Monday 27 February 2017

دل کی اصلاح کیجئے


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

دل کی اصلاح کیجئے

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ محمدؐ کی بعثت ایک عظیم مقصد کے لئے ہوئی تھی اور وہ مقصد’’اصلاح‘‘ تھا۔ معاشرو ں کی اصلاح، عبادات و معاملات کی اصلاح، عقائد و نظریات کی اصلاح، دل و دماغ کی اصلاح، انفرادی و اجتماعی زندگی کی اصلاح، ظاہری و باطنی اصلاح، اور ان تمام اصلاحی مقاصد میں جو بنیادی مقصد ہے وہ  اصلاح ِقلب ہے، چونکہ دل انسانی جسم میں ایک بادشاہ کی حیثیت رکھتا ہے اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس کی اصلاح کو پورے جسم کی سلامتی قرار دیا ہے ، فرمایا:’’آگاہ ہوجاؤ !بے شک (انسانی ) جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ایسا ہے جو اگر سلامت رہے تو سارے کا سارا جسم سلا مت رہتا ہے اور اگر یہ ٹکڑا فاسد ہوجائے توسارے کا سارا جسم فساد کا شکار ہوجا تا ہے ،آگاہ ہوجاؤ! وہ دل ہے۔‘‘

حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : ’’اپنے دلوں کا علاج کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں سے مطلوب عمل دلوں کی سلامتی ہی ہے۔ ‘‘
یوں تو دل کے موضوع پر بات کرنا بہت سارے زاویوں اور مباحث کا دروازہ کھولتا ہے مگر ہم اس موضوع میںسے صرف ایک ہی زاویے کی طرف توجہ دلا نے کی کوشش کریں گے اور وہ زاویہ اس با ت کے زیادہ لائق ہے کہ اس کی طرف توجہ دلائی جائے کیونکہ دور حاضر میں لوگ دل کی ظاہری بیماریوں کی اصلاح و علاج کے در پے تو ہیں مگر باطنی امراض کے معالجے کے لیے کوئی بھی سنجیدہ نظر نہیں آتا ۔
اس معاشرے میں آپ کو امراض قلب کی ظاہری اقسام کے علاج لئے بڑے بڑے ڈاکٹرز ، سرجنز ، ہارٹ اسپیشلسٹس ، اور ماہر امراض قلب تو نظر آئیں گے مگر دلوں کی وہ پوشیدہ بیماریا ں جن کی وباء پورے معاشرے کو اپنے لپیٹ میں لے لیتی ہے ان کے تدارک و اصلاح کے لئے کوئی ایمرجنسی وارڈ ، او پی ڈ ی ، ایمبو لینس ، اور حتیٰ کہ فرسٹ ٹریٹ تک کو نظر انداز کردیا گیا ہے ۔ یہ بات جاننے کہ باوجودکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ظاہری جسامت وصورت کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ معیار تو اخلاص ِ عمل اور دلوں کی پوشیدہ حالتیںہی ہیں کہ اپنے سینوں میں دھڑکتے دلوں کو حسد ، بغض ، عداوت ، کھوٹ ، منافقت اور دیگر امراض سے پاک کردیا جائے کیونکہ اسلام تو تاکیدی درس الفت و محبت کا دل سے دل کو جوڑنے کا ، باہمی رواہ دا ری کا ہی دیتا ہے اور یہی وہ احسان ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسول ﷺ پر کیا تھا کہ ان کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی ایسی جماعت کو ترتیب دیا جن کی بنیادی صفت ہی یہی تھی کہ وہ آپس میں محبت ، الفت و رحمت پیکر تھے فرمان الٰہی ہے: (ھو الذی ایدک بنصرہ و بالمؤمنین و الف بین قلوبھم لو انفقت ما فی الارض جمیعا ما الفت بین قلو بھم و لکن اللہ الف بینھم انہ عزیز حکیم )(الانفال)’’اسی (اللہ)نے اپنی مدد سے اور مومنوں سے تیری تائید کی ہے ، ان کے دلوں میں باہمی محبت بھی اسی نے ڈالی ہے ،زمین میں جو کچھ ہے اگرآپ سارے کا سارا بھی خرچ کرڈالتے تو بھی ان کے دل آپس میں نہ ملاسکتے ،یہ تو اللہ ہی نے ان کے دلوں میں الفت ڈال دی ہے وہ غالب حکمتوں والا ہے ‘‘۔
ہم سے ہر شخص اس بات کو جانتا ہے کہ روزِ قیامت بندے کی نجات کادارومداراس کے دل کی سلامتی پر ہے رب ِ کائنات اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : ’’ یوم لا ینفع مال و بنون الا من اتی اللہ بقلب سلیم ) (الشعراء) ’’جس دن مال و اولاد کچھ کام نہ آئیںگی لیکن فائدے والا وہی شخص ہوگا جو بے عیب دل لیکر آئے گا ‘‘۔
عبداللہ بن عمرو ؓ کی روایت کے مطابق رسول کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ کون سے لوگ سب سے زیادہ بہتر ہیں ؟فرمایا : (کل مخموم القلب ، صدوق اللسان ، قالوا صدوق اللسان نعرفہ ،فمامخموم القلب ؟ قال ھو التقی النقی الذی لا اثم فیہ ولا بغی ولا غل ولا حسد )(ابن ماجہ)’’ہر صاف دل والااور زبان کا سچا ، صحابہ نے عرض کیا کہ زبان کے سچے کا مفہوم تو ہم جانتے ہیں لیکن صاف دل والے سے کیا مراد ہے ؟آپ ﷺ نے فرمایا :وہ پرہیز گا ر اور صاف دل جس میں نہ گناہ ہو اور نہ بغاوت نہ ہی کسی کا کینہ ہو اور نہ ہی کسی کے بارے میں حسد‘‘۔
اہم نکات برائے علاج قلب : 
 -1دعا مانگنا،اور یہ امراض قلب کے لئے بنیادی علاج کی حیثیت رکھتا ہے ، صحابہ کرا مؓ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگا کرتے تھے (ربنا اغفر لنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان ولا تجعل فی قلوبنا غلا للذین اٰمنوا ربناانک رؤف رحیم )(الحشر) ’’ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ایمان داروں کی طرف سے ہمارے دلوںمیں کینہ و دشمنی نہ ڈال، اے ہمارے رب تو شفقت اور مہربانی کرنے والا ہے  ‘‘۔                                     نبی کریم ﷺ بھی اللہ تعالیٰ سے دل کی سلامتی کاسوال کیا کرتے تھے ،(احمد )۔
-2لوگوں پر اچھا گمان رکھنا اور ان کی باتوں کو مثبت لینا ، کیونکہ باہمی تباغض و عداوت کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ لوگوں کی اچھی باتوں کو بھی برے انداز سے آگے بڑھادیا جاتا ہے اور ان کی مثبت باتوں پر اپنی منفی تشریح کا لبادہ چڑھادیا جاتا ہے ۔
عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اپنے بھائی کے منہ سے نکلنے والے کلمات کو غلط مفہوم کے قالب میں مت ڈھالو جبکہ تم ان کلمات کا مثبت مفہوم نکال سکتے ہو ، 
-3چغل خوروں کی صحبت سے دور رہنا کیونکہ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں کہ جو ہر بات کو فساد کی نیت سے دوسروں تک پہنچا تے ہیں اور لوگوں کے درمیان جھگڑا کروانے کے معاملے میں یہ لوگ شیطان کے چیلوکا کردار ادا کرتے ہیں ۔
یحیی بن کثیر فرماتے ہیں کہ : چغل خور آدمی جو کام ایک گھنٹے میں کرسکتا ہے ایک جادو گر پورے مہینے میں نہیں کرسکتا ، خواہ چغل خور کی بات سچی ہی کیوں نہ ہو آپ اس کے مکر کو اسی کے گلے میں ڈال دیں اور جس شخص نے آپ کے لئے کوئی برا سوچا ہو یا آپ کے بارے میں غلط الفاظ استعمال کیے ہو اس کو معاف کردیں ،رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :’’میرے صحابہ میں سے کوئی کسی کے بارے میں کوئی شکایت مجھ تک نہ پہنچائے ، اس لئے کہ میں چاہتا ہوں کہ میں (گھر سے )نکل کر تمہاری طرف آؤں تو میرا سینہ صاف ہو (یعنی کسی کی طرف سے میرے دل میں کوئی کدورت نہ ہو )‘‘۔(ابو داؤد)
-4تحفہ دینا ،سینوں کو کدورتوں سے اور ذہنوں کو کثافتوں سے پاک کرنے کے لئے یہ انتہائی مؤثر فارمولہ ہے ۔امام بخاری کی کتاب ’’الادب المفرد‘‘میں منقول حدیث کے مطابق’’ایک دوسرے کو تحفہ تحائف دینا باہمی محبت میں اضافہ کا باعث عمل ہے ‘‘۔
-5بندوں کا اللہ کے تقدیری فیصلوں پر راضی ہونا ، اور یقینا یہ مذکورہ بالا بیماری کا سب سے بہتر علاج ہے ۔
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر شدہ تقدیر و قسمت پر ناراضگی اور غصے کا اظہار دلوں کے سلامت رہنے میں سب سے بڑا آڑ ہے ، اس لئے جو بندہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے تقدیری فیصلوں پر جس قدرراضی رہتا ہے اس قدر اس کا دل بیماریوں سے سالم و صالح رہتا ہے چنانچہ دل کی بیماریوں کی بنیادی وجہ اللہ کی طرف سے مقدر شدہ معاملات پر عدم رضا کا اظہار ہی ہے جبکہ اس کے بر عکس اخلاص و نیکی کا راز تقسیم الٰہی پر رضا میں ہی پوشیدہ ہے جو کے دل کی سلامتی کے لئے آب ِ نشاط کی حیثیت رکھتا ہے ۔
-6صاف ستھرے اور کھوٹ سے پاک دلوں کے حاملین کے لئے اللہ کی طرف سے جو اجر ِعظیم ہے اپنی مجالس میں اس کا ذکر کرنا اور ان انعامات کودہرانااور یاد کرنا ،اللہ تعا لیٰ اہل جنت کی توصیف کرتے ہوئے فرماتے ہیں :(ان المتقین فی جنات و عیون ، ادخلوھا بسلام آمنین ، و نزعنا ما فی صدورھم من غل اخواناًعلی سرر متقابلین ) (الحجر)’’پرہیز گار جنتی لوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے (ان سے کہا جائے گا)سلامتی اور امن کے ساتھ یہاں آجاؤ، ان کے دلوں جو کچھ رنجش و کینہ تھا ہم سب کچھ نکال دیں گے ‘‘۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے دلوں کو حسد ، بغض ، نفاق ، کھوٹ اور دیگر جملہ امراض اور خصوصا ً برے اخلاق سے پاک کردے ۔
و صلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ و اصحابہ اجمعین ۔

تحریر  : محمد معراج قریشی 
abuhuzaifa88@gmail.com

No comments:

Post a Comment