Monday 27 February 2017

موجودہ سودی نظام سے کیسے نجات پائی جا سکتی ہے؟


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

موجودہ سودی نظام سے کیسے نجات پائی جا سکتی ہے؟

سب سے پہلے ہم بات کریں گے کہ سود کیا ہوتا ہے اور قرآن و سنت میں سود کے بارے میں کیا وعیدات آئی ہیں۔
سود کیا ہے؟
سود کو عربی زبان میں رِبَا کہتے ہیں۔عربی زبان میں رِبَا زیادت،بڑھوتری اوراضافہ کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے۔قرآن کریم میں بیع یعنی تجارت کو حلال اور رِبَا یعنی سود کو حرام قرار دیا گیا ہے جیسا کہ سورہ البقرۃ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’إِنَّمَا الْبَیْْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللّہُ الْبَیْْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا‘‘

کہ:’’ بیع بھی سود کی طرح ہیں مگر اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے۔‘‘ اس وقت معاشرے کے اندر سود افراد کی رگوں میں بس چکا ہے۔حتیٰ کہ حالت یہ ہوگئی ہے کہ لوگ اب یہ جانتے بھی ہیں کہ سود ہے،پھر بھی سودی کاروبار میں مگن ہیں اوراس میں بذاتِ خود ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ ،دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دلاتے ہیں۔بینکوں کا ایک لامتناہی سلسلہ تمام ممالک میں موجود ہے جس سے سود کی پرورش کی جارہی ہے۔اور یوں سود، روز بروز نشونما پاکر معاشرے کی جڑوں میں اتر کر تمام معاشروں کو کھوکھلا کرتا جارہا ہے۔غریب ،غریب سے غریب تر اور امیر ،امیر سے امیر تر ہوتا چلا جارہا ہے۔اس وقت سود کے بڑے کارخانے بینک ہیں،جو تمام ممالک میں کھلے عام سود پر چل رہے ہیں۔ اس بینکنگ کے نظام کی ابتداء کیسے ہوئی پہلے اس پر کچھ بات کرلی جائے۔
صلیبی جنگوں کے دوران عیسائی زائرین جب یورپ اور دیگر علاقوں سے اپنے مذہبی مقامات کی زیارت کے لیے آتے تو راستے میں چور، ڈاکو وغیرہ ان کا مال لوٹ لیتے اس لیے سرکاری سطح پر کچھ ایسے امانت خانے بنائے گئے جو ان زائرین کی نقدی یا قیمتی اشیاء اپنے پاس محفوظ کرکے ایک رسید جاری کرتے ۔مطلوبہ شہر میں یہ رسید دکھا کر انہیں اپنی امانت واپس مل جاتی۔رفتہ رفتہ یہ سلسلہ بڑھتا گیا اور پھر ان امانت خانوں کے افراد نے ان امانتوں کو کاروباری حضرات کو نفع پر قرض دینا شروع کیا۔ یوں اس سلسلے نے اتنا طول پکڑا کہ آج آپ کے سامنے موجودہ بینکوں کا لامتناہی سلسلہ ہے۔آج یہ معاملہ ترقی کرتے کرتے یہاں تک آپہنچا ہے کہ جہاں دنیا بھر کی غریب عوام اپنی خون پسینہ کی کمائی ان بینکوں میں جمع کرواتی ہے۔بینک یہ رقم کسی بڑی کمپنی یا سیٹھ کو دے دیتا ہے ۔وہ اسے لون کے نام سے لے کر اس سے کاروبار کرکے ڈھیروں منافع کماتا ہے۔اس میں سے اصل رقم کے ساتھ مزید معمولی رقم بینک کو واپس کر دیتا ہے ،پھر بینک اس میں سے معمولی رقم منافع کا نام دے کراپنے کھاتہ داروں کو دے کر ان کا منہ بند کر دیتا ہے۔اور اگر ادھار لینے والاسیٹھ نقصان ظاہر کردے تو عوام کا روپیہ ڈوب جاتا ہے۔جبکہ بینک اورسیٹھ اپنی اپنی رقم انشورنس سے واپس لے لیتے ہیں حالانکہ اس انشورنس میں بھی عوام کا پیسہ لگا ہوتاہے۔یعنی ایک عام آدمی ہر جانب سے پٹتا ہے اور امراء دولت کے نشے میں دھت رہتے ہیں۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ البقرہ میں انسانوں کو سود سے بچانے کے لیے کس قدرسخت احکام منازل کیے ہیں۔
:’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّہَ وَذَرُواْ مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْنَ (278)فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ فَأْذَنُواْ بِحَرْبٍ مِّنَ اللّہِ وَرَسُولِہِ وَإِن تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُؤُوسُ أَمْوَالِکُمْ لاَ تَظْلِمُونَ وَلاَ تُظْلَمُونَ (279)
اے ایمان والو!اللہ سے ڈر جائواور سود میں سے جو باقی ہے اسے چھوڑ دو،اگر تم مومن ہو۔پھراگر تم نے یہ نہ کیا تواللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بڑی جنگ کے اعلان سے آگاہ ہوجائو۔اور اگر توبہ کرلو تو تمہارے لیے تمہارے اصل مال ہیں نہ ظلم کرو اور نہ ہی ظلم کیا جائے۔ اس کی مذمت قرآن کریم میں بہت مقامات پر وارد ہوئی ہے۔جن میں سورہ البقرۃ آیت275سے280،اسی طرح سورہ آل عمران آیت130،131،اسی طرح سورہ النساء آیت160سے161 ،اسی طرح سورہ الروم:38تا39وغیرہ شامل ہیں۔ان مقامات پراللہ نے سود کھانے والوں کو شیطان کی چالوں میں گرفتار ہونے والا،جہنمیوں کا عمل کرنے والا،یہود کے نقش پر چلنے والا اور اپنے مال کو سود کے ساتھ ملا کر اس کو اپنے لیے وبال جان بنانے والا کہا ہے۔
اسی طرح ذخیرہ احادیث میں سود کی حرمت و مذمت پر ان گنت دلا ئل ہیں۔جن میں سے میں کچھ آپ کے سامنے رکھ کر اپنے اصل موضوع کہ سود سے نجات کیسے؟کی طرف آئوں گا۔سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی صحیح مسلم1598نمبر روایت میں ہے کہ 
:’’لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ آکِلَ الرِّبا،ومُوکِلَہُ،وکَاتِبَہُ،وشَاھِدَیْہِ وقال،ھم سواء‘‘ 
اللہ کے رسول ﷺ نے سود کھانے، کھلانے،اس کے لکھنے  اور اس کے گواہوں سب پر لعنت کی ہے اور فرمایا یہ سب کے سب اس میں برابر کے حصہ دار ہیں۔اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی صحیح بخاری میں 2766نمبر حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے سات ہلاک کردینے والی چیزوں سے بچنے کا حکم دیا جن میں سے ایک یہ ہے’’وَاَکْلُ الرِّبَا‘‘یعنی سود کھانے والا شخص بھی ہلاکت کی راہ پر گامزن ہے۔اسی طرح مستدرک الحاکم کی حدیث نمبر 2259میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ:’’ سود کے 73 سے زیادہ دروازے ہیں جن میں سب سے کم تر یہ ہے کہ’’ اَنْ یَّنْکِحَ الرَّجُلُ اُمَّہُ‘‘ کہ آدمی اپنی سگی ماں سے بدکاری کرلے۔یعنی اس کا کم تر درجہ اتنا بڑا گناہ ہے۔ اسی طرح اس کا عذاب الٰہی کے نزول اور ذلت و پستی  کے اسباب کا ذریعہ بھی بتایا گیا ہے۔اب ہم وہ چند اسباب دیکھتے ہیں کہ جن کے ذریعے سے ہم سود میں جکڑے ہوئے نظام سے نجات پانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
اس پر چند اہم تجاویز قرآن وسنت کی روشنی میں
1:انفرادی و اجتماعی سطح پر سود کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے اور اس کو مٹانے کے لیے کوششیں کی جائیں سب سے پہلے اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس سے بچایا جائے اور پھر اس کی دعوت دوسروں کو بھی دی جائے کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ‘‘(صحیح مسلم:49)
کہ تم میں سے جوشخص بھی کوئی برائی دیکھے تو اسے ہاتھ سے بدلے،یہ استطاعت نہ ہوتو زبان سے یہ استطاعت بھی نہ ہو تواسے اپنے دل میں برا جانے۔‘‘سود کی ہوا تو سب تک پہنچے گی مگر ہمارا کام حتیٰ الوسع اپنے آپ کو اس سے بچانے ہے۔تاکہ ہم اللہ کے ہاں معذور ہوسکیں۔
2:سود کے ساتھ ساتھ اس سے مشابہہ چیزوں سے بھی بچا جائے کیونکہ اسی طرح ہم سود سے بچ سکیں گے۔رسول اللہ ﷺ نے متشابہ امور سے بچنے کے فرمایا:
’’ان الحلال بین والحرام بین وبینھما مشتبہات فمن اتقیٰ شبہات فقد استبراء لدینہ وعرضہ‘‘
کہ حلا ل بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان کے درمیان متشابہہ امور ہیں جو ان سے بچا رہا اس نے اپنا دین و عزت محفوظ رکھا۔اور جو ان  میں پڑ گیا وہ حرام کا مرتکب ہوگیا۔اسی طرح آپ ﷺ نے کسی سفارش کرنے والے کو جس کے لیے سفارش کی گئی ہے اس سے تحفہ لینے سے بھی منع کیا۔کیونکہ یہ بھی سود کے مشابہہ ہے۔
3:اسی طرح اجتماعی سطح پر سود کے خلاف ایک مضبوط و مربوط لائحہ عمل طے کرکے آواز اٹھائی جائے اور اس کے لیے مختلف جماعتوں کے سربراہان بیٹھ کر آپس میں مشورہ کریں ۔قرآن کریم میں آیا ہے کہ ـ:
’’وامرھم شوریٰ بینھم‘‘(سورہ الشوریٰ:38)
 کہ مومنوں کا کام آپس میں مشورہ کرنا ہے۔‘‘پھر اس پر ڈٹ جایا جائے تاکہ کوئی نتیجہ نکل سکے۔کیونکہ حکومتی سطح پر 1973کے آئین کے آرٹیکل380کی ذیلی دفعہF میں یہ بات رقم ہے کہ :’’حکومت جس قدر جلد ممکن ہو رِبَا (سود) کو ختم کرے گی۔‘‘تو حکومتی اراکین کو ان قوانین پر عمل کی بار بار انفرادی اجتماعی جماعتی سطح پر ترغیب دلائی جائے تاکہ وہ اس جانب توجہ مرکوز کریں اور اس کو بدلنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
4:اسی طرح ملکی سطح پر بیت المال یا امانت خانوں کا قیام کیا جائے ۔جن میں کام کرنے والوں کی تنخواہیں مقرر کی جائیں اور انہیں اس بات کا پابند بنایا جائے کہ لی ہوئی رقم من و عن واپس کرنی ہے اس میں کمی بیشی نہیں ہونی چاہیے۔اس کی واضح مثال جناب محمد ﷺ ہیں ۔لوگ آپ کے پاس آکر امانتیں رکھتے تھے ،حتیٰ کہ آپ صادق و امین کے القابات سے مشہور ہوگئے تھے۔
اسی طرح موجودہ بینکنگ کے نظام کی اصطلاحات میں ترامیم کی جائیں اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو اسلامی تمویلی یا مالی ادارے قائم کیے جائیں۔
5: اسی طرح شفاف نظامِ تجارت کاسلسلہ قائم کیا جائے جس میں نفع نقصان دونوں کا امکان ہو، لین دین میں دھوکہ دہی سے بچانے کے لیے قوانین حکومتی سطح پر وضع کروانے کی ترغیب دی جائے اور صدقات کا نظام وضع کیا جائے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اس چیز کی ترغیب دیتے ہوئے فرما رہا ہے:
’’یَمْحَقُ اللّہُ الْرِّبَا وَیُرْبِیْ الصَّدَقَاتِ‘‘ سورہ البقرۃ:276‘‘
کہ اللہ تعالیٰ سود کو گھٹاتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔جب صدقات کا نظام باقاعدہ وضع ہوگا اور مستحقین تک رقم پہنچے گی تو غریب عوام کو سودپر قرض لینے کی نوبت تک نہ پیش آئے گی۔ 
6:تجارت کا نظام نقدی درہم و دینا رکی صورت میں ہو اور ہاتھوں ہاتھ ،مثل بمثل ہو۔الا یہ کہ جن چیزوں میں کمی بیشی کی شریعت نے اجازت دی ہے۔جب نقدی اپنی اصل صورت میں آجائے گی یعنی سونے ،چاندی کے درہم و دینار تو جو ممالک سونے پر قابض ہوئے بیٹھے ہیں اور اپنی اجارہ داری قائم کیے بیٹھے ہیں ان کی چودھراہٹ ختم ہوگی،اورتمام نقدی اصل صورت میں آجائے گی۔
7:اسی طرح نقدی تمام ہاتھوں میں گھومے اور ہر وقت گردش میں رہے،مال کی ذخیرہ اندوزی مصنوعی قلت پیدا کرنے کے لیے نہ کی جائے اور اس کام کو ملکی سطح پر یقنی بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔تاکہ حکومت ایسا کرنے پر رضامندی کا اظہار کردے۔
8:سٹے بازی سے بھی خود بھی بچا جائے اور دوسروں کو بھی اس سے منع کیا جائے سٹے بازی سے مراد ہے کہ  جیسے ہی معلوم ہو کہ اس چیز کی قیمت بڑھنے والی ہے اس کو خرید کر اپنے پاس روک لینا اور قیمت بڑھنے پر اسے منظر عام پر لے آنا یہ بھی ذخیرہ اندوزی کی مثل ہے۔اس سے اس کی اصل رقم سے کئی گنا زیادہ منافع کمایا جاتا ہے۔
9:رشوت و بد عنوانی سے نجات حاصل کی جائے۔کیونکہ ان جیسے ناسوروں نے معاشروں کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا ہے۔
10:اسی طرح جو لوگ فقر کی وجہ سے سود پر قرض لینے پر مجبور ہوتے ہیں انہیں صدقہ دے کر بھی اس لعنت سے بچا جا سکتا ہے۔اس کے کئی فوائد ہیں ایک اس شخص کے لیے کہ وہ سود سے بچ جائے گا ،اسی طرح جس شخص نے کسی تنگدست یا مصیبت میں پھنسے شخص کی مدد کی اللہ اس کی مدد کرے گا جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’وَاللّٰہُ فِیْ عَوْنِ الْعَبْدِ مَا کَانَ الْعَبْدُ فِی عَونِ اَخِیْہِ(صحیح مسلم:2699) 
 کہ اللہ اس شخص کی مدد میں لگا رہتا ہے جو شخص اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے۔
11:تجارت کے لیے سودی قرض لینے والوں کے نفع نقصان کی شراکت والے کاروبار ہوں،تاکہ دونوں چیزوں یعنی نفع ونقصان میں شرکت ہو اورامیر ،امیر سے امیرتر نہ ہو اور غریب،غریب سے غریب تر نہ ہو۔اسی طرح بعض لوگ کاروبار حد سے زیادہ بڑھانے کے لیے قرض لیتے ہیں انہیں اللہ کا خوف دلایا جائے اور اپنی ضرورت کے مطابق کاروبار کرنے کی تلقین کی جائے۔اگر ایسا کرنا بھی ہے تو پھر مختلف انویسٹرز سے مل کر کاروبار کرے فضول میں سودی کاروبار بینک سے نہ لے۔
12:زیادہ ترسودی قرض حکومتیں عالمی مالیاتی اداروں جیسا کہ  IMFوغیرہ سے لیتی ہیں اور پھر واپس سود پر اداکرتی ہیں۔اس لیئے موجودہ دور میں پاکستان پر کوئی ایسی مجبوری نہیں کہ جس کی وجہ سے یہ قرض لے۔یہ قرضہ صرف عوام پر بوجھ بڑھانے لے لیے لیا جاتا ہے اور پھراس میں سے کمیشن خوری،ووٹ بینک بڑھاکر حکومتی اراکین ذاتی فائدہ حاصل کرتے ہیں۔حکومت کو اللہ کا خوف دلایا جائے کہ وہ قرض لینے کے بجائے امن و امان کو یقینی بنائے۔اس سے سرمایہ محفوظ ہوگا اور قرض لینے کی نوبت تک نہ آئے گی۔
13:قرض اس وجہ سے بھی لوگ لیتے ہیں، کہ ان کا معیار زندگی بہتر ہوجائے مگر وہ اس میں تبذیر کرتے ہیں۔اس لیے ان اقدامات سے ان کو منع کیا جائے اور اس بات کا پابند بنایا جائے کہ جو موٹر سائیکل کے قابل ہو وہ کار مت لے۔یعنی چادر دیکھ کر پائوں پھیلائے جائیں۔
14:حکومت داخلی و خارجی طور پر اتنی مضبوط ہو جیسا کہ پاکستان نے روس کو شکست دی تھی۔اس کے بعد نیٹو کو بھی شکست سے دوچار کیا۔اب پاکستان اس کیفیت میں نہیں کہ خواہ مخواہ کہ دبائو میں آئے لہٰذاحکمرانوں کو اللہ کا خوف کرنا چاہیے اور اسلام کے خادم بن کر اس دبائو سے نکل کر اسلامی تعلیماکو عام کرنے کی تگ و دو کرنا چاہیے۔تو اس کے لیے سب سے اہم بات قتال کا قیام کیا جائے،جس کے ذریعے سے سونے پر قابض ممالک سے یہ سونا واپس بازار میں لایا جائے تاکہ یہ گردش میں آکرکاغذی رسید کو ختم کردے،اس سے کفر کی اجارہ داری ختم ہوگی جوکہ سود کے سب سے بڑے محافظ ہیں۔ان کی اجارہ داری کے ساتھ ہی ان کے وضع کیے ہوئے نظام بھی خاک میں مل جائیں گے۔

موجودہ بینکنگ کا نظام سرمایہ دارانہ نظام پر مشتمل ہے۔یہ حرص وحسد جیسی بیماریوں کو پروان چڑھاتا ہے۔یہ سرمایہ کی بڑھوتری برائے بڑھوتری کے لیے ایک مالیاتی نظام لاکھڑا کرتا ہے۔جہاں وہ سود کو نا صرف ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کرتا ہے بلکہ سود میں مکمل معاشرے کو ملوث کردیتا ہے۔
کھاتے دار تمویلی ادارے
اب ہم ایک ایسا نظام پیش کریں گے جو نا صرف سود کومسترد کرے گا بلکہ ،ارتکاز،حرص وحسد جیسے جذبات کا بھی قلعہ قمع کرے گا،انفاق کو پروان چڑھائے گا۔بلکہ وہ اسلامی نظام کو فروغ دینے کا باعث بنے گا۔
ہراسلامی کاروباری فریق جب بھی اپنی جوکہ بڑے پیمانے پر اپنے کاروبار کو وسعت دینا چاہتا ہے،اس کے لیے اسے سرمائے کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے ہم ایسے وسائل کے متلاشی ہیں جوکہـ:
اول:سود اور اس کے متبادل فائنانشل آلات سے پاک ہوں۔
دوم:سودی بینکوں سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو۔
سوم:ایسی دولت ہو جو اسلامی معاشرت اور تہذیب کے فروغ کی ضامن ہو۔جائز دولت ہو سود،سٹہ سے پاک ہو۔
پاکستان کے لیے اسلامی تمویلی اداروںکے قیام کا طریق کار
اسلامی بینکوں کی جگہ ہم اسلامی تمویلی اداروں کی اصطلاح استعمال کریں گے۔پہلے ہم اسلامی کھاتہ دار تمویلی ادارے کے فرائض،اس کی بیلنس شیٹ جس میںاس کی ذمہ داریاں اور اثاثوں کہ کو دیکھیں گے۔اس کے فرائض،اثاثوں اورذمہ داریوں سے متعلق جائزہ پیش کریں گے۔
کھاتہ دار اسلامی تمویلی ادارے کے فرائض وخدمات
اول:سرمایہ دارانہ نظام کے بالمقابل تمویلی اداروں کے قیام کو ممکن بنانا
دوم:مکمل طور پر ان اداروں کا نظام علماء حقہ کے ہاتھ میں ہو
سوم:ان اداروں کا بنیادی مقصد غلبہ دین ہو،باقی کام ثانوی حیثیت کے حامل ہوں۔
چہارم:یہ ادارے ثالثی ادارے ہوں گے جوکہ اسلامی کاروبار ی طبقے اور اسلامی وسائل کے فراہم کاروں کے درمیان صرف ثانوی حیثیت کے حامل ہوں گے۔
پنجم:یہ ادارے نجی طور پر منافع کمانے والے نہ ہوں گے بلکہ وہ یہ خدمت’’ باہمی امداد ‘‘کے اصول کے تحت کریں گے۔یہ اسی طرح کا ادارہ ہوگا جیسا کہ آج کل فوج کا ادارہ ہے وہ کسی منافع اور نفع کی خاطر خدمات سر انجام نہیں دیتے بلکہ ملکی ضرورت کے تحت کام کرتے ہیں۔البتہ اس خدمت کے تحت اپنا حق بطور تنخواہ لینے کے اہل ہوں گے۔
ششم :یہ ادارے عام مسلمانوں کی کچھ رقم کھاتوں میں رکھنے کا حق رکھیں گے جوکہ شریعت کی روشنی میں علماء کرام صلاح و مشورے سے طے کریں گے۔ہر کام میں شریعت کو منافع پر فوقیت ہوگی۔
ہفتم:یہ ادارے ان جمع شدہ رقوم کو قرض حسنہ،مشارکت کے اصول کے تحت آگے فراہم کریں گے۔
ہشتم: دیگر خدمات میں یہ ادارے زکوۃ اور صدقات کے نظام کو بہ حسن وخوبی سرانجام دے سکیں گے۔مستحقین تک رقم پہنچانا انہی کی ذمہ داریوں میں شامل ہوگا۔

کھاتہ دار تمویلی اداروں کی اہم ذمہ داریاں
ان اداروں کے قیام کے لیے بنیادی معاونت و سرمایہ کہاں سے حاصل ہوگا۔تو چونکہ یہ ادارے پہلے تو اسلامی ریاست کی مدد کے بغیر قائم کیے جائیں گے اس کے لیے مختلف جماعتوں سے مل ملا کر یہ کام کیا جائے گا۔اسی طرح یہ دو طرح کے ادارے ہوں گے۔
الف،اسلامی جماعتوں یا اداروں کے تحت قائم تمویلی ادارے
ب،اسلامی ریاست کے تحت قائم تمویلی ادارے
اسلامی تمویلی اداروں کا ڈھانچہ
یہ ادارے اسلامی جماعتوں یا گروہوں کے تحت پبلک سیکٹر پر کام کریں گے۔ان اداروں کے قیام کے لیے رقم کے بندوبست کے دو طرق ہیں۔پہلا کہ مخیر حضرات جو دینی اداروں پر لاکھوں خرچ کرتے ہیں انہیں ترغیب دلا کر ان سے معاونت کا حصول،
دوسرا یہ کہ قرض حسنہ لے کر بعد میں چونکہ یہ ادارے بھی بطور تنخواہ رقم کا کچھ حصہ لیں گے تو اس کے تحت قرض کی ادائیگی اور ان اداروں کا رواں دواں ہونا۔پھرا نہی کے تحت مختلف فلاحی و بہبودی شعبہ جات کا قائم ہو کر ان کا کام کرنا اور عوام کی فلاح و بہبود کرکے ان کی خدمت کرنا

حبیب اللہ 
رابطہ:8939478@gmail.com

1 comment:

  1. اس ارٹیکل کا حوالہ مل سکٹا ہے؟مجھے اپنے تھیسز کے لءے حوالہ چاہءے

    ReplyDelete