Thursday 12 January 2017

بے وفا ہم یا اللہ .... ؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
تحریر: حبیب اللہ جامعہ الدراسات الاسلامیہ کراچی
رابطہ:Email:8939478@gmail.com Fb:ha8939478@gmail.com

بے وفا ہم یا اللہ .... ؟

اکثر لوگوں سے آپ نے سنا ہوگا ”اللہ کو مسلمانوں کا کوئی خیال نہیں، جتنی بھی اس کی عبادت کرو کچھ ملتا تو ہے ہی نہیں، کافروں کو دیکھو ان پر دنیا کی نعمتوں کی بارش برس رہی ہے، اللہ ان سے خوش ہے تو انہیں نعمتیں دے رہا ہے نا“ وغیرہ وغیرہ بعض تو نعوذباللہ یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ”اللہ بے وفا ہے، اس کی جتنی عبادت کرو کوئی فائدہ نہیں“ غرض کہ لوگ اللہ سے مایوس ہوتے اور مایوسیاں پھیلاتے ہیں۔ نہ تو خود اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کو اللہ کی طرف آنے دیتے ہیں۔ بلکہ انہیں رحمت الٰہی سے دور کرتے نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید نظر آتے ہیں۔ اس کے فضل سے بیگانے نظر آتے ہیں۔ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں جن سے کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ الفاظ کوئی مسلمان نہیں کہ سکتا۔

غرض کہ مسلمانوں کی حالت، ان کا ایمان، ان کا یقین اللہ تعالیٰ سے بالکل ختم ہو چکا ہے۔ دلوں سے ایمان نکل چکا ہے۔ خوف الٰہی کی جگہ حب الدنیا نے لے لی ہے۔ شیطان کی محبت ان کے دلوں میں راسخ ہو چکی ہے۔ دنیاوی چکا چوندیوں نے ان کو دین سے بیگانہ کر دیا ہے۔ خواہشات کی محبت قرار پکڑ چکی ہے۔ اس لیے تو اللہ سے مایوس ہو کر اس کی نافرمانیوں میں مگن نظر آتے ہیں۔ وہ حقیقت کی تہہ تک پہنچے بغیر اللہ کی شان میں گستاخیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی نافرمانیوں کی طرف نہیں دیکھتے۔ انہیں اپنی سیاہ کاریاں نظر نہیں آتیں۔ ان کی نظر اپنے کالے کرتوتوں پر نہیں پڑتی۔ گھر میں لگی آگ بجھاتے نہیں اور اعتراض کرتے ہیں تو مالک حقیقی پر۔ 

اس مالک نے تو یہ اصول بیان فرما دیا ہے ”اور ہم انہیں دنیا کے کم عذاب کا مزا چکھاتے ہیں تاکہ وہ آخرت کے بڑے عذاب سے محفوظ رہ سکیں۔“ (السجدہ: 21) 
اسی طرح قرآن سے یہ بات ثابت ہے کہ گناہوں کہ وجہ سے اللہ کے عذابوں کا نزول ہوتا ہے۔ مگر اس میں بھی بندوں کی خیر خواہی بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے کہ بندے نافرمانیوںسے توبہ کرلیں۔ مالک حقیقی کی طرف لوٹ آئیں۔ اللہ ہی کو اپنا مشکل کشا، حاجت روا مان لیں۔ اسی سے رشتے جوڑ لیںاور غیروں سے ناطے توڑ لیں۔ وہ مالک کافروں پر دنیاوی نعمتوں کی بارش تو اس لیے برساتا ہے کہ ان کے لیے صرف دنیا ہی ہے جو عیش کرنے ہیں کرلیں۔آخرت میں انہیں ذرہ برابر بھی نعمتیں نہیں ملیں گی۔ بلکہ ہمیشہ آگ میں جھلسنا اور بھڑکنا ہوگا۔ وہ تو دنیا کی چند نعمتیں ان کو اس لیے دیتا ہے تاکہ وہ نافرمانی کے کاموں میں اچھی طرح مست ہو جائیں پھر اچانک انہیں اللہ کا غضب آن لیتا ہے۔ ان کے پاس دنیاوی جاہ و جلال کا ہونا اس بات کا ہر گز متقاضی نہیں کہ وہ اللہ کو محبوب لگتے ہیں۔ اگر دنیاوی حشمت و ہیبت اور جاہ و جلال اللہ کی رضا مندی کا ثبوت ہوتا تو صلحائ، اولیاءاور انبیاءعلیہم السلام کے پاس دنیاوی نعمتوں کے خزانے ابتداءسے انتہاءتک ہوتے مگر ایسا نہیں ہوا۔ سوائے چند انبیاءعلیہم السلام کے کہ جن کو اللہ نے نبوت کے ساتھ بادشاہت بھی دی تھی۔ حقیقت میں یہ مال و دولت اکثر اوقات فتنہ بن جاتا ہے اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ: ”یہ دنیا کی زندگی (کا سازوسامان) تو دھوکا ہے۔“ (آل عمران: 185) باقی رہا اللہ کی ناراضگی اور مہربانی کا معاملہ تو یقینا اس وقت اللہ ہم سے ہمارے ہی کرتوتوں کی وجہ سے ناراض ہے۔ یہ بات ثابت ہے جب اللہ کے بندے اللہ کی زمین پر اللہ کے نازل کردہ قوانین کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں تو پھر رحمتوں اور نعمتوں کی موسلا دھار بارش برستی ہے۔ مگر اس کے برعکس جب غیروں کے نظاموں کا زمین پر بول بالا ہو تو نتیجتا رحمتوں اور برکتوں کا سلسہ منقطع ہو جاتا ہے۔ پھر اگر آسمان سے رحمت برسے بھی سہی تو وہ زحمت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ تو اس وقت جتنے بھی کٹھن حالات ہیں قرآن کے مطابق ”بحرو بر میں فسادکا برپا ہونا انسانوں کے ہاتھوں کی کمائی ہے۔“ (الروم: 41) شاعر اسکا مفہوم کچھ یوں بیان کرتاہے
جو کچھ ہیں وہ سب ہیں اپنے ہی ہاتھوں کے کرتوت
برا ہے زمانے کا نہ قسمت کا گلہ ہے
باقی رہا غضب الہٰی کا معاملہ تو حدیث مبارکہ میں آتا ہے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ”جب سے اللہ نے مخلوق کو پیدا فرمایا ہے تو اس نے اس کتاب میں جو اس کے پاس عرش پر ہے یہ لکھ دیا ہے ”میری رحمت میرے غصے پر غالب ہوگی۔“ (بخاری: 384/13، مسلم: 2751) اس کی رحمت کی وسعت اتنی زیادہ ہے جس کا شمار تک ممکن نہیں۔ اس کرہ عرض پرتمام مخلوقات کے اندر رحم کا جو مادہ پایا جاتا ہے۔ وہ چاہے انسان ہوں کہ ایک ماں بچے کی ہلکی سی تکلیف پر بلبلا اٹھتی ہے، کسی مرغی کے چھوٹے چوزے کو ہاتھ لگاﺅ تو وہ لڑنے مرنے کو تیار ہو جاتی ہے، کسی پرندے کے بچے کو اٹھا لو تو وہ چاں چاں، ٹیں ٹیں کرکے شور مچانے لگتا ہے، کسی وحشی درندے کے بچے کے قریب جاﺅ تو وہ دور سے ہی گھورنے لگتا ہے۔ غرض یہ رحم کے اتنے مناظر اس رب کی رحمت کا ایک ہی حصہ ہیں تو اس کی باقی رحمت کا کیا حال ہوگا؟ فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کی سو رحمتیں ہیں ان میں سے ایک رحمت کی وجہ سے پوری مخلوق آپس میں رحم کرتی ہے اور ننانوے قیامت والے دن کے لیے محفوظ ہیں۔“ (بخاری: 431/10، مسلم: 2752)
اللہ اللہ! اس رب کی اتنی وسیع رحمت ہونے باوجود بھی اس سے مایوسی کا اظہار کرنا، اس پر جھوٹ باندھنا، اسے جھٹلانا اورغیروں کے در پر سرکو خم کرنا، در درکی ٹھوکریں کھانا یہ کہاں کا انصاف ہے۔ اس کم عقلی پر تو بے وقوف بھی تف کر اٹھے۔ موجودہ مسلمانوں کی اپنی سستیاںاس حد تک پہنچ چکی ہیں کہ وہ ہر شے میں غیروں کے محتاج ہیں۔ ہاتھ پاﺅں باندھ کر بیٹھے ہیں۔ پکی پکائی کھانے کی لت پڑ چکی ہے۔
ہر اک شے میں غیروں کے محتاج ہیں وہ
مکینکس کی دنیا میں تاراج ہیں وہ

ہمیشہ حرکت میں ہی برکت ہوتی ہے۔کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا پڑتا ہے۔ یہ تو عام سا اصول ہے ”جو بوﺅ گے وہی کاٹو گے“ اگر تم اللہ کی طرف متوجہ ہوجاﺅگے، صرف اسی کی بندگی کرو گے، صرف اسی کو اپنا داتا و دستگیر مان کر اس کی عبادت میں مشغول ہوجاﺅ گے، در در پر ہاتھ پھیلانے کے بجائے اکیلے مالک حقیقی سے اپنی ضروریات کے طالب بن جاﺅگے ۔تو پھر اس کی رحمتیں بھی تم پرموسلا دھار بارش کی مانند برسیں گی۔ وہ اپنے انعاموں کی برکھا بھی تم پربرسائے گا۔ وہ اپنے خزانوں کی کنجیاں بھی تم پر کھول دے گا مگر شرط وہی ہے کہ تم اللہ کی طرف آﺅ تو سہی۔ حدیث مبارکہ میں آتاہے جنابِ محمد ذیشانﷺ نے فرمایا: ”اللہ فرماتا ہے جو شخص ایک نیکی کرے گا میں اسے دس گنا اجر دوں گا یا اس سے بھی زیادہ دوں گا۔ جس نے ایک گناہ کیا اسے اسی کے مثل سزا دوں گا یا وہ بھی معاف فرما دوں گا۔ جو شخص میری طرف ایک بالشت قریب ہوگا میں اس کی طرف ایک ہاتھ قریب ہوں گا، جو میری طرف ایک ہاتھ قریب ہوگا میں اس کی طرف دو ہاتھ قریب ہوگا۔ جو شخص میری طرف چل کرآئے گا میں اس کی طرف دوڑ کر جاﺅں گا۔ اور جوشخص زمین بھر برائی لے کر مجھ سے ملے گا لیکن اس میں ذرہ برابر بھی شرک کی آمیزش نہ ہوگی تو میں اسے اسی قدر مغفرت لے کر ملوں گا۔“ (مسلم: 2687)
سبحان اللہ! اس حدیث میںاللہ تعالیٰ کے چلنے سے مراد اس کی رحمت کا متوجہ ہوناہے۔اس نے اس قدر ہمیں خوشخبری سنا دی مگر ہم ہیں کہ 
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فرداں ہیں

No comments:

Post a Comment