بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
تحریر: حبیب اللہ جامعہ الدراسات الاسلامیہ کراچی
رابطہ:Email:8939478@gmail.com Fb:ha8939478@gmail.com
اخلاق حسنہ کامیابی کا ضامن
معاشرے میں عام طور پر لوگوں کی دو اقسام ہیں کچھ لوگ تو ایسے ہیں کہ جن سے جب بھی واسطہ پڑتا ہے وہ انسان کا د ل لبھالیتے ہیں۔ ان سے جب بھی ملا جائے تو وہ اپنے مخصوص انداز میں سامنے والے سے کچھ اس طرح سے پیش آتے ہیں کہ اسے یہ محسوس نہیں ہو پاتا کہ میں کسی واقف سے مل رہا ہوں یا پنے گہرے دوست سے مل رہا ہوں بلکہ ان کا عمدہ اخلاق، بہترین کردار، اچھی گفتار اور انداز ایسا شیریں ہوتا ہے کہ انسان اول ملاقات میں ہی ان کا شیدائی بن جاتا ہے۔ وہ پہلے لمحے ہی اپنے پیار بھرے انداز سے سامنے والے کو اپنا ہم نوا بنا لیتے ہیں۔ پھر دل بار بار ان سے ملنے کا اشتیاق مند ہوتا ہے۔ راہ میں چلتے ہوئے ان سے آمنا سامنا ہوجائے تو چہرے پر مسکراہٹ، شادابی و فرصت کا سماں پیدا ہوجاتا ہے۔ان سے جب بھی انسان گفتگو کرتا ہے تو عجیب لذت و سرور کا احساس ہوتا ہے تنگ ہونے کی بجائے دل کا اسرار ہوتا ہے کہ گفتگو تسلسل سے جاری رہے مگر اس کے برعکس کچھ ایسے لوگ بھی ہیں کہ پہلی ملاقات میں ہی وہ سامنے والے پر ایسا تاثر قائم کرتے ہیں کہ وہ ان سے ملاقات تو درکنار دیکھنا تک گوارا نہیںکرتا۔ خصوصی طور پر ان سے ملنے جانا تو دور کی بات ہے راہ چلتے کہیں ان سے واسطہ پڑ جائے تو انسان راہ بدلنے پر مجبور ہوجاتاہے۔ اس وقت بار بار یہی خیال آرہا ہوتا ہے کہ اگر اس سے واسطہ پڑگیا تو کوئی نہ کوئی ایسی مغلظات منہ سے نکالے گا کہ سارے دن کا چین وسکون برباد ہوجائے گا۔ اس لیے تو لوگ ایسوں سے کنارہ کشی اختیار کرنے میں ہی مصلحت سمجھتے ہیں تاکہ اپنی عزت محفوظ رکھ سکیں۔ اگرچہ یہ دونوں اقسام انسانوں ہی کے ہیں۔ مگر پہلی قسم کے لوگ معاشرے کے کامیاب ترین افراد سمجھے جاتے ہیں۔ پہلی قسم کے لوگوں کی کامیابی کی اہم وجہ ان کا اخلاق حسنہ سے مزین ہونا ہے اسی صفت کی بدولت وہ سامنے والے کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ اسی صفت کی بدولت وہ کامیاب ترین افراد کا درجہ پالیتے ہیں۔
اخلاق حسنہ کا اپنانا اور انسان میں ہونا ایک مومن کی لازمی صفت ہے۔ کیونکہ مومن بد زبان، فحش گو، جھگڑالو، گالیاں بکنے والا نہیں ہوتا بلکہ قرآن کے مطابق (مومن) غصہ پی جانے والے، لوگوں سے درگزر کرنے والے ہوتے ہیں۔ (آل عمران: 134) اور اخلاق حسنہ اس قدر اہم ہے کہ اللہ نے اپنے نبی کو خصوصاً مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: بلا شبہ آپ خلق عظیم کے اعلیٰ ترین مرتبے پر فائز ہیں۔ (ن: 4) یہی وجہ تھی کہ جو ایک بار نبی مکرمﷺ کے چہرہ اقدس کے دیدار سے مشرف ہو جاتا اور چند میٹھے بول آپ کی لسان مطہرہ سے سن لیتا وہ آپ کا گرویدہ ہوجاتا ۔ آپ اپنے اخلاق و عادات میں اس قدر اعلیٰ و بالا تھے کہ جس کی مثال لانا ناممکن ہے۔ سیدنا انس ؓ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی ہتھیلی سے نرم کو ئی موٹا یا باریک ریشم نہیں چھوا اور میں نے رسول اللہ ﷺ کے جسم اطہر کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ اور بہتر خوشبو کبھی نہیں سونگھی۔ میں نے دس سال تسلسل کے ساتھ آپ کا خادم بننے کا شرف پایا، اس لمبے عرصے میں الفت وشفقت کے پیکر مہربان نبی جناب محمد ﷺ نے مجھے (ڈانٹنا تو درکنار) کبھی اف تک نہیں کہا۔
یہ ہیں میرے مصطفیٰ ﷺ کائنات کے حسن و کمال کے پیکر، اخلاق حسنہ کے سب سے بڑے داعی کہ اتنے لمبے عرصہ میں باوجود اس کے کہ انس ؓ خادم ہیں کبھی مارا نہیں ڈانٹا تک نہیں، یہ تو دور کی بات اف تک نہیں کہا۔ آج ہم بھی ذرا اپنے گریبان میں جھانک لیں اگر اللہ کا تھوڑا سا فضل ہم پر برس پڑے اور چند دنیاوی نعمتیں، مال و دولت ہمیں مل جائے تو ہمارے انداز بدل جاتے ہیں۔ پھر ہم اپنی ذات کو اعلیٰ و بالا سمجھنے لگتے ہیں اپنے ماتحتوں کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھڑکنا، انہیں مارنا، ڈانٹنا، انہیں ذرہ برابر بھی وقعت نہ دینا۔ ان سے جانوروں کی طرح کام لینا اگر کوئی کام نہ کرے تو ان پر زبردستی کرنا ان پر ناجائز تکالیف و مشقت کا بوجھ ڈال دینا غرض کہ دعویٰ تو ہمارا یہ ہے کہ ہم غلامان محمدﷺ ہیں مگر جناب محمدﷺ کی سیرت کے روشن گوشوں سے دور ہی سے گزر جاتے ہیں۔ یہ کیسی محبت ہے؟ یہ کیسی غلامی ہے؟ یہ کیسے مسلمان ہیں؟
اگر حقیقی غلامان محمد بننا ہے تو پھر اخلاق حسنہ کی صفات کو اپنانا ہوگا کیونکہ جناب محمدﷺ نے فرمایا تم میں سے بہترین پسندیدہ شخص وہ ہے جو تم میں اخلاق کے اعتبار سے عمدہ ہو۔ (بخاری: 566/6) اخلاق ایسی عمدہ تلوار ہے کہ اس کے ذریعے جسے بھی مسخر کیا جائے وہ کبھی بھی ناکام و نامراد نہیں ہوتا۔ شاعر جناب محمدﷺ کے اخلاق کی مدح گوئی اپنے اشعار میں کچھ اس طرح سے کرتا نظر آتا ہے۔نہ مظلوم کی آہ زاری سے ڈرنا
نہ مغلوب کے حال پر رحم کرناہوا و ہوس میں خودی سے گزرناتعیش میں جینا نمائش پہ مرناسدا خواب غفلت میں بے ہوش رہنادم نزع تک خود فراموش رہنا
آج شاید ہی کوئی ایسا شخص ملے جس کا اخلاق اعلیٰ ہو، جو حسن خلق کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہو، جس میں تمام اخلاقی خوبیاں بدرجہ اتم پائی جاتی ہوں، بات بات پہ مغلظات بکنا، گالیاں نکالنا فحش و بد گوئی والی مذاق کرنا دوسروں کو پریشان رکھنا، ہمیشہ ایسا کا م کرنا جس میں سب کا نقصان ہو۔ یہ بات غور سے جان لیجئے کہ اخلاق حسنہ ہر نیکی کے کام میں شامل ہے۔ صرف مسکرا کر مل لینا، چند میٹھے بول بول لینا، انداز گفتگو کو مہذب بنا لینا، چال ڈھال کو عمدہ کر لینا ہی اخلاق حسنہ نہیں بلکہ ہر نیکی کا تعلق اخلاق حسنہ سے ہے اور اخلاق حسنہ کے برعکس ہر صفت گناہ ہے جیسا کہ جناب محمدﷺ سے سوال کیا گیا نیکی اور برائی کیا ہے؟ فرمایا: نیکی حسن خلق ہے اور برائی وہ جو تیرے دل میں کھٹکے اور تجھے یہ بات ناپسند ہو کہ تیری یہ خصلت لوگوں کے سامنے آجائے۔ (مسلم: 2554)کچھ اخلاق نے کرلی کچھ تلوار نے کرلی
مسخر ساری دنیا شاہِ ابرار نے کر لی
جو شخص عمدہ اخلاق کا مالک ہے اگرچہ وہ زیادہ نیکیاں نہیں کرتا وہ تہجد کا اہمتام نہیں کرتا فرض عبادات پر ہی اکتفا کرتا ہے مگر اس کے اخلاق کی عمدگی اسے بلند مرتبے پر پہنچا دیتی ہے وہ کامیاب و کامران ہوجاتا ہے دنیا والوں کی نظروں میں بھی اسے اعلیٰ مقام اور مرتبہ نصیب ہوتا ہے اور آخرت میں بھی جنت جیسی عظیم نعمت اس کے نصیبے میں مقدر کردی جاتی ہے اس کے اس بلند مرتبے کی خوشخبری جناب محمدﷺ کے اس فرمان مہں موجود ہے، بلا شبہ مومن اپنے اچھے اور عمدہ اخلاق کی وجہ سے دن کو روزے رکھنے والے اور راتوں کو قیام کرنے والوں کے مرتبے پر فائز ہوجاتا ہے۔ (ابوداو ¿د: 4797)
صاحبو! ذرا اپنی اداو ¿ں پر غور کرو ذرا اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھو آخر کیوں ہم میں اتنی سستیاں اور کوتاہیاں ہیں؟ آخر کیوں ہم اپنی اصلاح نہیں کرتے؟ آخر کیوں ہم سے لوگ متنفر ہیں؟ یقیناً یہ چند الفاظ سورج کے سامنے دیاجلانے کی مانند ہے مگر یہ اٹل حقیقت ہے کہ ہمیشہ چھوٹی اشیاءسے ہی گلشن کی آبادی یا بربادی کا آغاز ہوتا ہے۔
خدارا! اب تو اپنے اخلاق عمدہ کر لو آپس میں محبتوں کی لازوال داستانیں قائم کر لو دوریاں ختم کر دو۔ ہمیشہ چہرے پر بارہ بجائے رکھنا مومن کے لیے شایانِ شان نہیں تم دنیا میں اخلاق حسنہ کی صفت سے اپنے آپ کو متصف کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں دنیا وآخرت میں کامیاب و کامران کرے گا۔
No comments:
Post a Comment