Saturday 14 January 2017

یہ کیسی محبت ہے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


یہ کیسی محبت ہے؟

محبت کئی طرح سے ہوتی ہے۔ محبوب کے چناﺅ میں ہر محب کا انداز جدا ہوتا ہے۔ کوئی کسی کی صورت سے محبت کرتا ہے ۔ تو کسی کو دوسرے کی سیرت سے محبت ہوجاتی ہے۔ کوئی اپنے محبوب کے کردار پر فدا ہوتا ہے تو کوئی اس کے گفتار پر جان دیتا ہے۔ لیکن کائنات میں ایک ایسی ہستی کا بھی گزر ہوا ہے۔ جس کی صورت و سیرت،کردار و گفتار، معاملات و معمولات غرض ان کی زندگی کا ہر لمحہ محبت و اطاعت کے لائق ہے۔ وہ ایک ہستی ہے۔ جن کا اسم گرامی جناب محمد ﷺ ہے۔ آپ سے محبت جزوِ ایمان ہے۔ اس کے بغیر کوئی بھی حقیقی مسلمان نہیں بن سکتا۔ جیسا کہ شاعر کہتا ہے۔
 محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے 
اس میں ہے اگر خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے
اسی لئے تو سیدنا انس ؓ فرماتے ہیں کہ جناب محمد ﷺ نے فرمایا: ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ تم میں سے کوئی بھی شخص اس وقت تک مومن نہیں بن سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کی اولاد، والدین اور ساری کائنات سے بڑھ کر محبوب نہ بن جاﺅں۔ ( بخاری:15)
واقعی وہ ہستی اس قابل ہے کہ اس سے سب سے بڑھ کر محبت کی جائے۔ آپ ﷺ کی حقیقی محب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ سے کس قدر محبت کرتے تھے۔ کتب تاریخ میں ان کا انداز محبت کچھ اس طرح ملتا ہے۔ چند انصاری صحابہ فرماتے ہیں جب ہمیں نبی اکرم ﷺ کی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کا علم ہوا اور ہمارے پاس آپ کی آمد کی خبر پہنچی۔ ہم روزانہ گھروں سے صبح سویرے نکل آتے اور محبوب الٰہی کا انتظار کرتے تھے۔ ان دنوں گرمیوں کا موسم تھا۔ پھر جب شدید گرمی پڑنی شروع ہوجاتی تو ہم گھروں میں واپس چلے جاتے۔ کچھ دن ہم ایسا ہی کرتے رہے۔ ایک دن ہم آپ ﷺ کی آمد کے انتظار میں بیٹھے تھے مگر آپ نہ پہنچے۔ گرمی شدید ہونے پر ہم گھروں کی طرف لوٹ آئے۔ لیکن خوش قسمتی کا دن آپہنچا تھا۔ ہمارے جانے کے بعد رسول اللہ ﷺ بھی آ پہنچے۔ پہلا آدمی جس نے آپ کو دیکھا وہ ایک یہودی تھا۔ وہ کسی کام سے گھر سے نکلا اور ٹیلے پر چڑھا تو اچانک اس کی نظر چند لوگوں پر پڑی۔ وہ کیا دیکھتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے رفقاءسفید لباس میں ملبوس تشریف لا رہے ہیں۔ اس نے بے خود ہو کر بلند آواز سے کہا:”عرب کے لوگو ! وہ رہا تمہارا نصیب جس کا تمہیں انتظار تھا۔“ یہ سنتے ہی مسلمان ہتھیاروں سے سج دھج کر استقبال کے لیے دوڑے۔ چھوٹی بچیاں خوشی سے گیت گانے لگیں کہ ہم پر بدر کا چاند طلوع ہو رہا ھے۔ پھر اس کے بعد کیا ہوا؟ تاریخ کے سنہری اوراق چمک دمک رہے ھیں۔ پھر آپ کے اصحاب نے آپ کے ساتھ مل کر ایسے معاشرے کو تشکیل دیا کہ قیامت تک جس کی مثالیں دیکھنے کو نہ ملیں گی۔ یہ سب محبت کے ساتھ اطاعت نبوی ﷺ کا نتیجہ تھا۔ یہ بھی اندازِ محبت تھا۔
آج بھی ربیع الاول کے آغاز سے ہی لوگ سڑکوں، گلی کوچوں، چوراہوں، بازاروں اور پوری پوری عمارتوں حتیٰ کہ مساجد پر بھی چراغاں کر کے آپﷺ سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ ساری خوشیاں ولادتِ نبویﷺ کی وجہ سے منائی جاتی ہیں۔ اس ماہ میں پاک و ہند کے مسلمانوں کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ یہاں کے مسلمان آرائش و زیبائش اور چراغاں پر کروڑوں روپے چند دنوں میں خرچ کر دیتے ہیں۔
لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ہماری محبتیں اپنے نبیﷺ سے کس قدر ہے؟ کیا میلاد النبیﷺ منا لینا ہی محبت کے لیے کافی ہے؟ یا اس محبت کے اور بھی تقاضے ہیں۔
قرآن کریم میں محبت کے بارے میں یہ اصول ذکر ہوا ہے کہ ”اگر تم اللہ کے پسندیدہ بننا چاہتے ہو تو میری اطاعت کرو اللہ تمہیں اپنا محبوب بنالے گا۔“ (آل عمران:32 ) مراد یہ ہے کہ نبیﷺ کی اطاعت ہی حقیقی محبت ہے۔
آج ہم دیکھ لیں دعویٰ تو ہمارا یہ ھے کہ ہم سب سے بڑھ کر آپﷺ سے محبت کر تے ہیں لیکن ہماری سیرت و صورت غیروں جیسی ہے۔ ہم نے گفتار و کردار غیروں کا اپنا لیا ہے۔ ہم معاملات اور رہن سہن میں حتی الوسع مغربی معاشرے کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا:” اللہ کے رنگ(یعنی دین) سے بڑھ کر بھی کسی کا رنگ اچھا ہو سکتا ہے۔“ ( البقرة:138)
ہم اپنے سارے سال کے معاملات پر نظر دوڑائیں کہ کس قدر حبّ النبیﷺ جھلکتی نظر آتی ہے؟ حالانکہ اللہ نے قرآن میں بار بار اپنے نبی کی اطاعت کرنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ نے تو یہاں تک بھی فرما دیا کہ :” تمہیں جو کچھ رسول اللہ ﷺ دے دیں اسے مضبوطی سے تھام لو اور جس چیز سے منع کردیں اس سے رک جاو¿۔“(الحشر:7 )
ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں ان احکامات پر عمل کرتے ہیں۔ ہمارے دینی معاملات ہوں یا دنیاوی کس قدر اپنے نبی مکرمﷺ کی سیرت سے مشابہہ ہیں۔ کہیں ہم خالی محبت کا دعویٰ تو نہیں کرتے۔ عربی شاعر کہتا ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ تو رسول ﷺ سے محبت کا اظہار کرتا ہے۔ حالانکہ حقیقت میں اس کی نافرمانی کرتا ہے۔ یہ تو عجیب معاملہ ہے۔ اگر تو اس محبت میں سچا ہوتا تو ضرور اس کی اطاعت کرتا۔ کیونکہ محبت کرنے والا اپنے محبوب کا فرما نبردار ہوتا ہے۔
آج سوچنا یہ ھے کہ ہم اپنی محبت کو اطاعت نبویﷺ کا زیور پہنا کر سچے ثابت ہوئے ہیں یا کہ خالی محبت کے دعوو¿ں پر ہی کام چلا رہے ہیں۔ 
تحریر: حبیب اللہ
رابطہ:8939478@gmail.com

No comments:

Post a Comment