بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مستقل مزاجی
اگر پتھر کے جگر پر پانی کا ایک قطرہ مستقل گرتا رہے،توایک دن آتا ہے کہ وہاں پر گڑھا بن جاتا ہے۔اسی طرح پانی کے قطرات مستقل گرتے رہیں تو تالاب ،دریا اورسمندروجود میں آتے ہیں۔اسی طرح مٹی کا گردوغبار مستقل اڑ،اڑ کر کسی جگہ گرتا رہے تو وہاں ایک دن پہاڑ بن جاتے ہیں۔غرض یہ کہ کسی کی مستقل مزاجی اسے اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب بنا دیتی ہے۔انسان بعض اوقات کچھ اہداف کو حقیر گردانتا ہے مگر ان کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔
اگر وہ ان کے حصول میں کامیاب ہوجائے تو یہی اس کی زندگی میں انقلاب برپا کردیتے ہیں۔اسی طرح بعض اوقات کسی کام میں مگن ہوتا ہے مگرآخری لمحات اس پر اس قدر پرمشقت ثابت ہوتے ہیں کہ اس کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں اوروہ اپنے ہدف سے ہٹ جاتا ہے۔حالانکہ یہی وقت اس کی کامیابی کا ہوتا ہے،مگر وہ ہمت ہار بیٹھتا ہے۔اس لیے انسان کو مستقل مزاجی کاوصف اپنانا چاہیے۔ اسلاف کی طرف نظر دوڑائی جائے تو وہ اس کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں جیسا کہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ اپنی کتاب الجامع لأخلاق الراوی میں رقمطراز ہیں کہ فضل بن سعید رحمہ اللہ نے کہا :کہ’’ ایک آدمی کو علم حاصل کرنے کا شوق تھا،لیکن وہ اس میدان میں کامیاب نہیں ہورہا تھا۔چنانچہ اس نے تہیہ کیا کہ آئندہ سے وہ علم سے ناطہ توڑ لے گا،علم حاصل نہیں کرے گا۔ایک دن انہی خیالات میں مگن وہ راستے سے گزر رہاتھا جہاں قریب ہی ایک پہاڑ تھا۔اس پہاڑ سے مستقل پانی ایک چٹان پر گررہا تھا۔وہ اس منظر کا نظارہ کرنے لگا۔اس نے دیکھا کہ اس پہاڑ سے گرنے والے پانی کی مستقل مزاجی نے سخت قسم کی چٹان میں سوراخ کردیا ہے۔ حالانکہ پانی بہت ہی لطیف شے ہے۔اس کے ذہن نے اچانک پلٹا کھایا اوراس کے خیالات کے دریچوں نے اسے یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ پانی اپنی لطافت کے باوجود مسلسل بہہ کراگر ایک سخت چٹان میں سوراخ کرسکتا ہے تو میں کیوں مستقل مزاجی سے علم نہیں سیکھ سکتا۔یہ سوچ کر وہ ایک دفعہ پھر سے علم کے حصول میں مگن ہوگیا اورآخر وہ دن آیا کہ اس کے پاس علم کا بہت بڑاذخیرہ جمع ہوگیا۔‘‘ یہ تو تھے امت کے اسلاف آئیے اب ادھر دیکھیے۔انسانیت کی سب سے بڑی مشفق و مہربان ہستی کی زندگی کی طرف نگاہ دوڑائیے تو وہ ہستی بھی اس وصف سے موصوف نظر آئے گی۔
جناب محمدﷺ کی مکمل زندگی اسی کا عملی نمونہ تھی۔آپ جب بھی کسی نیکی کی ابتداء کرتے تو اس پر دوام اختیار کرتے اوراسی کی طرف اپنے ساتھیوں کی رہنمائی فرمایا کرتے تھے۔سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے آپ نے فرمایا :’’کہ اے عبداللہ! تو فلاں شخص کی مانند مت ہوجانا جو پہلے قیام اللیل کیا کرتا تھا پھر چھوڑ دیا‘‘(صحیح البخاری) تو یہاں جناب محمد ﷺ اپنے ساتھی کی اسی بات کی طرف رہنمائی کرتے نظر آتے ہیں کہ تم مستقل مزاجی اختیار کرو ۔‘‘اسی طرح آپ کے فرامین سے یہ رہنمائی بھی ملتی ہے کہ عبادت کم کی جائے مگر مستقل مزاجی سے کی جائے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’درمیانی چال اختیار کرواوربلندپروازی نہ کرواورعمل کرتے رہو۔حقیقتاً تم میں سے صرف کسی کاعمل اسے جنت میں نہیں لے جاسکتا(الایہ کہ اس کے ساتھ رحمت خداوندی مل جائے تووہ جنت لے جائے گا)اورمیرے نزدیک پسندیدہ عمل وہ ہے کہ جس پر دوام کیا جائے اگرچہ کم ہی کیوں نہ ہو۔‘‘(صحیح البخاری:6464)
اگر تاریخ امم پر نگاہ ڈالی جائے تو اس سے بھی یہی رہنمائی ملتی ہے کہ مستقل مزاجی اوراپنے ہدف میں جت جانے والے ہمیشہ کامیاب وکامران رہے ہیں۔ اس وصف سے جو موصوف ہوجاتے ہیں تو اس کے سامنے مشکل سے مشکل اہداف بھی ہیچ ثابت ہوتے ہیں اور وہ اپنے مقاصد کے حصول میں اکثر کامیاب ہوجاتے ہیں۔اس لیے ہمیں اس وصف سے موصوف ہونا ہوگا تاکہ کامیابی وکامرانی ہمارے قدم چومے اورہم اپنے اہداف کے حصول میں کامیاب و کامران ہوجائیں۔
تحریر:حبیب اللہ
جامعہ الدراسات الاسلامیہ کراچی
رابطہ :Email:8939478@gmail.com
Fb:ha8939478@gmail.com
No comments:
Post a Comment