Wednesday 18 January 2017

غاصب کا انجام

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

غاصب کا انجام

آج وہ بڑا ہی خوش تھا کیونکہ اس نے آج کے دن کے لیے پوری زندگی محنت کی تھی۔دن رات ایک کردیا تھا تاکہ اس کا نتیجہ کامیابی کی صورت میں نکلے۔مگراس کے برعکس اس کی نگاہیں ایسے بدنصیبوں پر بھی پڑ رہی تھیں ،جنہوں نے اس دن کو فراموش کیے رکھا تھا۔وہ بہت ہی غمناک اورالم ناک کیفیت سے دوچارتھے۔وہ چاہنے کے باوجود بھی مرناپارہے تھے۔بلکہ وہ جس قدرموت کی طرف دوڑتے موت ان سے اس قدر دورجاچکی تھی۔ان کی حالت نہایت ہی دگرگوں اورپریشان کن تھی۔آج وہ ایسی تکلیف میں مبتلا تھے کہ جس کے بیان کے لیے ان کے پاس الفاظ تک نہ تھے۔بلکہ ایک کیفیت ہی تھی جسے صرف دیکھ کر محسوس ہی کیا جاسکتا تھا۔
اس لیے تویہ بڑا ہی خوش لگ رہا تھا ۔کیونکہ اس دن کی کامیابی اس کے لیے ہمیشہ کی کامیابی تھی۔اس نتیجے کا اسے شدت سے اوربرسوں سے انتظار تھا،تاکہ وہ اپنی کمائی کے بدلے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرسکے ۔اگرچہ ابھی تک نتیجہ نہیں نکلا تھا مگراسے اپنی محنت اورکاوشوں پراس قدر یقین تھا جس قدریہ کامیابی کی امید لگائے بیٹھا تھا۔ ابھی تھوڑی دیر میں اس کا نتیجہ جنت کی صورت میں نکلنے والا تھا ۔یہ محشر کادن تھا،جس کے بارے میں اس کے مالک اللہ نے بارباراسے تیاری کا حکم دیا تھا۔اس لیے اس نے اس دن کی بھرپور تیاری کی تھی۔اس نے ساری زندگی بہت زیادہ نمازیں پڑھیں اوربہت ہی زیادہ سجدے کیے،حتیٰ کہ سجدوں کے نشان سے اس کی پیشانی سیاہ ہوچکی تھی۔ناصرف فرضی نمازیں بلکہ نفلی عبادات میں بھی اس کا کوئی ثانی نہ تھا۔اسی طرح یہ روزوں کا بھی پابند تھا۔
رمضان کا مہینہ آتے ہی یہ کمر کس لیا کرتا تھااورروزے رکھا کرتا تھا۔ناصرف خود روزے رکھتا تھا بلکہ دوسروں کوافطاریاں کروانا بھی اس کامعمول تھا۔حتیٰ اس میں بھی اس کا کوئی ثانی نظرنا آنا محال تھا۔اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اسے مال سے بھی نوازاتھا۔اپنے مال سے لوگوں کے دل جیتنا بھی اس کا معمول تھا ،یہ اپنے مال کو اللہ کے راستے خرچ کیا کرتا تھا۔ جب بھی اسے موقع ملتا یا کوئی سائل آتا اور اس سے اللہ کے نام پرسوال کرتا تو یہ اسے مال سے نوازتا تھا۔غریبوں کا اس کے درپر تانتا بندھا رہتا تھا۔اسی طرح کئی ایک رفاہی منصوبے بھی اس کے مال سے چل رہے تھے جس سے کئی غرباء مستفید ہوتے تھے۔جس کی وجہ سے اس کے درجات اوربلند ہوجاتے تھے۔حتیٰ کہ لوگوں میں اس کی نیک نامی کے چرچے ہوتے تھے۔ اس کے نیک کا موں کی ایک لمبی لسٹ تھی کہ جو کہ اس کو خوش کیئے ہوئے تھی۔مگرایک خامی اس میں تھی کہ اس سے کسی کوتکلیف پہنچ جاتی تو یہ اسے کچھ وقعت نہ دیتا تھا اورنہ اس کی اس سے معافی مانگتا تھا۔البتہ ان امور کو اس نے چھوٹا سمجھ کرفراموش کردیا تھا۔

سباری باری لوگ حساب کتاب سے فارغ ہوکر اپنی اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھے۔کسی کا چہرہ چمک دمک رہا تھا،تو کوئی اپنا سیاہ چہرہ جھکائے ہوئے تھا۔اب اس کی باری بھی آنے والی تھی۔کچھ ہی دیر میں اس کی باری آگئی اورساری انسانیت کے سامنے اس کا نام پکارا گیا کہ فلاں بن فلاں حاضر ہو۔یہ خوشی سے سامنے آکھڑا ہوا۔کیونکہ ساری زندگی کا نتیجہ جو حاصل کرنا تھا۔جب اس کا اعمال نامہ کھولا گیا تو نیکیوں کے لمبے لمبے رجسٹر بھرے ہوئے تھے۔کیونکہ اس نے دنیامیں کئی نمازیں پڑھیں، سجدے کیے،اللہ کے سامنے جھکارہا۔مال سے زکوۃ دیتا رہا اوراسے اللہ کی راہ میں خرچ کرتا رہا۔اسی طرح اللہ کے لیے اس نے روزے رکھ کر اپنی آپ کو تھکا دیاتھا۔عنقریب اس کاجنت میں داخلے کا فیصلہ ہواچاہتا تھا۔اس کا نام سنتے اوراس کو حساب کتاب کے کٹہرے کھڑا دیکھتے ہی لوگوں کی ایک بڑی جماعت آن پہنچی۔حساب کتاب جاری تھا اس کی نیکیوں کا ترازونیچے جھک چکا تھا۔یہ بڑا ہی خوش کن لمحہ تھا۔مگراچانک اس آنے والے گروہ میں ایک شخص کی آوازابھری:’’مجھے اس سے بدلہ لینا ہے‘‘اللہ تعالیٰ تعالیٰ جو کہ رحیم وکریم اورسب کچھ جاننے والا ہے مگرانسانیت کو بتلا نے کے لیے اس سے پوچھا :’’کس چیز کا بدلہ؟‘‘تواس شخص نے کہا :’’اس نے فلاں دن فلاں جگہ پر مجھ پر تہمت لگائی تھی اورمجھے لوگوں میں ذلیل ورسواکردیا تھا،اس لیے مجھے اس سے بدلہ چاہیے۔‘‘ارشاد باری تعالیٰ ہوا:ــ’’اس کی نیکیوں سے اس متہم شخص کو نیکیا دے کرحساب کتاب برابر کردو۔‘‘ایسا ہی کیا گیا ابھی متہم فارغ ہوا ہی تھا کہ دوسری جانب سے آواز ابھری:’’ مجھے بھی بدلہ چاہیے اس نے مجھ ے فلاں دن فلاں جگہ پرگالیاں نکالی تھیں۔‘‘ارشاد باری تعالیٰ ہوا :’’اسے بھی اس کی نیکیوں سے  گالیوں کے گناہ کے برابرنیکیاں دے دو۔‘‘ابھی اس سے فارغ ہورہے تھے کہ کسی اور کی طرف سے آواز ابھری۔اس نے میرامال کھایاتھا، اس نے میراخون بہایا تھا،اس نے مجھے بے قصورماراتھا۔غرض مطالبات کرنے والوں کی لمبی لائن لگ گئی ۔یہ وہی لوگ تھے کہ دنیا میں اس نیک شخص کے ہاتھوں انہیں چھوٹی چھوٹی تکالیف ناحق پہنچی تھیںمگراس نیک شخص نے ان چھوٹے امور کو کوئی اہمیت نہ دی تھی۔آج وہ سب اکھٹے ہوکر اللہ کے دربا ر میں بدلہ لینے آچکے تھے۔دنیامیں تو اس نے ان کودبا کے رکھا ہواتھا مگرآج اس کے تمام اختیارات ختم ہوچکے تھے۔حق داروں کو اس کی نیکیوں سے ظلم کے برابر بدلہ دیا جارہا تھا۔کچھ ہی دیر میں وہ نیکیوں کا ڈھیر جس کی وجہ سے یہ جنت کی امید لگائے بیٹھا تھا،ختم ہونے والا تھا۔ مگراس کے ہاتھوں سے ایذاء پانے والے لوگوں کی لمبی قطار باقی تھی۔نیکیاں ختم ہونے پرحق داروں نے اپنے حقوق کا سوال کیا۔توعادل مالک الملک اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ان کے گناہوں کا بوجھ اس شخص پر ڈالنا شروع کردو، دیکھتے ہی دیکھتے اس کے اعمال نامہ سے نیکیاں ختم اور گناہوں کے پہاڑ جمع ہوچکے تھے۔اب صاف ظاہر تھا کہ گناہ گاروں کا انجام جہنم کی آگ تھااوراسے جہنم میں ڈال دیا گیا۔(صحیح مسلم:2581)
محترم قارئین!اس لیے اس دنیا کے اندر جوامراء اپنے ماتحتوں ،نوکروں ،خادموں کے حقوق ادانہیں کرتے یا جو بادشاہ اورلوگ اپنی رعایا پر ٹیکسز کی صورت میں ناحق طریقے سے مال غصب کرتے ہیں یادوسرے چورراستوں سے مال غصب کرتے ہیں۔یاان پرظلم وستم کے پہاڑڈھاتے ہیں یا اپنے پروٹوکول میں بے گناہوں ،مریضوں کا خون کرتے ہیں ۔یابات بات پر اپنے سے کم تر یابرتر کوگالیاں نکالتے ہیں ، کسی پر تہمتیں لگاکر ان کو بدنام کرتے ہیں۔ان کو اپنے انجام کا خیال رکھنا چاہیے ۔بیان کردہ حدیث میں تواس شخص کاانجام ہے جو بہت ہی پکا نمازی ،روزے داراورمال خرچ کرنے والا تھا مگرہماراتودامن خالی ہے ،لہٰذاہماراانجام کیا ہوگا۔کوئی یہی سوچ لے تووہ اپنی راہ متعین کرسکتا ہے۔اللہ ہمیں قلب سلیم عطا کرے جواس طرح کی باتوں پرغوروفکر کرکے اپنا انجام درست کرلے۔آمین

تحریر:حبیب اللہ
ای میل:8939478@gmail.com
پتہ:جامعہ الدراسات الاسلامیہ کراچی

No comments:

Post a Comment