Tuesday 31 January 2017

متقین کا ثواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

متقین کا ثواب

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کسی اللہ والے نے پوچھا کہ تقویٰ کسے کہتے ہیں۔آپ نے اس سے سمجھانے کی غرض سے سوال کیا کہ تم کسی ایسی گھاٹی سے گزر رہے ہو جس کے دونوں اطراف کانٹے دار جھاڑیاں ہوں۔وہاں سے گزرنے کا راستہ نہ ہو مگر تمہارا اس راستے سے گزرنا ضروری ہو تواس وقت تمہارا وہاں سے گزرنے کا انداز کیا ہوتا ہے؟تو وہ کہنے لگا:’’کہ میں اپنے کپڑوں کے دونوں اطراف کو ہاتھوں سے سمیٹ کر اکٹھا کروں گااور پھر وہاں سے دونوں اطراف کے کانٹوں سے لیس جھاڑیوں سے بچ کر گزروں گا۔
تاکہ مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے۔‘‘تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ فرمانے لگے:ــ’’یہی تو تقویٰ ہے۔‘‘سبحان اللہ !سمجھانے کا کتنا ہی پیارا انداز تھا۔کہ تم دنیا میں زندگی گزاروگے تو ہر اطراف سے شیطانی ہتھکنڈے تمہیں راہ راست سے ہٹانے کی سعی کرتے رہیں گے۔شیطان اوراس کے حواریوں کی مکمل کوشش ہوگی کہ تمہیں راہ راست سے ہٹا کر گمراہی کی ڈگر پر ڈال دیں مگران حالات میں تم نے اپنے دامن کو ناصرف شیطانی ہتھکنڈوں سے بچانا ہے بلکہ اپنے رب کی طرف سفر جاری رکھنا ہے۔راستے میں کہیں قدم ڈگمگا بھی جائیں تورکنا نہیں بلکہ آگے ہی بڑھتے رہنا ہے۔حتیٰ کہ تم منزل مقصود تک پہنچ جائواورتمہارا دامن گناہوں سے پاک صاف ہو۔
قارئین کرام!اس دنیا کے اندر انسان کے سب سے بڑے دشمن دو ہیں ایک شیطان اوردوسرااس کی بری نفسانی خواہشات جواس کا اللہ  سے تعلق کمزور کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے ایمان و عبادات میں خلل ڈالتے ہیں۔شیطان نے روزاول سے ہی یہ قسم کھالی تھی کہ میں انسان کو ضرورگمراہی کی طرف راغب کرتا رہوں گا اوراسے راہ راست سے ہٹاتا رہوں گا حتیٰ کہ اس کا اس کے رب سے تعلق کمزورپڑ جائے۔اس طرح نفس انسان بھی کسی طرح پیچھے نہیں بلکہ انسان کو اپنا تابع کرکے برائی کی طرف مائل کرنے میں برابرشیطان کا ہمنوابنا رہتا ہے۔الا یہ کے انسان اپنے نفس کا تابع بننے کے بجائے اسے اپنے تابع کرکے اللہ کا غلام اوربندہ بن جائے۔یہ اس وقت ممکن ہے جب وہ تقویٰ کی لازوال دولت سے مالا مال ہو۔جیسا کہ آپ پڑھ چکے تقویٰ کا مقصد ہی یہ کہ انسان اپنے دامن کو بچا کر زندگی بسر کرے۔تقویٰ وہ عظیم خصلت ہے جو اس کو اپنا لیتا ہے اوراس سے اپنے دامن کو مزین کرکے زندگی بسر کرتا ہے اس کے لیے جنت کا راستہ آسان ہوجاتا ہے کیونکہ اس کی وجہ لوگوں کی کثرت جنت میں داخل ہوگی جیسا کہ فرمان نبویْﷺ ہے:’’لوگوں کی اکثریت تقویٰ اورحسن خلق کی وجہ سے جنت میں داخل ہوگی‘‘(سنن ترمذی)
تقویٰ کا مقام انسان کا دل ہے اسی دل کی طرف امام کائنات نے تین دفعہ اشارہ کرکے فرمایا :’’تقویٰ یہاں ہے۔‘‘جب انسان کا دل تقویٰ کی دولت سے متصف ہوجاتا ہے تو باقی جسد انسانی بھی کامیابی کی ڈگر پر گامزن ہوجاتا ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امام کائنات کچھ یوں گویا ہوئے:’’لوگوآگاہ رہو بے شک انسانی جسم کے اندر گوشت کا ایک چھوٹا سا لوتھڑا ہے جب تک وہ درست رہتا ہے سارے کا سارا انسان درست رہتا ہے جب اس میں کوئی خلل آجاتا ہے تو سارے کے سارے انسان میں خلل آجاتا ہے خبرداروہ چھوٹا ساٹکڑادل ہے۔‘‘اس لیے اس دل کی ہروقت اصلاح کرتے رہنا چاہیے۔دل کی اصلاح کافائدہ یہ ہوگا کہ انسان دنیا میں سنبھل کرچلنے کے قابل ہوجائے گا اورشیطانی ہتھکنڈوں سے بچتا رہے گا۔کیونکہ متقین پرشیطان کا وار نہیں چلتا اگرچل بھی جائے تو وہ فوراً اللہ کی طرف پلٹ آتے ہیں۔متقین لوگوں کی کچھ خاص صفات ہیں جن کی وجہ سے وہ پہچانے جاتے ہیں۔جیسا کہ سیدنامالک بن انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے معلوم ہوا کہ بعض فقہاء میں سے کسی نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی طرف یہ لکھ بھیجا کہ اس بات کو جان لیجیے کہ متقین کی کچھ صفات ہیں۔جس کے ذریعے وہ پہچانے جاتے ہیں اورانہی صفات کی بدولت وہ اپنے نفس کو پہچان سکتے ہیں کہ آیا وہ بھی متقین میں شامل ہیں یا نہیں وہ صفات یہ ہیں:’’جواللہ کے فیصلوں پر راضی ہوجائے اورآزمائشوں پر صبر کرے اوراللہ کی نعمتوں کی قدردانی کرتے ہوئے اللہ کا شکر گزار بندہ بن جائے،زبان کو سچا ہو اوربات ووعدے کا پکا ہو،اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل پیرارہے اورانہیں باربارپڑھے،(جامع الاصول)
تقویٰ اور پرہیز گاری اختیار کرنے والے اشخاص بہت فائدے میں رہتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں کئی مقامات پر تقویٰ کے فوائد بیان کیے ہیں جن کا حاصل یہ ہے:’’مشکلات میں پھنسوں کے لیے راہِ نجات تقویٰ ہے،رزق میں خیروبرکت اورفراوانی کاسبب تقویٰ ہے،تمام معاملات کی اصلاح کاسبب تقویٰ ہے،تمام صغیرہ گناہوں کو مٹانے والا عمل تقویٰ ہے،جنت میں لوگوں کی کثرت کے داخلے کی وجہ تقویٰ ہے،متقین کے ساتھ ہر وقت اللہ کی مددونصرت رہتی ہے،وہ پریشانیوں سے محفوظ وممنون رہتے ہیں،اللہ کے محبوب بندوں میں شامل ہوجاتے ہیں،انہیں جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھنے کی خوشخبری مل جاتی ہے،جنت میں داخلے کی خوشخبری مل جاتی ہے،ان پر اللہ کی محبت وکرم نوازیاں جاری رہتی ہیں،غرض کے اعمال صالحہ کی طرف راغب کرنے والی اصل بنیاد تقویٰ کوکہا جائے تو بے جا نا ہوگا۔‘‘روزمحشر متقین نفع میں ہوں گے کیونکہ نفسانفسی کے اس عالم میں انہیں اللہ کی خصوصی مددونصرت حاصل ہوگی جیساکہ حدیث میں آتا ہے:’’روزمحشراللہ تعالیٰ سات قسم لوگوں کو اپنے عرش کے سائے تلے جگہ دے گا،حال یہ ہوگا کہ اس دن عرش کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نا ہوگا،وہ سات قسم کے لوگ یہ ہوں گے پہلے وہ حکمران جو اپنی رعایا کے ساتھ عدل وانصاف کرنے والے ہوں گے (ان پر ظلم وستم اورجوروجفا کرنے والے نہ ہوں گے)،دوسری قسم کے وہ جوان جنہوں نے اپنی جوانیاں اللہ کی عبادت میں بسر کی ہوں گیں( حتیٰ کہ انہیں  اسی حال میں موت آگئی)،تیسری قسم وہ لوگ جن کے دل مسجد سے جڑے رہتے تھے(وہاں سے نکلتے مگردل پھر واپس مسجد جانے کے لیے مچلتا رہتا)،
چوتھی قسم کے وہ لوگ جن کے آپس میں تعلقات اوررشتہ داریوں کی بنیاد اللہ کا دین تھا (ناکہ دنیا کا جاہ وجلال اورمال ودولت)اسی پر وہ آپس میں ملتے تھے اوراسی پر وہ ایک دوسرے سے جداہوتے تھے،پانچویں قسم وہ لوگ جنہیں دنیا میں جاہ وجلال اورحسب و نسب والی عورتوں نے بدکاری کی دعوت دی مگراللہ کے ڈر کی وجہ سے وہ اس بدکاری سے بچتے رہے،چھٹی قسم وہ لوگ جنہوں نے اپنے مالوں کے دروازے اللہ کے راہ میں کھول دیے اورخرچ کرتے رہے،کرتے رہے (حتیٰ کے انہیں اسی حال میں موت آگئی)مگراس قدر خرچ کے باوجود انہوں نے حتیٰ الوسع لوگوں کی نظروں سے بچنے کی مکمل کوشش کی یہاں تک کہ ان کو دائیں ہاتھ کو علم نہ تھا کہ بائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے،ساتویں قسم کے وہ لوگ جوتنہائی میں اللہ کویادکرتے اپنی غلطیوں کوتاہیوں کو یادکرتے اللہ کی اپنے اوپر کرم نوازیاں یاد کرتے اوراپنی نافرمانیاں یاد کرکے(اللہ سے توبہ کرتے اوراس کے سامنے) آنسوبہایاکرتے تھے۔‘‘
قارئین کرام!متقین (اللہ سے ڈرنے والے اورگناہوں سے بچنے والوں )کا انجام بہت ہی عمدہ ہوگا،اس لیے ہمیں یہ خصلت اپنانی چاہیے۔کیونکہ اسی میں کامیابی و کامرانی ہے۔اللہ ہمیں اپنے محبوب بندوں میں شامل کرے۔آمین

تحریر:حبیب اللہ
رابطہ:8939478@gmail.com

No comments:

Post a Comment