Saturday 28 January 2017

مال کے پجاری

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مال کے پجاری

’’مجھے چھوڑ دو،خدارامجھے معاف کردو‘‘چیخ چیخ کران میں سے ہر ایک کی آواز نکلنا بند ہوگئی تھی۔مگر پھر ہمت کرکے ہر شخص اپنی پوری قوت یکجا کرکے ان سے التجا کرتا جارہا تھااورچیختا ،چلاتا،روتا جارہا تھا۔ان کے آنسو ایسے بہہ رہے تھے گویا آنسوئوں کا سیل رواں جاری ہو گیا ہو۔ مگر جن کی یہ قید میں تھے ان کے توگویا کان ہی نہ تھے کہ ان کی آواز کی طرف دھیان کرتے۔انہوں نے ان کے ہاتھ پائوں باندھ کر زبردستی چٹیل میدان میں لٹادیا،بہت ہی خطرناک منظر تھا۔خونخوار بڑے بڑے سینگوں والے بیل،بکرے اورگوشت پوست سے بھرپورہاتھی ایک قطار میں کھڑے کردیئے گئے تھے،
جوگویا برسوں سے انتقام کی آگ میں جل بھن رہے ہوں۔بس ان کے لیٹنے کا ہی انتظار تھا۔ سب جانوروں کو ان کے سر کی جانب کھڑاکیا گیا تھا۔جیسے ہی انہیں لٹایا گیا،جانوروں کو چلا دیا گیا۔اب بڑے بڑے سینگوں والے بیل اوربکرے باری باری آتے جارہے تھے اور انہیں اپنے پائوں تلے روندتے چلے جارہے تھے۔کچھ تو اپنے خطرناک سینگ ان کے تن بدن میں زبردستی کھبورہے تھے۔ان کی گردن پر پائو رکھ کر اسے مسلتے جارہے تھے۔ان کو
لانے والے افراد انہیں لٹا کر جا چکے تھے۔اب شدت تکلیف سے ان کی آواز نکلنا بند ہوچکی تھی۔بدن زخموں سے چورچور مگرموت توگویا کوسوں دورتھی۔اب کوئی ان کے پاس نہ تھا۔جو اِن جانوروں سے انہیں بچاتا۔جانوروں ایک قطار کی صورت میں باربار ان کی گردنوں پر اپنے کھرڈالتے اوران کے بدن کو کچلتے جارہے تھے اورجیسے ہی آخری جانورگزرتا پہلا پھر پہنچ چکا ہوتا یہ عمل کئی دن سے ہورہا تھا۔ارے یہ کیا یہ تو وہی ہیں جو پہلے ان کو لٹا کرگئے تھے۔ان کو لٹانے کے بعد جانے والوںکے ہاتھ میں کچھ اورافراد آچکے تھے۔ان کی حالت بھی پہلوں جیسی تھی ،دل وحشت زدہ،پیشانی سے خوف کے آثارٹپک رہے تھے۔وہ بھی ان کی طرح چیخ و پکار کر رہے تھے۔مگر جن کے ہاتھ میں یہ تھے قیدتھے ان کے تو گویا کان ہی نہ تھے کہ ان کی بات کی طرف توجہ کرتے۔لاکھ چیخوں کے باوجود انہیں بھی اسی چٹیل میدان میں لٹا دیاگیا۔ تھوڑی ہی دیر میں خطرناک نظارہ سامنے تھے۔ خوفناک بڑے بڑے منہ والے گنجے اژدھے ان کی طرف دوڑے چلے آئے۔وہ بہت ہی خطرناک اور زہریلے اژدھے تھے۔ان کے پاس پہنچتے ہی انہوں نے ان کو اپنے جبڑوں میں پکڑکر کاٹنا شروع کیا ۔اژدھوں کے زہر سے ان کے تن بدن میں آگ لگ گئی ۔مگر یہ کیا مرنے کے باوجود بھی موت ان سے کوسوں دور تھی۔ اسی طرح کچھ کو تولٹا کر،ان کے درہم ودینارکوپگھلا کر ،لوہے کی چادریں بنا کر،انہیں آگ میں تپا کر، ان کے پہلوئوں کو داغا جارہا تھا۔شدت تکلیف سے ان کی خوفناک چیخ وپکار نے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔مگران کی چیخ وپکار سننے والا کوئی تھا ہی نہیں۔جوانہیں پکڑکر لائے تھے اوربے رحمانہ طریقے سے لٹا کرگئے تھے۔وہ بھی وہاں موجود نہ تھے۔البتہ وقفے وقفے سے وہ آرہے تھے اور اپنے ساتھ دوسرے مجرموں کو بھی لارہے تھے۔ان کے ساتھ بھی وہی کچھ کیا جارہا تھا جو پہلے لائے جانے والوں سے ساتھ ہورہا تھا۔ دراصل یہ مجرم وہ لوگ تھے جنہوں نے دنیا میں رہ کر مال کو جائز و ناجائز طریقے سے جمع کرنا اپنا مشغلہ بنا لیا تھا۔کسی کا مال ادھر سے لوٹا،توکسی سے رشوت لی،کہیں سے سود لیا،توکسی پر ٹیکس لگا کر اس کا مال ہڑپ کرتے رہے تھے۔کسی کودھوکا دے کراس سے مال بٹورتے رہے تھے،تو کسی پر ظلم کرکے ان کے مال پر قابض ہوگئے تھے۔یا حلال طریقے سے مال کمایا مگر اس میں سے اللہ کا حق زکوۃ اورغریبوں کا حق صدقات و خیرات کی صورت میں ان سے روک لیا تھا۔وہ اپنے مال پرخزانے کا سانپ بن کر بیٹھ گئے تھے۔آج روزِ محشر 50ہزارسال کے دن جب تک لوگوں کا حساب و کتاب مکمل نہیں ہوجاناتھا ان کو یہی سزاملنی تھی۔(صحیح مسلم : 987تا990)

غرض دنیامیں مال کو جمع کرنے کے لیے انہوں نے ہر جائز و ناجائز طریقہ اختیار کیا تھا۔یہ کام کرتے ہوئے وہ بھول چکے تھے کہ ہمیں موت بھی آنی ہے۔اپنے مال سے اللہ کا حصہ(زکوۃ) دینا بھی انہوں نے ترک کردیا تھا۔آج رب کے دربار میں انصاف ہورہا تھا۔ان ظالموں کو کیے کا بدلہ مل رہا تھا،دنیا میں تویہ صاحب اقتدار تھے اور دنیا کے قانون کے شکنجے سے اپنے مال ودولت کے بل بوتے پر بچتے رہے تھے۔مگرآج عدل و انصاف کامیدان سج چکا تھا۔ہرغاصب و ظالم کو کیے کا بدلہ مل رہا تھا۔البتہ اہل ایمان میں سے جن کے حق پر ہوتے ہوئے بھی دنیا میں ظلم کیا جاتا رہا تھا۔وہ اپنے رب کی رحمتوں اور برکتوں سے لطف اندوز ہورہے تھے۔اللہ کی کرم نوازیوں کی برکھا ان پر برس رہی تھی۔آج حقیقی چین وسکون کا سانس انہیں مل چکا تھا۔دنیا کے سارے غموں کو کہ جنہوں نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی، جنت کے ایک نظارے کے ساتھ ہی وہ بھول چکے تھے۔آج وہ اپنے رب کے عدل وانصاف پر بہت خوش اورراضی تھے۔انہیں اپنے اوپر کیے جانے والے ظلموں کے بدلے نیکیاں اوردرجات کی بلندی مل رہی تھی جبکہ برائیوں کا بوجھ ان کے ناتواں کندھوں سے ہٹایا جارہا تھا۔غرض دنیا میں ہرظلم وجبر کے باوجود اللہ کے در کو نہ چھوڑا تھا،اس کا ثمرانہیں یہاں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مل چکا تھا۔
قارئین کرام!یہ تو احادیث میں آنے والے قصص اوراحوال کوجوڑ کر ایک فرضی منظرنامہ پیش کیاگیا۔مگروہ دن دور نہیں جب یہ فرضی منظرنامہ حقیقت کا روپ دھار لے گا اور یہ حقیقت اس منظر نامے سے زیادہ مشکل وکٹھن ہوگی۔اس دنیا میں جو لوگ مال وزر کی طمع وحرص میں حلال وحرام کا فرق کیے بغیر دولت کی تجوریاں بھرتے رہتے ہیںیا حلال طریقے سے کما کر اس میں سے اللہ کا حق زکوٰۃادا نہیں کرتے،توان کا انجام بھی بہت برا ہوگا۔آخر امت محمدیہ کے وہ افراد!جنہیں اللہ نے وافر مال سے نوازا ہے۔اپنے پیارے نبی ﷺ اورآپ کے پیارے صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کی سیرت کا مطالعہ کیوں نہیں کرتے ۔ان پاک باز ہستیوں کا طرزِ عمل تو یہ تھا کہ وہ اپنے مال کو اللہ کی رضا کے لیے جس نے دیا اس کے راستے میں اس طرح خرچ کرتے تھے کہ انہیں فقر کا ڈر نہ ہوتا تھا۔
مگراللہ انہیں اوربڑھا چڑھا کرواپس دے دیتا تھا۔سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ غزوہ موتی کی ایک مجلس میںمال سے لدے اونٹ،گھوڑے،سونا ،چاندی اتنا زیادہ خرچ کیا تھا کہ موجودہ رقم میں وہ کروڑوں روپے بنتے ہیں۔مگر اللہ انہیں اور نوازتا تھا۔سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ اپنے گھر کا سارا مال خرچ کردیا اور سیدنا عمررضی اللہ عنہ اپنے گھر کا آدھا مال لے کر آگئے۔باقی صحابہ بھی حسب توفیق خرچ کرتے تھے۔مگرآج یہودیوں کے نقش قدم پر چل کردولت کو اکھٹا کرنے کا رواج بڑھتا جارہا ہے۔یہ مسلمانوں کا نہیں بلکہ یہود کا طریقہ ہے کہ مال کو اللہ کے راستے میں خرچ کیے بغیرسمیٹتے رہو۔تو جو شخص جس کے راستے پر چلے گا ،روزِ قیامت انہیں کے ساتھ ہوگا۔لہٰذا مال کے پجاریوں کو یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہیے ،جس رب نے یہ مال دیا ہے وہ لینے پر بھی قادر ہے۔وہ کسی کو دے کر آزماتا ہے تو کسی سے لے کرآزماتا ہے۔یہ بھی ذہن نشین ہونا چاہیے کہ دنیا کی زندگی عارضی جبکہ آخرت کی زندگی ہمیشہ کی زندگی ہے۔یہاں جیسا کرجائے گا وہاں ویسا پا لے گا۔اللہ تعالیٰ بہت ہی بڑا منصف اورعادل ہے ،وہ ہمیشہ سے باخبراورخوب جاننے والا ہے۔لہٰذا دنیا میں کسی کو دھوکا دے بھی لیا تو اللہ کی پکڑسے کوئی بچ نہ پائے گا۔اس لیے اللہ سے ڈرجائیے اور اس کو راضی کرجائیے۔تاکہ قیامت والے دن پچھتاوے کا سامنا نا کرنا پڑے۔

تحریر:حبیب اللہ 
ای میل:8939478@gmail.com
جامعۃ الدراسات الاسلامیہ کراچی

No comments:

Post a Comment