بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
غریبوں کی عید!
روزانہ کی طرح آج بھی اس نے آتے ساتھ ہی اپنے اوزاردرست کیئے اور آج بھی وہ سخت گرمی میں روڈکنارے بیٹھاتھا تاکہ کوئی اسے مزدوری کے لیے لے جائے۔ اس کے گھر میں بیماری تھی اوربچوں کے کھانے کے لیے بھی صرف شام کاکھانا تھا اوروہ بھی اس قدر کے بچوں کوہی چند لقمے نصیب ہوتے اورغریب والدین کو پانی پرگزاراکرکے سونا تھا۔یہ اس کاروزانہ کا معمول تھا وہ یہاں آکر بیٹھ جاتا کبھی جلدی اورکبھی دیر سے اس کی باری آتی تھی،کیونکہ وہ اکیلا نہیں تھا بلکہ اس کے ساتھ اس کے اور مزدورساتھی بھی اس کے ساتھ یہاں پربیٹھا کرتے تھے۔
اس کاچھوٹا ساگھرانہ تھا اوردو معصوم بچے تھے۔ اس کا چھوٹابیٹا عماراس کے گھرپلٹتے ہی دوڑ کراس سے چمٹ پڑتا اوراپنی توتلی زبان سے ابوابو کہتے نہ تھکتا۔ چھوٹی سی گڑیا سمیعہ بھی دوڑکراپنے ابوسے چمٹ جاتی اورپیار سے ابوابوکہتے نہ تھکتی۔اب چونکہ عیدبھی سرپر آچکی تھی اس لیے اس کے چہرے تھے پریشانی کے آثارٹپک رہے تھے۔آج کے دن اس نے سارادن انتظارکیا مگرکوئی مزدوری کے لیے نہ لے گیا۔ ہاں شام کے قریب ایک شخص آیا اوراس نے مزدوری کا کہا کہ تھوڑاساکام ہے۔ اس کی مزدوری بھی بس 200روپے دوں گا،اگر کرنا ہے تو چلو۔
اب مرتا تو کیا نہ کرتا سارادن خالی گزرگیا اس لیے اس نے سوچا خالی ہاتھ جانے سے بہتر ہے کہ کچھ کچھ لے ہی جایا جائے تاکہ بچوں کوتوکچھ کھلایا جاسکے۔یوں وہ کام کرنے کے لیے راضی ہوگیا اور ساتھ چلنے کے لیے تیارہوگیا۔ اس نے وہ کام کیا اورمخصوص مزدوری کی رقم لیے شام کوتھکا ماندامایوسی کی حالت میں وہ گھر کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں اس نے اس معمولی رقم سے کھانے کے لیے کچھ سامان خرید لیا۔ گھرداخل ہوتے ہی اس کی ہمسفرچہرے کے آثارسے سمجھ گئی کہ آج بھی مزدوری کم ہی ملی ہوھی۔نہیں ملی،مگروہ دل ہی دل میں آنسوپی گئی۔ حسب معمول عمارابوابو کرتے آگے بڑھا اوراپنے ابوسے چمٹ گیااورچھوٹی گڑیا بھی اپنے ابوسے چمٹ کرپیارکرنے لگی۔ اس کے ساتھ ہی اس کی ساری تھکاوٹ اترگئی۔ چونکہ عیدقریب تھی اس لیے چھوٹومیاں نے فرمائشوں کے انبارلگانے شروع کردیئے اورگڑیا بھی ابو سے گویا ہوئی کہ ابوابو اس عیدپر توہم نئے کپڑے اورجوتے پہنیں گے نا اورآپ مجھے گڑیالے کر دیں گے نا۔ اس نے بچوں کادل خوش کرنے کے لیے حامی تو بھر مگراس کے علاوہ
وہ کرتا بھی تو کیا کرتا۔ عید میں دودن باقی تھے مگراس کے پاس اتنی رقم نہ تھی کہ
قائین کرام!عیدعربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی لوٹ کرآنے والا اور اسی طرح اس کے معنی خوشی کے بھی ہیں۔ اسلام نے مسلمانوں کو خوشی منانے کے لیے دو دن عطا کیے ہیں، عیدالفطر اور عیدالاضحی۔اس موقع پر مسلمان اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء بیان کرتے ہیں اورخوشیاں مناتے ہیں۔عیدپر نیا لباس زیب تن کیا جاتاہے،نئے جوتے پہنے جاتے ہیں۔مگرشایدغریبوں کے لیے عید خوشیوں کی بجائے غموں کی داستانیں ہی رقم کرتی ہے۔ کیونکہ اہل ثروت کامال ان کی نگاہوں میں اس قدرفخراورتکبرپیداکردیتا ہے کہ غریب کی مددتودرکنار اسے گاڑی کی طرف بڑھتادیکھ کر ہی دھتکاردیتے ہیں۔ان کے نزدیک ان سے کم ترکی کوئی حیثیت ہوتی ہی نہیں۔اسی سوچ نے معاشرے میں طبقاتی نظام کوبنیادفراہم کی ہے اورغریبوں کے دکھوں پر نمک پاشی کی ہے۔ اس لیے خدارا!جب آپ عیدپراپنے بچوں کوشاپنگ کے لیے لائیں یاخود ہی ان کے لیے کچھ لے جائیں توغریب اوراس کے بچوں کاخیال رکھیں۔ ضروری نہیں کہ آپ کے ماتحت جب تک آپ کے سامنے ہاتھ نہ پھلائیں آپ انہیں نظراندازکرتے رہیں، بلکہ خودان کی ضروریات اورعید کی خوشیوں کاخیال رکھاکریں۔ غریبوں کے چہروں کی مسکراہٹ آپ کوحقیقی خوشی اورسکون دے دے گی۔ اس لیے خدارا غریبوں اورماتحتوں کاخیال رکھیں تاکہ وہ بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہوسکیں۔
تحریر: حبیب اللہ
رابطہ:8939478@gmail.com
جامعہ الدراسات الاسلامیہ کراچی
ماشاء اللہ ! اللہ تعالیٰ آپ کو برکتوں سے نوازے آمین
ReplyDeleteماشاءاللہ
ReplyDeletegood
ReplyDelete