Saturday, 14 January 2017

تکبر قرآن و حدیث کے آئینے میں

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

تکبر قرآن و حدیث کے آئینے میں

دین اسلام انسانیت کے لیے مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دین کے ماننے والوں کو ہر طرح کے آداب و اطوار سکھائے ہیں۔ غرض ہر وہ شے جو ایک مسلمان کی زندگی کو قدغن یا عیب دار بنائے اس سے بھی اللہ تعالیٰ نے باخبرکر دیا ہے۔ یہ کام اس لیے کیا تا کہ مسلمان ان تمام فضول عادات و اطوار سے تہی دامن ہو کر دنیا و آخرت میں کامیاب ٹھریں۔ پر سکون زندگی گزاریں ان فضول اور گھٹیا عادات و اطوار میں سے ایک تکبر بھی ہے۔
 تکبر یہ ہے کہ بندہ اپنی ذات کو اپنے ہی نفس میں بڑا جانے۔ اس کی نظر میں دوسرے لوگوں کی حیثیت ، جاہ و جلال اور مرتبہ اس سے کم تر اور حقیر ہوجاتا ہے۔ اس لیے جب وہ چلتا ہے تو گردن اکڑا کر، بیٹھتا ہے جسم پھیلا کر اور بات کرے تو منہ پھاڑ کر۔ باتوں باتوں میں اپنی بڑائی کے قصے بیان کرکے دوسروں کو حقارت کی نگاہوں سے دیکھتا ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبر کی وضاحت ان الفاظ میں کی: ” وہ شخص جنت میں ہر گز داخل نہیں ہوگاجس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر کا شبہ پایا جائے۔ “ تو ایک صحابی فرمانے لگے کہ ”ہر بندہ پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے خوبصورت ہوں اور اچھے جوتے پہنے ( جو اسے دوسروں سے جدا کر دیں)“ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ” اللہ خود بھی حسین ہے اور خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتاہے۔ تکبر تو یہ ہے کہ تو حق کا انکار کردے ( اسے تسلیم نہ کرے ) اور لوگوں کو حقیر جانے۔ “ ( رواہ مسلم ) 
حالانکہ وہ شخص اس بات سے واقف نہیں تکبر تو اللہ کی صفات میں سے ایک صفت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اسماءحسنی میں ایک اسم متکبر بھی آیا۔اس لیے کسی مومن کے لیے شایانِ شان نہیں کہ وہ تکبر کرے۔ کیونکہ تکبر یعنی بڑھائی ، عظمت و جلال تو صرف ایک ذات اقدس کے لیے لائق ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”تکبر میری چادر ہے اور عظمت و بڑائی میرا ازار ۔ پس لوگوں میں سے جو شخص ان دونوں چیزوں میں سے ایک بھی مجھ سے کھینچنے کی کوشش کرے گا( یعنی وہ عادت اپنانے کی کوشش کرے گا) میں اسے جہنم میں داخل کر دوں گا۔“ ( رواہ مسلم ) 
اسی طرح حکیم لقمان رحمتہ اللہ نے اپنے بیٹے کو ان قبیح صفات سے کنارہ کش رہنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا : ” اور تو زمین میں اکڑ کر مت چل بے شک اللہ تعالیٰ ہر متکبر اور فخر کرنے والے سے نفرت کرتا ہے۔ “ (لقمان :18) اسی طرح ہمارا خالق و مالک خود بھی اپنے قرآن میں ہمیں اس قبیح عادت سے بچنے کی نصیحت فرما رہا ہے : ” ( اے میرے بندے ) تو زمین میں اکڑ اور اترا کر مت چل ( کیونکہ) تو نہ زمین پھاڑ سکتا ہے اور نہ ہی ( بڑا عظیم الشان ) ہوکر پہاڑوں کی بلندیوں تک پہنچ سکتا ہے۔
پس اے انسان جب تو نے اپنا مقام و مرتبہ اور عاجزی جان لی تو پھر تکبر کس بات پر کرتا ہے۔تکبر جیسی قبیح عادت مال داروں میں زیادہ پائی جاتی ہے جیسا کہ شاعر کہتا ہے۔
جنہیں چار پیسے کا مقدور ہے یاں
سمجھتے نہیں وہ انساں کو انساں
موافق نہیں جن سے ایام دوراں
 نہیں دیکھ سکتے وہ کسی کو شاداں
نشے میںتکبر کے ہے چور کوئی
حسد کے مرض میں ہے رنجور کوئی
تکبر کرنے والوں کا انجام دنیا میں ذلت کی صورت میں ہوتا ہے اور آخرت میں رسوائی ہے۔ جیسا کہ سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ کر بائیں ہاتھ سے کھانا کھا رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو اپنے دائیں ہاتھ سے کھانا کھا، وہ کہنے لگا اس کی میرے اندر طاقت نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو حقیقتاً اس کی طاقت نہ رکھے۔ راوی حدیث میں فرماتے ہیں اسے تکبر نے اس بات سے روکا تھا اس بددعا کے بعد وہ آدمی کبھی بھی اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے منہ تک لے جانے سے محروم ہو گیا اور کبھی دائیں ہاتھ کو منہ تک نہ لے جا سکا ۔ ( رواہ مسلم ) 
تو اس طرح اس کو دنیا میں ہی تکبر کی سزا مل گئی۔ متکبر شخص جنت میں بھی داخل نہ ہوگا اور روز قیامت اللہ تعالیٰ کی جانب نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا جیسا کہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تین طرح کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات نہیں کرے گا، نہ ہی ان کو ( گناہوں سے ) پاک کرے گا اور ایک روایت میں ہے کہ نہ ہی ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ پہلا وہ بوڑھا شخص جو باوجود بڑھاپے کے فحش کام کا مرتکب ہو، دوسرا جھوٹا بادشاہ اور تیسرا فقیر متکبر( یعنی اس کے پاس مال تو ہے نہیں کہ جس کی وجہ سے تکبر کرے لیکن پھر بھی وہ متکبر بنا پھرتاہے) (رواہ مسلم ) 
تو اس حدیث سے معلوم ہوا کہ متکبر شخص کا انجام کتنا برا ہوگا۔ اسی طرح ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو روح جسم سے جدا ہوئی اور وہ تین چیزوں سے بری تھی۔ تو وہ جنت میں داخل ہوگی۔ 
(۱) تکبر (۲) خیانت (۳) قرض
تو اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ تکبر بڑا ہی قبیح عمل ہے۔ متکبر شخص دنیا میںبھی ذلیل و رسوا ہوں گے اور قیامت کے دن جنت سے بھی محروم ہوں گے۔ اس کے برعکس جن میں تکبر کے ساتھ ساتھ تمام بری عادات نہیں پائی جائیںگی وہ خوش نصیب ہیں ۔ ان کے لیے دنیا میں بھی فلاح و کامیابی اور آخرت میں بھی جنت جیسی عظیم نعمت ہے۔
اس لیے ہمیں آج ہی اپنے راستے کا تعین کرنا ہے۔ اس سے پہلے کہ کہیں دیر ہوجائے ۔ ہمیں دیکھنا ہے کہ ہم اچھے اعمال کرکے اللہ سے جنت کا سودا کر رہے ہیں یا برے اعمال کرکے جہنم کی راہوں کو ہموار کر رہے ہیں۔ 
قارئین محترم! ہمیشہ عظمت و جلالت ان کے حصول میں آتی ہے جو عاجزی و انکساری کا اظہار کرتے ہیں اور تکبر سے اپنے دامن کو ترنہیں کرتے۔ اس عظیم کیفیت کو شاعر کتنے ہی عمدہ طریقے سے اپنے اشعار کی لڑی میں پرو رہا ہے۔
اکڑے ہوئے سر سے تکبر کا اظہار ہوتا ہے
ادب سے جھکا ہوا سر ہی باوقار ہوتا ہے
کسی پھلدار پیڑ کا نظارہ تو بھی کرلینا
جھکا ہوتا ہے وہی شجر جو پھلدار ہوتا ہے
تحریر : حبیب اللہ
رابطہ:8939478@gmail.com

No comments:

Post a Comment