Thursday 26 January 2017

خواہش پرستی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

خواہش پرستی

اللہ تعالیٰ نے انسانیت کو پیدا کرنے کے بعد دونوں راستے دکھلا دیئے۔کہ یہ ہدایت کا راستہ ہے جس پر چل کر کامیابی و کامرانی انسان کا مقدر بن سکتی ہےاور یہ گمراہی کا راستہ ہے جس کی انتہا تباہی و بربادی اورذلت کی صورت میں ہوگی۔اب جو انسان جس راہ پر چلے گا وہی اس کے لیے آسان ہوجائے گا۔اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو اختیار بھی دیا ہے کہ اپنی خوشی سے جس راہ پر چلنا چاہتا ہے چلتا رہے مگردونوں کے انجام کو ذہن نشین رکھے۔
کہیں یہ نہ ہو کہ انسان اس دنیا میں انجام سے غافل رہے اور قیامت والےدن یہ کہنے لگے کہ میرے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا،بلکہ یہ حجت بھی اللہ نے دنیا میں انبیاء اور ان کے ساتھ شریعت(قرآن وحدیث) بھیج
کر کے پوری کردی۔انسان کو گمراہی کے راستے پر گامزن کرنے میں جو چار امور سرفہرست ہیں انہیں عربی شاعر نے کچھ ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
إبليسُ والدُّنْيا ونَفْسِي والهَوَى * * * كَيْفَ الخَلاصُ وكُلُّهم أَعْدَائِي ؟
’’کہ ابلیس،دنیا،میرا نفس اوربری خواہش سب ہی میرےدشمن ہیں،میں ان سے کیسے نجات پاؤں؟‘‘
تو انسان کی خواہش انسان کو تباہی و بربادی کے راستے پر گامزن کر دیتی ہے۔جو انسان اپنی خواہش کی تکمیل میں لگ جاتا ہے تو اس کا نتیجہ بہت برا نکلتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے اندر کچھ اس انداز سے خواہش پرست لوگوں کی مذمت بیان کرتے ہوئے نظر آتا ہے۔ 
أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً فَمَنْ يَهْدِيهِ مِنْ بَعْدِ اللَّهِ أَفَلا تَذَكَّرُونَ(الجاثية:23)
’’پس کیا تونے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا الٰہ بنا لیا ہے،اور جاننے کے باوجود بھی گمراہی کے راستے پر گامزن ہو چکا ہے،اس لیے اللہ نے بھی اس کے کانوں اور دل پر مہر لگا دی ہے اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے۔تو بھلا اس شخص کو اللہ کے علاوہ کون ہدایت دے سکتا ہے کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے۔‘‘
یعنی جو شخص خواہش سیئہ کی تکمیل میں مگن ہوجا تا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے سیدھی راہ سے ہٹا کرکے گمراہی کے راستے پر گامزن کردیتا ہے کیونکہ کہ اس نے اپنے لیے وہی پسند کیا ہوتا ہے۔اگرچہ ظاہراً ان کے کان،دل اور آنکھوں موجود ہوتی ہیں لیکن حقیقت میں وہ اس بصیرت و بصارت سے محروم ہوجاتے ہیں جو ہدایت قبول کرنے میں معاون ثابت ہے۔اب کوئی شخص یہ گمان نہ کرے کہ اسے تو اللہ نے گمراہ کیا ہے اس کا اپنا قصور تو نہیں تو عرض ہے کہ اللہ نے ہر کام کی حد مقرر کی ہے۔ جس طرح دنیاوی امور میں مختلف چانس ہوتے ہیں ان کے ختم ہونے کی صورت میں انسان پر وہ حکم لگ جاتا ہے جو مقرر شدہ ہوتا ہے۔بعینہہ اللہ تعالیٰ انسان کو ایک نہیں بلکہ کئی مواقع دیتا ہے کہ یہ میرے غضب سے بچ جائے مگر جب انسان خود ہی گمراہی کو پسند کرلے تو پھر بھی وہ کریم رب اس کو فوراً پکڑنے کے بجائے اسے ڈھیل دے دیتا ہے۔جب وہ اس ڈھیل میں بھی نہیں پلٹتا تو پھر اس کے مقدر میں آخرت کی ذلت لکھ دی جاتی ہے۔دنیا کہ اندر انسانوں کی اکثریت قرآن و حدیث کو جس وجہ سے پس پشت ڈالتے ہیں ان میں سب سے اہم خواہش نفس کی پیروی کرنا ہے۔اس کا ثبوت بھی قرآن میں کچھ ان الفاظ کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے: 
فَإِنْ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ فَاعْلَمْ أَنَّما يَتَّبِعُونَ أَهْواءَهُمْ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ(القصص:50)
’’کہ اے نبی ﷺ !اگر یہ تیری بات کو قبول نہ کریں تو پھر تُوں جان لے کہ یہ اپنی خواہش کے پیچھے لگ چکے ہیں،توا س شخص سے بڑھ کر بڑا ظالم کون ہوسکتا ہے جو بغیر اللہ کے حکم دِیے اپنی خواہش کی پیروی میں مگن ہوجائے۔تواللہ تعالیٰ بھی ظالم قوم کو ہدایت سے بہرہ ور نہیں کرتا۔‘‘ اور جو شخص خواہشات کی پیروی کرتے ہوئے اس جہان فانی سے رخصت ہو گیا تو اس کا انجام خطرناک ہے جیسا کہ فرمان رسولﷺ ہے:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «حُفَّتِ الْجَنَّةُ بِالْمَكَارِهِ، وَحُفَّتِ النَّارُ بِالشَّهَوَاتِ»(صحیح مسلم:2822)’’
کہ جنت کےاردگرد نفس کو مشکل لگنے والے امور جبکہ جہنم کے اردگردخواہشات رکھ دی گئی ہیں ۔‘‘اب جوجن امور پر عمل کرے گا ادھر ہی داخل ہوگا خواہش پرستی کے انہی مضر نتائج کی وجہ سے جناب محمد رسول اللہﷺ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کثرت سے کیا کرتے تھے:
قال قطبة بن مالك- رضي الله عنه-:كان النّبيّ صلّى الله عليه وسلّم، يقول: «اللَّهُمَّ إِنِّى أَعُوذُ بِكَ مِنْ مُنْكَرَاتِ الأَخْلاَقِ وَالأَعْمَالِ وَالأَهْوَاءِ( الترمذي:3591)
’’کہ اے اللہ مجھے برے اخلاق،برے اعمال اور بری خواہشات سے محفوظ رکھ۔‘‘کیونکہ آپ ﷺ کو اس کے انجام کی اچھی طرح خبر تھی اس لیے تو آپ نے اپنی امت کو بھی اس سے ڈرایااور خبر دار کرتے ہوئے فرمایا کہ:
عن أبي برزة الأسلميّ- رضي الله عنه- أنّه قال: قال رسول الله صلّى الله عليه وسلّم: «إِنَّ مِمَّا أَخْشَى عَلَيْكُمْ شَهَوَاتِ الْغَيِّ فِي بُطُونِكُمْ وَفُرُوجِكُمْ وَمُضِلَّاتِ الْفِتَنِ( أحمد (4/ 042- 423)
’’کہ بے شک مجھے تمہارے بارے میں جن چیزوں (میں مبتلا ہونے )سے زیادہ ڈرتا ہوں سخت گمراہ کردینے والی تمہاے پیٹ اور شرم گاہ کی خواہش ہے اور گمراہ کردینے والے فتنے ہیں۔‘‘اس لیے آپ ﷺ بذات خود نبی ﷺ ہونے کے باوجود اللہ سے خواہش سیئہ کی پیروی سے بچنے کےلیے دعا کرتے رہتے تھے۔اپنی امت کو بھی اس کے برے انجام سے برابر خبر دار کرتے رہتے تھے۔اور کہیں ان الفاظ میں اتباع نفس کی ہلاکتوں کا تذکرہ کرکے ان سے بچنے کا حکم دیا:
عن أنس بن مالك- رضي الله عنه- قال: قال رسول الله صلّى الله عليه وسلّم:ثلاثٌ مُهْلِكاتٌ هَوًى مُتَّبِعٌ وَشُحٌّ مُطاعٌ واعْجابُ المَرءِ بِنَفْسِهِ (ذكره الشيخ الألباني في الصحيحة (4/ 412) برقم (1802)
’’کہ تین چیزیں انسان کو ہلاک کرنے والی ہیں خواہش سیئہ کے پیچھے لگنا،(اللہ کی راہ میں)خرچ کرنے سے روکنے والی کنجوسی اور انسان کا اپنی ذات پر تکبر کرنا۔‘‘اس لیے ہمیں حتیٰ الوسع ان کاموں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کیونکہ جوان امور سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں انہیں دنیاوی واخروی فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی ان لوگوں کے لیے جنت میں عمدہ ٹھکانہ تیار کررکھا ہے جو خواہش سیئہ کی پیروی سے بچ کر زندگی بسر کرتے ہیں۔کوئی بھی کام کرنے سے پہلے پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں۔کہ کہیں ہمارا خالق ومالک ہم سے ناراض نہ ہوجائے۔تو جو شخص بھی اس دنیا میں کل قیامت والے دن اللہ کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اوراپنے آپ کو اتباع نفس سے بچاتا رہا تو اس کا ٹھکانہ جنت ہوگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے اندر اپنے بندوں کو اس بات کا مژدہ کچھ اس انداز میں سناتا ہے:
 وأمّا مَنْ خَافَ مَقامَ ربّهِ ونَهَى النَّفسَ عنِ الهَوى *فإنَّ الجَنّةَ هِيَ المأوى )) [النّازعات: 40-41
’’اور جو شخص اپنے رب کے سامنے سے پیش ہونے سے ڈرکر اپنے آپ کو اتباع نفس سے بچاتا رہا تو اس کا ٹھکانہ جنت ہوگا۔‘‘
ہمارے اسلاف بھی ان امور سے بہت ڈرتے تھے جیسا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے آپ نے فرمایا:’’
قال عليّ- رضي الله عنه-: «إنّ أخوف ما أتخوّف عليكم اثنتان: طول الأمل واتّباع الهوى. فأمّا طول الأمل فينسي الآخرة، وأمّا اتّباع الهوى فيصدّ عن الحقّ.(فضائل الصحابة، للإمام أحمد (1/ 530) رقم (881)
’’بے شک میں تم سے جن چیزوں کے بارے میں زیادہ ڈرتا ہوں وہ دو ہیں پہلی لمبی لمبی امیدیں باندھنا اور دوسری خواہش سیئہ کی پیروی ہے۔جو شخص لمبی لمبی امیدیں باند ھ لیتا ہے وہ آخرت کو بھول جاتا ہے اور جو خواہش کی پیروی میں مگن ہوجاتاہے تو حق کا انکاری بن جاتا ہے۔‘‘
آج لوگوں کی اکثریت دنیا کے پیچھے پڑ کر اللہ ،آخرت اور اپنے انجام کو بھول چکی ہے اس کی اہم وجہ یہی دو امور ہیں۔اس لیے ہمیں ناصرف ان سے بچنا چاہیے بلکہ لوگوں کو بھی نصیحت کرتے رہنا چاہیے۔اس کے ساتھ ساتھ جو خواہش پرست ہیں ان سے زیادہ میل جول بھی نہیں رکھنا چاہیے بلکہ صرف نصیحت کی غرض سے ان کے پاس جانا چاہیے۔کوشش کرنی چاہیے کہ ان سے کم سے کم واسطہ پڑے۔کیونکہ ان سے میل جول رکھنے سے انسان کا اپنا ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے جیسا کہ امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قال إبراهيم النّخعيّ- رحمه الله تعالى-: «لا تجالسوا أهل الأهواء، فإنّ مجالستهم تذهب بنور الإيمان من القلوب، وتسلب محاسن الوجوه، وتورث البغضة في قلوب المؤمنين(الإبانة لابن بطة بواسطة رسالة الهوى وأثره في الخلاف لعبد الله بن محمد الغنيمان (9)
’’تم خواہش پرستوں کے ساتھ مت بیٹھو کیونکہ ان کے ساتھ بیٹھنے سے ایمان کا نوردل سے چلا جاتا ہےاورچہرے کی رونق ماندپڑجاتی ہے اور مومنوں کے دل میں بغض وعدوات کی بیماری جنم لیتی ہے۔اس لیے تو امام مالک فرمایا کرتے تھے:
قال مالك- رحمه الله تعالى-: بئس القوم هؤلاء، أهل الأهواء، لا نسلّم عليهم( شرح السنة (1/ 229)
’’خواہش پرست بہت برے لوگ ہیں ،ہم ان سے سلام بھی نہیں کرتے۔‘‘کیونکہ ان کی شر سے مومن محفوظ نہیں رہ سکتا۔اس لیے ان سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔خلاصہ کلام یہی ہے کہ خواہش پرستی بہت براعمل ہےاور خواہش پرست لوگوں کا انجام بہت برا ہوگا ۔اس لیے ہمیں ان امور سے اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال کو بچانا ہوگا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے پر چل کرامت کی اصلاح کی کوشش کرنا ہوگا۔اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

تحریر:حبیب اللہ  خادم جامعۃ الدراسات الاسلامیہ کراچی
رابطہ:8939478@gmail.com

No comments:

Post a Comment