بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
شہد کی مکھی اور قرآن مجید
اللہ رب العالمین نے اس کائنات میں انسانوں کے علاوہ اوربھی کئی مخلوقات تخلیق فرمائی ہیں۔جواس رب کی تخلیق کی ایک عمدہ نشانی ہیں۔انسان جب ان کی تخلیق پر غورکرتا ہے اوراپنی ناقص عقل کے گھوڑے دوڑاتا ہے تواس کی حیرت کی انتہا نہیں رہتی۔انسان جو خودبھی مخلوق ہے مگراس کے ساتھ ساتھ اس کرہ ارض پرکچھ ایسی بھی مخلوقات ہیں کہ جنہیں غیرذوی العقول کی فہرست میں رکھا جاتا ہے۔مگران کے رہن سہن اورطرززندگی کاجب مطالعہ کیاگیا اورانسان ششدرررہ گیا۔حشرات الارض میں شہد کی مکھیا بھی شامل ہیں۔ان کارہن سہن، طرز زندگی،منظم ترتیب،کاموں کی تقسیم،ہرذمہ دار کاعلیحدہ کام اورغرض کہ انسانوں کی مانندایک پوری جماعت ہے کہ جو شہد کی مکھیوں کی صورت میں اپنے اپنے کاموں میں مگن ہوتی ہے۔ان کا کام صرف انسانوں کے فائدے کے لیے ان کی غذائیت کے لیے شہد تیار کرنا ہوتا ہے۔اس سے یہ بات بھی سمجھ آجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کے فائدے کے لیے کس قدر اورکتنی مخلوقات کو اس کام پر لگادیا ہے کہ وہ انسانوں کے فائدے کے لیے اپنی اپنی ذمہ داریاں سرانجام دیں اورانسانوں پراپنی عبادت کو فرض کیا۔
باقی کسی مصروفیت کو انسانوں پر لازمی قرار نہیں دیا،بلکہ صرف اورصرف اپنی عبادت ان پرفرض قرار دی۔مگرانسان اپنی دنیاوی اورعارضی ضروریات کواپنا فریضہ سمجھ کراللہ تعالیٰ کوبھلا بیٹھا ہے۔اس لیے اس طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے،تاکہ ہماری ناکامیوں کا ازالہ ہوسکے۔اللہ تعالیٰ کی ان مخلوقات پرغور کرنے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پرغوروفکرکی ضرورت ہے تاکہ انسان اپنے رب کی نعمتوں اورکرم نوازیوں کے ذریعے اپنا مقصد تخلیق اوراپنی ذمہ داریا پہچان کر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوسکے۔آئیے اب ہم اللہ تعالیٰ کی چھوٹی سی مخلوق یعنی شہد کی مکھی کے بارے میں اہم معلومات جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
شہد کی مکھی مفاد پرست انفرادیت پرست نہیں ہوتی بلکہ اسے جب بھی کوئی نیا باغ یا نیا پھول نظرآتا ہے توپھرباقی مکھیوں کواس کی اطلاع کرتی ہے۔مکھی کی یہ نقل وحرکت اوراپنی دوسری کارکن مکھیوں کو اطلاعات کی فراہمی کا ثبوت سائنسی طور پر تصویروں اور دوسرے طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے دریافت کر لیا گیا ہے۔قرآن مجید میں شہد کی مکھی کی جنس مونث بیان کی گئی ہے۔جو شہد کو اکٹھا کرنے کے لیے گھر سے نکلتی ہے۔دوسرےالفاظ میں سپاہی یا کارکن مکھی ایک مادہ مکھی ہوتی ہے۔شیکسپیئر کے زمانے تک لوگ یہی خیال کرتے تھے کہ کارکن مکھیا ں نر مکھیا ں ہیں جو اپنے بادشاہ مکھی کو جواب دہ ہیں تا ہم یہ بات غلط ہے کیونکہ کا رکن مکھیاںمادہ ہوتی ہیں اور یہ اپنی ملکہ مکھی کو جواب دہ ہوتی ہیں مگر یہ بات جدید تحقیق کے بعد سامنے آئی ہے جو پچھلے 300سال سے جاری تھی۔(1)
اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کے بارے میں درج ذیل آیت کریمہ میں ارشاد فرما یا ہے:( وَاَوْحٰی رَبُکَ اِلَی النَّحْلِ اَنِ ا تَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتاً وَّ مِنَ الشَّجَرِوَمِمَّا یَعْرِشُوْن . ثُمَّ کُلِیْ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ فَا سْلُکِیْ سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلاً ْ یَخْرُ جُ مِنْ بُطُوْنِہَا شَرَاب مُّخْتَلِف اَلْوَانُہ فِیْہِ ِشفَآءُ لِّلنَّاس ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰ یَةً لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ)” نیز آپ کے پروردگار نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی کہ پہاڑوں میں ،درختوں میں ، اور (انگور وغیرہ کی )بیل میں اپنا گھر (چھتا)بنا۔پھرہر قسم کے پھل سے اس کا رس چوس اور اپنے پروردگار کی ہموار کردہ راہوں پر چلتی رہ۔ان مکھیوں کے پیٹ سے مختلف رنگوں کامشروب (شہد)نکلتا ہے جس میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔یقینا اس میں بھی ایک نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غورو فکر کرتے ہیں۔”(2)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے لفظ ” کُلِی” فرمایا ہے جس کے معنی ہیں ” تو کھا اور یہ صیغہ امر واحد مونث حاضر” کا ہے (3)۔جس سے صاف ظاہر ہے کہ قرآن شہد کو اکٹھا کرنے والی مکھیوں کی جنس مونث بیان کر تاہے اور اس بات کا علم جدید تحقیقا ت کے بعدہی انسان کو ہو سکا ہے۔ جو قرآن کے منجانب اللہ ہونے کی ایک اور واضح دلیل ہے۔ نحل شہد کی مکھی کو کہتے ہیں جو عام مکھی یعنی ذباب سے بڑی ہوتی ہے اور اس سورة کا نام ”النحل”اسی نسبت سے ہے کہ اس سورت میں نحل کا ذکر آیا ہے۔ اس مکھی کی طرف وحی کرنے سے مراد فطری اشارہ یا تعلیم ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کی جبلت میں ودیعت کر رکھی ہے جیسے کہ بچہ پیدا ہوتے ہی ماں کی چھاتیوں کی طرف لپکتا ہے تاکہ وہاں سے اپنے لیے غذ ا حا صل کر سکے حالانکہ اس وقت اسے کسی بات کی سمجھ نہیں ہوتی۔ یہ اسی فطری وحی کا اثر ہے کہ وہ اپنے لیے ایسا چھتا یا اپنا گھر بناتی ہے جسے دیکھ کر انسا ن حیران رہ جاتاہے اورایسامعلوم ہوتا ہے کہ کسی ماہر انجنیئرنے اس کی ڈیزائننگ کی ہے۔اس چھتے کا ہر خانہ چھ پہلو والا یعنی مسدس ہوتاہے جس کے تمام ضلعے مساوی لمبائی کے ہوتے ہیں اور اس طرح ایک دوسرے سے متصل یا جڑے ہوئے ہوتے ہیں کہ ان میں کہیں خالی جگہ کی گنجائش نہیں رہتی۔ انہیں خانوں میں مکھیاں شہد کا ذخیرہ کرتی ہیںاور بیرونی خانوں پر پہرہ دار مکھیا ں ہوتی ہیں۔ جو اجنبی مکھیوں یا کیڑوں کو ان خانوں میں گھسنے نہیں دیتیں۔ ایک مکھی ان مکھیوں کی سردار یا ان کی ملکہ ہوتی ہے جسے عربی میں یعسوب کہتے ہیں۔ باقی سب مکھیاں اس کی تابع فرمان ہوتی ہیں، مکھیاں اسی کے حکم سے رزق کی تلاش میں نکلتی ہیں اور اگر وہ ان کے ہمراہ چلے تو سب اس کی پوری حفاظت کرتی ہیں اور ان میں ایسا نظم وضبط پا یا جاتاہے جسے دیکھ کر انسا ن حیران رہ جاتاہے کہ اتنے چھوٹے سے جاندار میں اتنی عقل اور سمجھ کہا ں سے آگئی۔ مکھیا ں تلاش معاش میں اڑتی اڑتی دور دراز جگہوں پر جا پہنچتی ہیں اور مختلف رنگ کے پھلوں، پھولوں ،اور میٹھی چیزوں پر بیٹھ کر ان کا رس چوستی ہیں۔ پھر یہی رس اپنے چھتا کے خانوں میں لا کرذخیرہ کرتی رہتی ہیںاور اتنی سمجھدار ہوتی ہیں کہ واپسی پر اپنے گھر کا راستہ نہیں بھولتیں۔ راستے میں خواہ ایسے کئی چھتے موجود ہوں وہ اپنے ہی چھتا یا گھر پہنچیں گی۔ گویا ان مکھیوں کا نظم وضبط ،پیہم آمدورفت ،ایک خاص قسم کا گھر تیارکرنا ،پھر باقاعدگی کے ساتھ اس میں شہد کو ذخیرہ کرتے جانا ،یہ سب راہیں اللہ نے مکھی کے لیے اس طرح ہموار کر دی ہیں کہ اسے کبھی سوچنے اور غوروفکر کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔(4)
دنیا میں تمام جانور ،پرندے ،کیڑے مکوڑے اپنے تخفظ کے لیے گھر بناتے ہیںمگر جس طرح کا خوبصورت گھرشہد کی مکھی بناتی ہے اورپھر اس کا انتظام چلاتی ہے ‘کسی اور پرند اورچرند کے یہاں نہیں ملتا۔ شہد کی مکھی کا وجود اندازاً 10کروڑسال سے پایا جاتاہے۔ ان میں کام کرنے کے لحاظ سے مکھیوں کی درجہ بندی ہوتی ہے۔چھتے میں تین طرح کی مکھیاںہوتی ہیں۔ ملکہ مکھی، نکھٹومکھی اور کارکن مکھی۔ مکھیوں کا چھتا چھ کونوں والے خانوں پر مشتمل ہوتاہے،جن کی دیواریں موم سے بنتی ہیں۔ان میں دراڑوں اور سوراخوں کو بند کرنے کے لیے درختوں کی کونپلوں سے بیروزہ کی طرح کا ایک لیس دار مادہ Propolis حاصل کیا جاتاہے۔ان چھتوں میں درجہ حرارت کو قائم رکھنے کے لیے ایئر کنڈیشنڈ کا مربوط نظام ہے اور مکھیا ں اپنے پسندیدہ حالات میں شدید جدوجہد کی ایک فعال زندگی گزارتی ہیں۔یہ بات بڑی حیرت انگیز ہے کہ ان مکھیوں نے آٹھ ضلعی یا پانچ ضلعی کے بجائے چھ اضلا ع و الی مسدسی شکل کوکیوں چنا۔اس کی دلیل ریا ضی دان یہ دیتے ہیں:”چھ ضلعی ڈھانچہ ایک ایسی موزوں ترین جیومیٹری شکل ہے جس میں اکائی کا زیادہ سے زیادہ علاقہ استعمال ہو سکتاہے”۔اگر شہد کے چھتے کے خانوں کو کسی اور شکل میں بنایا جاتاتو غیر استعمال شدہ علاقے باقی رہ جاتے ہیں۔اس طرح کم شہد ذخیرہ ہو تااور کم تعدا د میں مکھیاں اس سے مستفید ہوتیں …علاوہ ازیں تعمیر ی لحاظ سے چھ ضلعی خانوں کے لیے کم سے کم موم کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ ان میں شہد کی زیادہ سے زیادہ مقدار ذخیرہ کی جاسکتی ہے۔شہد کی مکھیوں نے یقینایہ نتیجہ خود حساب کتاب کرکے نہیں نکالاہو گا۔اس پر تو انسان بہت سی پیچیدہ جیومیٹریائی جمع تفریق کے بعد پہنچا ہے۔ پیدائشی طور پرہی یہ چھوٹے چھوٹے جانور چھ ضلعی تعمیری شکل استعمال کرتے ہیں کیونکہ انہیں ان کے مالک نے اب تک یہی سکھایا اور اسی کی ان کے لیے ”وحی‘‘کی ہے۔چھتے میں جنسی طورپر نموپانے والی مکھی صرف ملکہ مکھی ہی ہوتی ہے اورجسامت کے لحاظ سے بھی یہ سب سے بڑی مکھی ہوتی ہے۔ کارکن مکھیاںملکہ مکھی کی پیدائش کے لیے 2دن کے لاروے کا انتخاب کرتی ہیں۔اوریہ 11دن کے بعد اپنے انڈے یا سیل سے برآمد ہوتی ہے۔اس کے بعد یہ 18نکھٹو مکھیوں(نر)کی ایک جماعت کے ساتھ جفتی کرتی ہے اوراس جفتی کے دوران یہ انڈے بنانے کے لیے لاکھوں جرثومے حاصل کرتی ہے ،جن کو یہ اپنی دو سالہ عمر کے دوران استعمال کرلیتی ہے۔ جفتی کے دس دن بعد ملکہ مکھی انڈے دینا شروع کردیتی ہے۔ یہ روزانہ3000 کے قریب انڈے دے سکتی ہے۔نکھٹو مکھی جو کہ نرمکھی ہوتی ہے ا س کا چھتوں میں شہدکے بنانے میں کوئی کردار نہیں ہوتا اورنہ ہی یہ پھولوں سے رس چوستی ہے ،اس کا صرف ایک کام ہے کہ وہ ملکہ مکھی کے ساتھ جفتی کرتی ہے۔ علاوہ ازیں اگر چھتے میں خوراک کی کمی وغیرہ ہو جائے تو انہیں چھتے سے باہربھی نکال دیاجاتاہے۔ کارکن مکھیاں جسامت کے اعتبارسے سب سے چھوٹی ہوتی ہیں۔ایک چھتے میں50000سے 60000کارکن مکھیاںہو تی ہیں،ان کی عمر بھی مختصر ہوتی ہے اور یہ 28سے 35دن تک ہوتی ہے ، تاہم ستمبراور اکتوبرکے درمیا ن پیدا ہونے والی مکھیاں سردیوں کا پوراموسم گزارتی ہیں۔یہ ایک منٹ میں11400دفعہ اپنے پروں کو پھڑپھڑاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی پرواز کے دوران ایک نمایاں بھنبھناہٹ سی محسوس ہوتی ہے۔ کارکن مکھیاں انڈوں سے بچے نکالنے،ان کو غذا مہیا کرنے اوران کے لیے رہائشی کمرے تیار کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتی ہیں۔ ان کی آبادیوں میں بے کار افرادکوقتل کر دیا جاتا ہے۔ کارکن مکھیا ں تمام دن اڑتی ہوئی پھولوں سے ”ماء الحیات ” Nectar تلاش کرتی ہیں۔ ہر پھول کے نیچے مٹھاس کا ایک قطرہ ہوتاہے۔مکھیا ں اس کی تلاش میں ڈال ڈال منڈلاتی ہیں اور جہاں سے مل جائے اسے اپنے منہ کی تھیلی میں رکھ کر چھتے کو لوٹ جاتی ہیں اور اپنی برادری کو اس علاقہ میں مزید ماء الحیات کی موجودگی یا غیر موجودگی کی اطلاع بھی دیتی ہیں۔ابتدائی طور پر اس ما ء الحیات میں 50سے 80 فی صد پانی ہوتاہے۔چھتے میں لے جاکر اسے گاڑھا کیا جاتاہے اورجب اس سے شہد بنتا ہے تو اس میں پانی کی مقدار16 سے 18 فی صد کے درمیان رہ جاتی ہے۔یہ مکھیا ں خط استوا کی حدت سے لے کر برفانی میدانوں کی برودت تک میں زندہ رہ سکتی ہیں۔مگر ان کے چھتے کا اندرونی درجہ حرارت 34سینٹی گریڈکے قریب رہتاہے۔اگرا س پاس کا موسم 49سینٹی گریڈ تک بھی گرم ہو جائے تو چھتا متاثر نہیں ہوتا۔ٹھنڈک میں زیادتی کی وجہ سے ذخیرہ پر گزر اوقات اور خوشگوار موسم کا انتظار کرتی ہیں۔ ایک چھتا سال میں تقریباً500 کلو گرام ماء الحیات حاصل کرکے اس سے شہد تیار کرتا ہے، چھتوں میں شہد کے علاوہ موم اور پولن کے دانے بھی ذخیر ہ کیے جاتے ہیں۔پھولوں کی پتیوں کے درمیان ان کے تولیدی اعضا ہوتے ہیں۔مکھی جب اس کو چوسنے کے لیے کسی پھول پر بیٹھتی ہے تو نر پھولوں کے تولید ی دانے اس کے جسم کو لگ جاتے ہیں جن کو Pollen کہتے ہیں۔ پولن کے دانے لگی مکھی جب دوسرے پھول پر بیٹھتی ہے تو اس کے نسوانی حصے ان دانوں کو اپنی جانب کھینچ کر باروری حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح مکھی کی اڑان زراعت کے لیے ایک نہایت مفید خدمت سرانجام دیتی ہے۔اور کہا جاتاہے کہ امریکہ میں پیدا ہونے والی 90اقسام کی زرعی پیداوار کی ترویج اور باروری صرف شہد کی مکھی کی مرہون منت ہے۔ پولن کے جو دانے بچ جاتے ہیں ان کو چھتے میں لے جا کر کارکنوں کی خوراک میں لحمی اجزا کے طور پر شامل کر دیا جاتاہے۔ان کی کچھ مقدار شہد میں بھی موجود ہوتی ہے۔(5)
پھولوں پر نشان لگانے کا طریقہ
جب کبھی کوئی شہد کی مکھی ایک پھول سے رس چوس کر لے آچکی ہو تو بعد میں آنے والی مکھی کو اس بات کا علم ہو جاتا ہے کہ کوئی مکھی پہلے بھی اس پھول کا رس لے گئی ہے۔ایسی صورت میں وہ اس پھول کو فوراًچھوڑ دیتی ہے۔ اس طرح اس کا وقت اور توانائی بچ جاتی ہے۔مگر بعد میں آنے والی مکھی کو اس بات کا علم کیسے ہو جاتا ہے کہ وہ پھول کی پڑتال کیے بغیر ہی سمجھ جاتی ہے کہ اس پھول کا رس پہلے ہی کوئی شہد کی مکھی چوس لے گئی ہے ؟یہ یوں ممکن ہو تاہے کہ وہ شہد کی مکھی جو پہلے اس پھول سے رس چوسنے آئی تھی وہ اس پھول پر ایک خاص قسم کے عطر کا ایک قطرہ گرا کر آئی تھی تاکہ اس کی آمد کا بعد میں آنے والی مکھی کو علم ہو جائے۔ جب کبھی بعد میں کوئی شہد کی مکھی اس پھول کو دیکھتی ہے وہ اس خوشبو کو سونگھ کر انداز ہ لگا لیتی ہے کہ پھول اب اس کے کسی کام کا نہیں رہا اور وہ کسی اور پھول کی جانب بڑھ جاتی ہے۔ اس طرح بعد میں آنے والی شہد کی مکھیاں اس پھول پر اپنا وقت ضائع نہیں کر تیں۔(6)
شہد بیماریوں کے لیے شفا ہے
( مُخْتَلِفُ اَلْوَانُہ فِیْہِ ِشفَآءُ لِلنَّاسِ ْ اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَاٰ یَةً لِقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ)
” مختلف رنگوں کامشروب (شہد)نکلتا ہے جس میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔یقینا اس میں بھی ایک نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غورو فکر کرتے ہیں۔”(7)
قرآن نے شہد کو ”شفاء للناس‘‘کہا ہے۔جس کی افادیت کو آج سائنس نے بھی تسلیم کر لیا ہے۔ شہد کے کئی رنگ ہوتے ہیں۔ زرد ،سفیدی مائل یا سرخی مائل یا سیاہی مائل۔ اور ان رنگوں کے بھی مختلف اسباب ہوتے ہیں۔ تاہم ہر قسم کے شہد میں چند مشترکہ خواص ہیں۔سب سے اہم خاصیت یہ کہ ہے بہت سی بیماریوں کے لیے شفا کا حکم رکھتاہے الا یہ کہ مریض خود سوء مزاج کا شکارنہ ہو جیساکہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے:
” سیدناابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:’’ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے پاس آکر کہنے لگا ”میرے بھائی کا پیٹ خراب ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اس کو شہد پلاؤ” وہ دوبارہ آ کر کہنے لگا ،یا رسول اللہ ! شہد پلانے سے تو اس کا پیٹ اور خراب ہو گیا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اللہ کا قول سچا اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے۔ جاؤ اسے پھر شہد پلاؤ”وہ تیسری بار آیا اور کہنے لگا ” میں نے شہد پلایا لیکن اسے اور زیادہ پاخانے لگ گئے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا ” اللہ نے سچ کہا اور تیرے بھائی کے پیٹ نے جھوٹ کہا ”اس نے پھر شہد پلایا تو وہ تندرست ہو گیا۔ ‘‘(8)
اس حدیث پر ڈاکٹر خالد غزنوی تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :” یہ حدیث علم العلاج اور ماہیت مرض کے بارے میں ایک روشن راہ ہے ،کیونکہ اسہال کا سبب آنتوں میں سوزش ہے ،جو کہ جراثیمی زہریعنی Toxin یا وائرس سے ہوسکتی ہے۔ اگر ایسے مریض کی آنتوں میں حرکات کو فوری طورپر بند کر دیاجائے تو سوزش بدستور رہے گی یا جراثیمی زہروہیں رہ جائے گا۔اس لیے علاج کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ پہلے آنتوں کو صاف کیاجائے۔پھر جراثیم مارے جائیں۔ شہد میں یہ صلاحیت تھی کہ وہ یہ دونوں کام کر سکتا تھا۔” (9)
شہد اور جد ید مشاہدات
٭ انگلستان میں سالفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر لاری کرافٹ نے حساسیت اور موسم بہار میں حساسیت کی وجہ سے ہونے والے بخار سے متاثرہ 200 مریضوں پر تجربات کے بعد ثابت کیا ہے کہ یہ عوارض کسی اور دوائی کو شامل کیے بغیر صر ف شہد سے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ڈاکٹر کرافٹ کے مطابق یہ شہد باغوں سے حاصل کیا گیا ہو اور اسے باربار یا زیادہ گرم نہ کیا گیا ہو۔گندم کے آٹے میں شہد ملا کر مرہم سی بنا کر پھوڑے پھنسیوں پر لگانا ‘ان کو مندمل کر دیتاہے۔ شہد میں سرکہ اورنمک ملا کر چھائیوں پر لگانے سے داغ دور ہوجاتے ہیں۔ روغن گل میں ملا کر گند ے زخموں پر بطور مرہم لگانے سے ان کی عفونت رفع کرکے انہیں ٹھیک کر دیتا ہے۔ عرق گلاب میں شہد ملا کر بالوں پر لگانے سے جوئیں مر جاتی ہیں۔ بال ملائم اور چمک دار ہوجاتے ہیں۔
٭جرمنی میں حال ہی میں ایک دوائی Nordiske Proplis کے نام سے تیار ہورہی ہے۔ جو کیپسول ،دانے دار شربت اور مرہم کی صورت میں تیارکرکے برلن کی Sanhelios کمپنی نے تحقیقات کے بعد مارکیٹ میں پیش کی ہے ،علاوہ ازیں ڈنمارک کے پروفیسر لنڈ اوردنیا کے دیگر ملکوں میں محققین نے یہ پتہ چلایا ہے کہ شہد میں ایک جراثیم کش عنصر Propils کے نام سے موجود ہے۔ لیبارٹری تجربات کے مطابق یہ پیپ اور سوزش پیدا کرنے والے جراثیم کو ہلاک کرنے کی استعدادد وسری تمام ادویہ سے زیادہ رکھنے کے علاوہ جسم کی قوت مدافعت میں اضافہ بھی کرتاہے۔
٭مختلف لیبارٹریوں میں مشاہدات کے بعد اسے ناک ،کان ،گلا،نظامِ انہضام،نظام تنفس اور اعصاب کی ہرقسم کی سوزشوں میں کسی بھی دوائی سے زیادہ مفید پایا گیا۔
٭یہ وہ منفرد دوائی ہے جو وائرس کو بھی ہلا ک کر سکتی ہے۔ انفلوئنزا اور زکام میں اس سے نہ صرف کہ مریض تندرست ہوگئے بلکہ اس نے جھلیوں کی جلن کو فوراً دور کر دیا۔
٭لندن کے مضافات میں کینٹ سے برطانوی اخبارات نے لکھاہے کہ جوڑوں کی بیماریوں کے سیکڑوں پرانے مریض پروپالس کے استعمال سے شفایاب ہوگئے۔
٭لاہور کے ایک دوافروش ادارہ ”شفا میڈیکوز ” نے ایک مرتبہ جرمنی سے شہد سے بنے ہوئے ٹیکے درآمد کیے۔ان ٹیکوں کے بارے میں دوا ساز ادارے کا دعوٰی تھا کہ یہ جسم سے کمزوری دور کرتے ہیں۔جسم سے حساسیت یعنی Allergy کو ختم کرتے ہیں۔ حساسیت سے پیدا ہونے والی جلد ی بیماریوں ،خا ص طور پر ایگزیما میں مفید ہیں ،جوڑوں کے درد میں معمولی تکلیف کے لیے ٹیکے گوشت یا ورید میں لگائے جائیں اور اگر جوڑ سوج گئے ہوں یا جوڑوں کی ہڈیاں گل رہی ہوں تو یہ ٹیکہ جوڑ کے اندر لگایا جائے۔ان ٹیکوں کا نام M-2-WOELUM تھا۔ انہیں جرمنی کے شہر کولون کی ویلم کمپنی نے تیار کیا اور دلچسپی کی بات یہ کہ انہوں نے اپنے طبی رسالہ میں بتایا کہ انہوں نے شہد کو اس طرح استعمال کرنے کا ر استہ قرآن مجید سے معلوم کیا۔
٭ امریکہ میں پروفیسر سٹوارٹ نے لیبارٹری میں تپ محرقہ اور پیپ پیدا کرنے والے جراثیم کی مختلف قسموں کو شہد میں ڈالا۔یہ حیرت انگیز مشاہدہ ہواکہ جراثیم کی کوئی بھی قسم شہد میںزندہ نہ رہ سکی۔(10)
شہد میں انسان کے لیے شفا ہے، اس سائنسی حقیقت کی تصدیق ان سائنس دانوں نے کر دی تھی جو 20-26ستمبر 1993ء میں چین میں منعقدہ عالمی کانفرنس برائے مگس بانی میں شریک ہوئے تھے۔ اس کانفرنس میں شہد سے تیا ر کی جانے والی دواؤں پر بحث کی گئی تھی۔ امریکی سائنس دانوں نے بطور خا ص یہ کہا ”شہد ،رائل جیلی ،زردانہ اور شہد کی مکھی کی رال بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں ”۔
رومانیہ کے ایک امراض چشم کے ڈاکٹر نے بتایا کہ اس نے ایسے مریضوں پر شہد کو آزمایا جو موتیا بند کے شکار تھے اور 2094مریضوں میں سے 2002مریض تندرست ہو گئے۔ پولینڈ کے اطبا نے بھی کانفرنس میں بتایا کہ شہد کی مکھی کی رال بہت سی بیماریوں کا علاج ہے جن میں Haemothoids ، جلد کے مسائل ،امراض نسواں اور بہت سی دوسری صحت کی خرابیا ں شامل ہیں۔(11)
شہد کی کیمیائی ہیئت انسانی جسم کی ساخت میں جتنے بھی کیمیاوی مرکبات استعمال ہوتے ہیں یا انسان کو ان کی ضرورت رہتی ہے، ان میں سے ہر عنصر شہد میں موجود ہوتاہے۔ اشیائے خوردنی میں حیاتین کی موجودگی کے بارے میں اصول یہ ہے کہ بعض خوراکیں ایسی ہیں جن میں حل پذیر وٹامن ہوتے ہیں اور بعض ایسی ہیں جن میں چکنائی میں حل ہونے والے وٹامن مثلاً A.D.E.Kپائے جاتے ہیں۔شہد وہ منفرد مرکب ہے جس میں ہر قسم کے وٹامن موجود ہیں۔شہد میں موجود مشہور عناصر ،مٹھاس ،فرکٹوس ،فارمک ایسڈ ،فرازی تیل ،موم اور پولن گرین Pollengrains ہوتے ہیں۔ 50- 60فارن ہائیٹ پر شہد دانے دار بن جاتاہے۔ اس کے اجزا میں اہمیت مٹھاس کوہے۔ کیمیاوی طور پر مٹھاس کی سب سے مشکل قسم نشاستہ ہے، جب ہم روٹی کی صورت میں نشاستہ منہ میں ڈالتے ہیں تو چبانے کے دوران تھوک کا جوہر PTYALINنشاستہ کو گلو کوس میں تبدیل کر دیتا ہے،جس سے ہم لقمہ کو چباتے چباتے مٹھاس محسوس کرنے لگتے ہیں۔قرآن مجید نے مکھیوں کے منہ میں متعدد قسم کے جوہروں کی نشاندہی کی ہے۔ اور علم کیمیا کی ترویج سے اس ارشاد ربانی کی صداقت کا عمل یوں معلوم ہوا ہے کہ یہ پھولوں سے حاصل ہونے والی چیزوں اور خاص طور پر پولن کے دانوں میں موجود نشاستہ کو فرکٹوس میں تبدیل کر دیتی ہیں۔اسی طرح مکھی کے راستہ میں چینی بھی آتی ہے۔جسے کیمیاوی طور پر SUCROSE کہتے ہیں۔مکھی کے منہ میں ایک ہاضم جوہر INVERTASE کے نام سے پایا جاتاہے۔ وہ چینی یا دوسری نشاستہ دار چیزوں کو آسان ساختوں کی مٹھاسوں یا INVERT SUGARS میں تبدیل کر دیتے ہیں۔(12)
شہد کا جوہر
( یَخْرُ جُ مِنْ بُطُوْ نِہَاشَرَابُ مُخْتَلِفُ اَلْوَانُہ فِیْہِ ِشفَآءُ لِلنَّاسِ)
”ان مکھیوں کے پیٹ سے مختلف رنگوں کامشروب (شہد)نکلتا ہے جس میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔”(13)
قرآن مجید اس امر کی نشان دہی کرتاہے کہ شہد کی مکھی کے پیٹ سے مختلف قسم کی رطوبتیں خارج ہوتی ہیں۔ جن کو علم طب میں ENZYMES کہتے ہیں۔یہ جوہر مختلف امراض کے علاج میں مفید ہیں۔اس آیت کا مفہوم تب معلوم ہوا ،جب جرمن کیمیا دانوں نے شہد سے”شاہی موم” ”ROYAL JELLY”نام کا عنصر علیحدہ کرلیا۔ اس انکشاف نے قرآن مجید کی صداقت اور افادیت کو واضح کر دیا۔ اب اس آیت سے مرادصرف شہد نہیں بلکہ وہ علیحدہ جوہر ہیں جو مکھی کے پیٹ سے پیداہوتے ہیں۔شاہی موم ایک ایسی رطوبت ہے جو چھتے کی کارکن مکھیوں کے حلق سے خارج ہوتی ہے۔ اس قوت بخش مادے میں شکر، لحمیات ،چربی اور بہت سی حیاتین شامل ہوتی ہیں۔اس جوہر کو رائل جیلی کا نام اس لیے دیاگیا کہ چھتے میں بچے صرف ملکہ دیتی ہے۔ اس کے شہزادوں کی پرورش جس خوراک پر ہوتی ہے وہ شاہی خوراک ٹھہری اور اس مناسبت سے اس سیال کا نام ”رائل جیلی ” قرار پایا۔دنیا میں جتنے بھی چرند اور پرند ہیں ان کے بچے جب پیدا ہوتے ہیں تو ان کا وزن جتنا بھی ہو بالغ ہونے کے بعد والے وزن سے تناسب میں ہوتا ہے۔ مثلاًانسان کا بچہ اگرپیدائش کے وقت آٹھ پونڈ کا ہواور بالغ ہونے پر اس کا وزن 160 پونڈ ہو تو مراد یہ ہوئی کہ بچے کا وزن بلوغت پر بیس گنا بڑھا۔عام حیوانات کے بچے بیس سے پچیس گنا بڑھتے ہیں،شہد کی مکھی کا بچہ بڑاہونے پر اپنے پیدائشی وزن سے 350 گنا بڑھتا ہے۔پوری حیوانی دنیا میں کسی بچے کے اتنا بڑھنے کی کوئی مثال نہیں۔یہ ایک منفرد واقعہ ہے ،چونکہ ان بچوں کی خوراک رائل جیلی ہوتی ہے اس لیے لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ رائل جیلی جسمانی نشوونما پر مفید اثرات رکھتی ہے اور کمزوری کو دور کرتی ہے۔ ان معلومات کے بعدڈاکٹروں نے کمزوری کے مریضوں پر اس جوہر کے وسیع مشاہدات کیے۔جرمنی میں یہ جوہر بوتلوں اور گولیوں کی صورت میں تیارہوا اور ہرجگہ سے مقبولیت کی سند پائی۔ موجودہ زمانے میں اس جوہر کو تیار کرنے کا سب سے بڑا مرکز عوامی جمہوریہ چین ہے ،چین میں دواسازی کی صنعت کے اشتراکی ادارہ ”پیکنگ کیمیکل اینڈ فارما سوٹیکل ورکس ” نے ”پیکنگ رائل جیلی ”کے نام سے خالص مشروب اور ٹیکے تیارکیے ہیں۔تیا ر کرنے والوں نے اس کے تین اہم فوائد بیان کیے ہیں:
1۔ جب وزن روز بروز کم ہور ہا ہو۔ جب بھوک اڑ جائے ،بیماری سے اٹھنے یا زچگی کے بعد کی کمزوری کے لیے۔
2۔ عام جسمانی کمزوری ،دماغی اورجسمانی تھکن اورکمزوری کے لیے ۔
3۔ پیچیدہ اور پرانی بیماریوں میں جیسے کہ جگر کی بیماریاں ،خون کی کمی ،وریدوں کی سوزش اور ان میں خون کا انجماد ،جوڑوں کی بیماریاں اور گنٹھیا،عضلات کی انحطاطی بیماریاں DEGENRATIVE DISEASES ، معدہ کا السر۔
قرآن مجید نے مکھی کے جسم سے خارج ہونے والے اس جوہر کو شفا کا مظہر قرار دیاہے اور دنیا کے ہر گوشہ سے اس کی تصدیق میسر آرہی ہے۔ (14)
حواشی
(1)۔ قرآن اینڈ ماڈرن سائنس از ڈاکٹر ذاکرنائیک صفحہ39
(2)۔ النحل ، 16:68-69
(3)۔ بحوالہ آسان لغات القرآن ، صفحہ 269
(4)۔ تیسیرالقرآن ، جلد دوم، حاشیہ 65-66-67
(5)۔طب نبوی اورجدید سائنس،جلد اول ، سے اقتباس
http://www.honey.com/kids/index.html
اللہ کی نشانیاں ،عقل والو ں کے لیے ،صفحہ 34-35
( 6)۔ اللہ کی نشانیاں ،عقل والو ںکے لیے ،صفحہ 40
(7)۔ النحل ، 16:69
(8)۔ (بخاری ،کتاب الطب،باب الدواء بالعسل )
(9)۔ طب نبوی اورجدید سائنس،جلد اول ، صفحہ 171
(10)۔ طب نبوی اورجدید سائنس،جلد اول سے اقتباس
(11)۔اللہ کی نشانیاں ،عقل والو ںکے لیے ،صفحہ 41
(12)۔ طب نبوی اورجدید سائنس،جلد اول ، صفحہ 187-188
(13)۔ النحل ، 16:69
(14)۔ طب نبوی اورجدید سائنس،جلد اول ،صفحہ210-212
اللہ کی نشانیاں ،عقل والو ںکے لیے ،صفحہ 45
جمع وترتیب:حبیب اللہرابطہ:8939478@gmail.com
No comments:
Post a Comment