Thursday 22 June 2017

غریبوں کی عید!

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

غریبوں کی عید!
روزانہ کی طرح آج بھی اس نے آتے ساتھ ہی اپنے اوزاردرست کیئے اور آج بھی وہ سخت گرمی میں روڈکنارے بیٹھاتھا تاکہ کوئی اسے مزدوری کے لیے لے جائے۔ اس کے گھر میں بیماری تھی اوربچوں کے کھانے کے لیے بھی صرف شام کاکھانا تھا اوروہ بھی اس قدر کے بچوں کوہی چند لقمے نصیب ہوتے اورغریب والدین کو پانی پرگزاراکرکے سونا تھا۔یہ اس کاروزانہ کا معمول تھا وہ یہاں آکر بیٹھ جاتا کبھی جلدی اورکبھی دیر سے اس کی باری آتی تھی،کیونکہ وہ اکیلا نہیں تھا بلکہ اس کے ساتھ اس کے اور مزدورساتھی بھی اس کے ساتھ یہاں پربیٹھا کرتے تھے۔
اس کاچھوٹا ساگھرانہ تھا اوردو معصوم بچے تھے۔ اس کا چھوٹابیٹا عماراس کے گھرپلٹتے ہی دوڑ کراس سے چمٹ پڑتا اوراپنی توتلی زبان سے ابوابو کہتے نہ تھکتا۔ چھوٹی سی گڑیا سمیعہ بھی دوڑکراپنے ابوسے چمٹ جاتی اورپیار سے ابوابوکہتے نہ تھکتی۔اب چونکہ عیدبھی سرپر آچکی تھی اس لیے اس کے چہرے تھے پریشانی کے آثارٹپک رہے تھے۔آج کے دن اس نے سارادن انتظارکیا مگرکوئی مزدوری کے لیے نہ لے گیا۔ ہاں شام کے قریب ایک شخص آیا اوراس نے مزدوری کا کہا کہ تھوڑاساکام ہے۔ اس کی مزدوری بھی بس 200روپے دوں گا،اگر کرنا ہے تو چلو۔
 اب مرتا تو کیا نہ کرتا سارادن خالی گزرگیا اس لیے اس نے سوچا خالی ہاتھ جانے سے بہتر ہے کہ کچھ کچھ لے ہی جایا جائے تاکہ بچوں کوتوکچھ کھلایا جاسکے۔یوں وہ کام کرنے کے لیے راضی ہوگیا اور ساتھ چلنے کے لیے تیارہوگیا۔ اس نے وہ کام کیا اورمخصوص مزدوری کی رقم لیے شام کوتھکا ماندامایوسی کی حالت میں وہ گھر کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں اس نے اس معمولی رقم سے کھانے کے لیے کچھ سامان خرید لیا۔ گھرداخل ہوتے ہی اس کی ہمسفرچہرے کے آثارسے سمجھ گئی کہ آج بھی مزدوری کم ہی ملی ہوھی۔نہیں ملی،مگروہ دل ہی دل میں آنسوپی گئی۔ حسب معمول عمارابوابو کرتے آگے بڑھا اوراپنے ابوسے چمٹ گیااورچھوٹی گڑیا بھی اپنے ابوسے چمٹ کرپیارکرنے لگی۔ اس کے ساتھ ہی اس کی ساری تھکاوٹ اترگئی۔ چونکہ عیدقریب تھی اس لیے چھوٹومیاں نے فرمائشوں کے انبارلگانے شروع کردیئے اورگڑیا بھی ابو سے گویا ہوئی کہ ابوابو اس عیدپر توہم نئے کپڑے اورجوتے پہنیں گے نا اورآپ مجھے گڑیالے کر دیں گے نا۔ اس نے بچوں کادل خوش کرنے کے لیے حامی تو بھر مگراس کے علاوہ
وہ کرتا بھی تو کیا کرتا۔ عید میں دودن باقی تھے مگراس کے پاس اتنی رقم نہ تھی کہ
وہ اپنے جگرگوشوں کے لیے عیدپرلباس، جوتے اورکھلونے خرید کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرپاتا۔اس لیے اس نے ہمسفرسے سرگوشی کے اندازمیں دعائوں کا کہا اورآج بھی مزدوری کے لیے نکل گیا۔ بازار کے پاس سے گزراتو بازارعید کے سامان سے سج چکے تھے۔ صاحبِ ثروت اور امیروں کے بچے بازار میں عید کے سامان کی خریداری کررہے تھے۔ اوروہ دل ہی دل میں خون کے آنسو بہاتا چلاجارہا تھااوراس بازار سے گزرتا چلا جارہا تھا۔آخروہ روزانہ کی طرح مزدوری کی جگہ پربیٹھا اورآج اسے 500کی مزدوری ملی اوروہ شام کوجب گھرگیاتوان میں سے کھانے کاسامان لے کر200روپیہ بڑی مشکل سے بچا کرگھرلے گیا۔ گھرپہنچتے ہی حسبِ معمول اس کے جگرگوشے اس سے چمٹ گئے اورمحبت وچاہت کے ساتھ اپنے بابا سے پیارکرنے لگے اورتھکاوٹ دورکرنے لگے۔ اس نے بچی ہوئی رقم بیوی کودی کہ سنبھال کررکھ لے تاکہ ایک دن بعدعیدہے ،ممکن ہے کل کچھ اچھی مزدوری مل جائے تو بچوں کے لیے کچھ خریدلیا جائے۔ اگلے دن وہ 200روپنے ساتھ لے کر مزدوری پرگیا تاکہ مزدوری سے واپسی پر جورقم ملے گی کھانے کے لیے خریدنے کے بعد بچوں کے لیے کچھ خرید لے جائے گا۔ آج اسے 400کی مزدوری ملی۔ وہ بہت مغموم تھا مگرکیاکرسکتاتھاکیونکہ وہ غریب تھا۔ اس لیے وہاں سے فارغ ہوتے ہی سیدھالنڈابازارگیاوہاں پراستعمال شدہ سامان موجودتھا مگراس کی قیمتیں بھی اس کی حیثیت سے باہر تھیں۔ اس لیے وہ کافی دیر گھومتارہا کہ شاید کہیں سے کچھ سستا مل جائے تاکہ میں اپنے جگرگوشوں کے سینے کوٹھنڈاکرسکوں، مگرناکام ٹھہرا۔
آخرناچاہتے ہوئے بھی وہ ایک اسٹال والے صاحب کے پاس گیا اوراسے حقیقت بیان کرکے تعاون کا کہا تو اس نے پوچھا کہ کتنے روپے ہیں۔ کہاں 350روپے ہیں۔ پوچھا:’’کیا کیا لینا ہے؟‘‘ کہا:’’دوچھوٹے بچے ہیں ان کے لیے لباس و کھلونے وغیرہ لینے ہیں۔‘‘تواس نے سٹال پر نظردوڑائی بچوں کے جو سب سے سستے سوٹ تھے اسے 2اٹھاکردیئے اورساتھ کھلونوں کے سٹال سے پلاسٹک کے دوکھلونے خرید کے دیئے۔ غریب شکرآمیز نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا اوراس سے لے کرگھر کی طرف چل دیا۔ گھرپہنچتے ہی بچے اپنے ابوسے چمٹ گئے اورہاتھ میں شاپردیکھتے ہی خوشی سے چونکہ اٹھے۔ اس نے بیوی کودے کرکہا کہ کل کے لیے میرے لیے اوراپنے لیے کوئی پرانے کپڑے اچھی طرح دھودو تاکہ عیدپرپہنے جاسکیں۔ یوں عیدکے دن بچوں کولنڈے کے سوٹ پہنائے اورخودپرانے کپڑے پہن کراس نے عیدگزاردی۔ یہ اس کے ساتھ پہلی بارنہیں ہورہا تھا بلکہ پچھلے چندسالوں سے ہورہا تھا۔ اس کا غم گسار کوئی نہ تھا کیونکہ وہ غریب تھا،اورویسے بھی امراء کو کونسی فرست تھی کہ وہ غریبوں کی طرف نظرکرم کرتے،بلکہ وہ توعیدکی خوشیوں سے خوب لطف اندوزہورہے تھے او نئے جوتوں اورلباس زیب تن کیئے خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھے۔اس لیے اس  دفعہ بھی غریب کی عید پہلے کی طرح پھیکی پھیکی گزر گئی۔

قائین کرام!عیدعربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی لوٹ کرآنے والا اور اسی طرح اس کے معنی خوشی کے بھی ہیں۔ اسلام نے مسلمانوں کو خوشی منانے کے لیے دو دن عطا کیے ہیں، عیدالفطر اور عیدالاضحی۔اس موقع پر مسلمان اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء بیان کرتے ہیں اورخوشیاں مناتے ہیں۔عیدپر نیا لباس زیب تن کیا جاتاہے،نئے جوتے پہنے جاتے ہیں۔مگرشایدغریبوں کے لیے عید خوشیوں کی بجائے غموں کی داستانیں ہی رقم کرتی ہے۔ کیونکہ اہل ثروت کامال ان کی نگاہوں میں اس قدرفخراورتکبرپیداکردیتا ہے کہ غریب کی مددتودرکنار اسے گاڑی کی طرف بڑھتادیکھ کر ہی دھتکاردیتے ہیں۔ان کے نزدیک ان سے کم ترکی کوئی حیثیت ہوتی ہی نہیں۔اسی سوچ نے معاشرے میں طبقاتی نظام کوبنیادفراہم کی ہے اورغریبوں کے دکھوں پر نمک پاشی کی ہے۔ اس لیے خدارا!جب آپ عیدپراپنے بچوں کوشاپنگ کے لیے لائیں یاخود ہی ان کے لیے کچھ لے جائیں توغریب اوراس کے بچوں کاخیال رکھیں۔ ضروری نہیں کہ آپ کے ماتحت جب تک آپ کے سامنے ہاتھ نہ پھلائیں آپ انہیں نظراندازکرتے رہیں، بلکہ خودان کی ضروریات اورعید کی خوشیوں کاخیال رکھاکریں۔ غریبوں کے چہروں کی مسکراہٹ آپ کوحقیقی خوشی اورسکون دے دے گی۔ اس لیے خدارا غریبوں اورماتحتوں کاخیال رکھیں تاکہ وہ بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہوسکیں۔

تحریر: حبیب اللہ
رابطہ:8939478@gmail.com
جامعہ الدراسات الاسلامیہ کراچی

3 comments: