر تعداد میں اسلام قبول کرنے والوں میں عورتیں شامل ہیں۔ وجہ یہی ہے کہ ان ملک میں وحشی درندے ان کی حیا کے پردے تار تار کرتے ہیں۔ پھر جب وہ اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتی ہیں تو دین امن کو وہ اپنے دل میں سما لیتی ہیں کیونکہ اس میں حیا کا درس ملتاہے۔ 
آہ افسوس! وہ پاکستان جو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر بنا۔ آج یہاں کے کلمہ گو اپنی اصلاح کے بجائے اپنے کلمہ کو بدلنے پر مصر ہیں۔ اسلام تو کہتا ہے کہ جس گھر میں جاندار کی تصاویرہوں وہاں رحمتوں اور برکتوں کا نزول نہیں ہوتا۔ تو بھلا جس شہر کو بے حیائی کی تصاویر سے مزین کردیا گیا ہو۔ اس میں رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوگا؟ نہیں نہیں
وہاں رحمتوں اور برکتوں کا نزول تو درکنار بلکہ سابقہ نعمتوں کو بھی ایک ایک کرکے چھین لیا جاتا ہے۔ پھر وہاں اللہ کا غضب برستا ہے۔ آج ہماری سوچ ہے کہ وطن عزیز کو کسی کی نظر لگ گئی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس بربادی گلشن کا آغاز ہم نے اپنے ہی ہاتھوں سے کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چند سال پہلے جس کراچی میں امن و امان تھا اب وہاں موت عام ہے۔ خوف عام ہے۔ بے سکونی نے جڑیں مضبوط کرلی ہیں۔ لہٰذا کمپنی مالکان سے گزارش ہے کہ خدارا ہوش کے ناخن لو۔موجودہ حالات میں بے حیائی پر قابو پانا آپ کا فرض بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عقل جیسی عظیم نعمت سے انسان کو نوازا ہے۔ تصاویر کے بجائے کسی اور طریقے سے بھی مصنوعات کی تشہیر ممکن ہے۔ آپ بے حیائی کو فروغ مت دیں۔ اسی طرح میڈیا سے عرض ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں صرف مال کو اپنا مقصد مت بنائیں بلکہ قومی غیرت کا بھی لحاظ رکھیں۔ حیا کے دامن تھامے رکھیں۔ اسی میں خیر ہے ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” حیا سارے کا سارا خیر ہے“۔ (مسلم)

اگر آپ نے اس خیر کو ناپسند کیا اور بے حیائی کی ترویج میں مگن رہے۔ تو پھر قرآن کا فیصلہ بھی سن لیں: ” یقینا جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بے حیائی (فحاشی) عام ہو تو ان کے لئے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دردناک عذاب ہے اور اس بات کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ (النور19)

No comments:

Post a Comment