Friday, 13 January 2017

صحرا کا مسافر

تحریر:حبیب اللہ خان پاندہ
ای میل:8939478@gmail.com       Fb:ha8939478@gmail.com

صحرا کا مسافر

وہ بے آب و گیاہ صحرا تھا۔ نظروں کا رخ جدھر بھی اٹھتا تھا۔ ریت کے ٹیلے ہی ٹیلے نظروں کا استقبال کرتے نظر آتے تھے۔ البتہ کہیں کہیں دور کوئی درخت، کانٹے دار جھاڑیاں بھی دیکھنے کو مل جاتی تھیں۔ غرض کہ ہر طرف ہو کا عالم تھا۔ وسیع و عریض صحرا میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ پرندوں کی گنگناہٹ اور چڑیوں کی چہچہاہٹ سننے کو کان ترس رہے تھے۔ ماحول میں چاروں طرف سناٹا ہی سناٹا تھا۔ دور دور تک انسان تو درکنار کوئی جانور بھی ڈھونڈے نہ مل پاتا تھا۔ ایک تو بے آباد اور ویران صحرا مزید اوپر سے خاموشی نے اس ماحول کو وحشت ناک بنا دیا تھا۔ گویا کہ یہاں انسانوں کی نہیں بلکہ ریت کے ٹیلوں، خاموشیوں اور سناٹوں کی حکومت تھی۔ ایسے لگ رہا تھا کہ یہ جگہ اس زمین کا حصہ نہیں ہے کہ جس پر انسان بستے ہیں۔ جہاں پرندوں کی گنگناہٹ، چڑیوں کی چہچہاہٹ، کوئل کی مستانہ آواز، ماحول کو معطر کیے ہوتے ہے۔ جہاں چھوٹے چھوٹے پھول جیسے بچوں کی شرارتیں اور شور ماحول کو مہکائے ہوتا ہے۔ جہاں انسانیت کا وجود پایا جاتا ہے۔ جس ماحول میں زندگی پر لطف وپر سکون ہوتی ہے۔ جہاں انسان بستے ہیں۔

اچانک منظر بدلا دیکھتے ہی دیکھتے اس ویرانے اور سناٹے کے ماحول میں خیبر سے ایک آدمی نکلا وہ اس خاموش صحرا کی خاموشی کو چیرتے ہوئے اپنی منزل مقصود تک پہنچنا چاہتا تھا۔ وہ شخص سفر پر رواں دواں تھا۔ اسے ادھر ادھر کا کچھ خیال نہ تھا وہ اپنی دھن میں آگے بڑھتا جا رہا تھا۔ خاموش اور وحشت ناک ماحول میں اسے ایک ہی فکر تھی کہ وہ منزل مقصود تک پہنچے۔ اسے اپنے عزیز و اقرباءبھی یاد آرہے تھے۔ بچوں کی محبت بھی اس کے دل کو دھڑکا رہی رہی تھی۔ اس نے اپنی سواری کو ایڑھ لگائی، اس کے قدم تیزی سے اٹھنے لگے اور وہ خیبر سے بہت دور نکل



چکا تھا۔ اتنا دور کہ واپسی میں اچھا بھلا وقت صرف ہو سکتا تھا۔ اچانک اس کی نظروں نے عجیب و غریب مشاہدہ کیا وہ کیا دیکھتا ہے کہ دو شخص مسلسل اس کا تعاقب کر رہے ہیں۔ نجانے کتنی دور سے وہ اس کا پیچھاکر رہے تھے مگر اس طرح کا خیال اس کے پاس سے بھی بھی نہ گزرا تھا کہ اس کا تعاقب کیا جارہا ہے۔ اس نے جب دیکھا کہ وہ دونوں اشخاص تیزی سے اس کی طرف بڑھ رہے ہیں تو اس کے دل میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ اس کے دل میںخوف ڈیرے ڈالنے لگا۔ وہ دونوں اشخاص پہلے سے تیز رفتار اس کا تعاقب کر رہے تھے وہ اس شخص کو پکڑنا چاہتے تھے۔ اب یہ شخص آگے تھا اور وہ دونوں اس کے پیچھے تھے اب جب اس نے اس منظر کا مشاہدہ کیا تو ڈر کے مارے کانپنے لگا اس نے اپنی سواری کو تیز کر دیاوہ سوچنے لگا کہ اب اس بے آب و گیاہ اور ویران و سنسان صحرا میں مدد کے لیے کس کو پکارے۔ دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے اس نے رابطہ جوڑ لیا۔ وہ تیزی سے آگے بڑھتا جا رہا تھا اور دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتا جا رہا تھا۔ کہ اے اللہ مجھے ان کے شر سے محفوظ رکھ کہیں یہ مجھے قتل نہ کر دیں، کہیں یہ میرا سامان مجھ سے چھین کر مجھے دنیا سے مٹا دیں ۔ اگر انہوں نے ایسا کر دیاتو میرے گھر والوں اور بچوں کا کیا بنے گا۔ اسی پریشانی کی حالت و کیفیت میں دو چار وہ آگے بڑھتا جا رہا تھا۔ اچانک اس کی دعائیں رنگ لائیں اور اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ کچھ ہی دور ایک تیسرا شخص نمودار ہوا۔ وہ اس کے پیچھے لگے دونوں اشخاص کی طرف تیزی سے بڑھنے لگا۔ ان کے قریب پہنچ کر اس نے ان سے کچھ کہا۔ خاموشی کے ما حول میں اس پہلے شخص نے کان لگا کر آواز سنی تو اسے یہ سمجھ آیا کہ وہ تیسرا شخص ان سے کہہ رہا تھا واپس پلٹ جاو
¿، واپس پلٹ جاو۔ آخر کافی تگ و دو کے بعد اس نے ان دونوں کو واپس پلٹنے پر مجبور کر دیا۔ اب وہ دونوں اشخاص جو اس کا پیچھا کر رہے تھے واپس لوٹ گئے۔ اس نے جب یہ سارامنظر دیکھا تو دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کرنے لگا۔ اب اس کے دل میں چاہت پیدا ہوئی کہ وہ اپنے محسن کو دیکھے جس نے اس پریشانی سے اس کو نجات دلوائی۔ وہ انہیں سوچوں میں گم سم تھا کہ اب اس نے بعد میں آنے والے شخص کو اپنی طرف بڑھتے دیکھا۔ وہ اپنی جگہ ہی رک گیا اور اپنے محسن


کا انتظار کرنے لگا۔ کچھ ہی دیر میں انتظار کی طویل گھڑیاں ختم ہوئیں اور بعد میں آنے والے شخص اس کے قریب پہنچ گیا اب وہ اس پہلے شخص سے گویا ہوا اور کہنے لگا کہ وہ دونوں اشخاص جو آپ کا پیچھا کر رہے تھے ان کی نیت درست نہ تھی وہ آپ سے شرارت کرنا چاہتے تھے آپ کو ضرر پہنچانا چاہتے تھے اس لیے میں نے جب ان کو آپ کا پیچھا کرتے دیکھا تو میں ان کے پیچھے لگا رہا یہاں تک کہ میں نے انہیں واپس پلٹنے پر مجبور کر دیا۔ اب چونکہ تم سرور کائنات جناب محمدﷺ کی جانب رواں دواں ہو تو دربار رسالت میں پہنچ کر آقاءدو جہاں سے کہنا کہ آپ کا عاجز غلام آپ کو سلام کہہ رہا تھا اور میرا یہ پیغام بھی مہربان و مشفق آقا کے سامنے پیش کرنا کہ میں اپنے علاقہ میں زکوٰة جمع کر رہا ہوں، جیسے ہی وہ جمع ہوں گے ہم انہیں آپﷺ کی خدمت میں بھیج دیں گے۔ جب اس نے اپنی بات مکمل کر لی توپہلے والے شخص نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اب دونوں نے اپنی اپنی منزل مقصود کر طرف رخت سفر باندھا۔

پہلا شخص جب نبی کریمﷺ کے پاس دربار نبویﷺ میں پہنچا تو تمام واقعہ آپ کے سامنے پیش کیا۔ سارا واقع سننے کے بعد نبی اکرمﷺ نے لوگوںکو حکم دیا کہ کوئی بھی شخص خلوت میں تنہاسفر نہ کرے۔ (متن کے لیے دیکھئے سلسلہ احادیث الصحیحہ للالبانی:2658) تو پتا چلا کہ خلوت میں سفر نہ کیا جائے کیونکہ جناب محمدﷺ نے فرمایا کہ اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ تنہا سفر کرنے میں کیا نقصان ہے جو میں جانتا ہوں تو کوئی بھی سوار رات کوسفر نہ کرے۔ (بخاری)
8939478@gmail.com



No comments:

Post a Comment