بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
تحریر: حبیب اللہ جامعہ الدراسات الاسلامیہ کراچیرابطہ:Email:8939478@gmail.com Fb:ha8939478@gmail.com
اتحاد کیسے ممکن ہے؟
آغاز نبوت سے پہلے مشرکین عرب کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے وہ جہالت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب چکے تھے۔ جہالت کے سبب سے آپس میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر تنازعات ہو جاتے۔ پھر یہ تنازعات لڑائی کی صورت اختیار کرتے۔ آخر معاملہ اس حد تک پہنچتا کہ لاشیں گرنے کا آغاز ہو تا۔ پھر وہ چھوٹی سی چنگاری جو جہالت کی وجہ سے بھڑکی تھی وہ ان کے مابین خانہ جنگی کے شعلے بھڑکانے کا سبب بن جاتی۔ یہ لڑائیاں خاندانوں کے خاندان اپنی لپیٹ میں لے لیتیں۔ اسی جہالت کے سبب سے خونی رشتے دار آپس میں خون کے پیاسے بن چکے تھے۔ اسی کے سبب سے اختلافات عام تھے۔ عصبیت عام تھی۔ نفرتوں کا نا ختم ہونے والا سلسلہ جاری تھا۔
غرض ایک ایسا منظر جہالت برپا تھا کہ جس میں ہدایت نامی کوئی چیز دور دور تک نظر نہ آتی تھی۔ بقولِ شاعر
چلن ان کے جتنے تھے سب وحشیانہہر اک لوٹ اور مار میں تھا یگانہفسادوں میں کٹتا تھا ان کا زمانہنہ تھا ان میں کوئی قانون کا تازیانہمگر اس کے بالکل برعکس عرب کا وہ سنہری دور بھی تاریخ میں محفوظ ہے جس کا آغاز اسلام کے بعد کا ہے۔ جس میں محبت کی ایک لازوال داستان رقم طراز ملتی ہے۔ جس میں یہ ملتا ہے کہ انصار نے مہاجرین کے لئے جان و مال پیش کر دیئے۔ یہاں تک بھی پیش کش کی کہ میری دوبیویاں ہیں، میرے مہاجر بھائی کو جو پسند ہو میں اسے طلاق دیتا ہوںوہ اس سے نکاح کر لے۔ اور یہ منظر بھی آنکھوں کو خیرہ کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ انصاری بھائی کی طرف سے یہ پیش کش ہوئی کہ میرا وسیع باغ ہے، مہاجر بھائی آدھے میں شریک ہوجائے۔ اس میں یہ مثال بھی سامنے آتی ہے کہ جنگ کا ماحول برپا ہے۔ جسم زخموں سے چور ہے۔ سخت پیاس اور زخموں سے جان نکلنے کو ہے۔ ساتھی پانی کا گلاس آگے بڑھا چکا ہے۔ مگر اتنے میں دوسرے زخمی بھائی کے کراہنے کی آواز آتی ہے۔ اور پانی طلب کرنے کی صدا بلند ہوتی ہے۔ تو پہلا پینے سے انکار کردیتا ہے کہ پہلے میرے اس مجروح بھائی کو پلاو ¿۔ پانی اسکے پاس پہنچتا ہے۔ تو تیسرے زخمی کی طرف سے پانی پانی کی صدا بلند ہوتی ہے۔ دوسرا درخواست کرتا ہے کہ پہلے اسے پانی پلاو ¿۔ پانی والا اس تک پہنچتا ہے تو روح پرواز کرچکی ہے۔ پانی والا جلدی سے واپس دوسرے کی طرف پلٹتا ہے مگر وہ بھی جام شہادت نوش فرماکر رب کو منا چکا ہے۔ پانی والا جلدی سے پہلے کی طرف آتا ہے۔ مگر وہ بھی اپنے اللہ سے کیا ہوا وعدہ پورا کرچکا ہے۔ سبحان اللہ قربان جائیے اس سیرت پر۔
ہاں ہاں ! یہ بھی بھائی چارگی کی ایک مثال ہے جو اسلام سے پہلے ڈھونڈے نہ ملتی تھی۔
اللہ اللہ ! آخر یہ سب کیسے ہوا؟ کیا خودبخود ہی بگڑتے حالات سنور گئے۔ خودبخود ہی جانی دشمن آپس میں لازوال محبت کے رشتوں میں جڑ گئے۔ یہ سب کچھ یوں ہی ہوگیا نہیں نہیں۔ اس عظیم مقصد کے لئے اللہ نے اپنے نبی کو مبعوث فرمایا۔ جناب محمد ﷺ اپنے ساتھ قرآن کریم جیسی عظیم کتاب لائے۔ آپ نے اس عظیم مقصد کے لئے اپنی جان، مال، وقت کی قربانی دی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس احسان کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے۔ ”اللہ کے اس انعام کو یاد کرو جو اس نے تم پر کیا۔ جب تم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے تو اللہ نے تمہارے درمیان محبتوں کا لازوال سلسلہ جاری کردیا۔ تم اللہ کے فضل سے آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور تم شرک کی گندگی کی وجہ سے جہنم کے کنارے پر پر تھے مگر اللہ نے تمہیں اس سے نجات دے دی۔“ (آل عمران:103)
ہاں اللہ کا یہ احسان محمد رسول اللہ ﷺ کی صورت میں مسلمانوں پر ہوا۔ آپ نے اپنے بعد ایک ایسی قوم چھوڑ ی کہ ابتدائے دنیا سے لے کر انتہائے دنیا تک ایسی جھلک ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے گی۔ بقول شاعر
آخر کون سانسخہ کیمیا آپ ﷺ نے اصلاح امت کے لئے چھوڑا تھا کہ جس پرعمل پیرا ہوکر آپ کے اصحاب نے تعصب کے جال کو اوپر سے اتار پھینکا۔ آپس کی عداوتوں اور نفرتوں کو محبتوں میں بدل ڈالا۔ آپس میں پیار و محبت کا ایک ایسالا زوال رشتہ قائم کیا کہ دنیا والوں کے لئے عمدہ مثال بن گئے۔ جو جہالت کے داعی تھے وہ سرچشمہ ہدایت بن گئے۔ کفرو شرک کے گھٹا ٹوپ اندھیروں کی نشیب سے نکل کر فراز ہدایت پر گامزن ہوئے۔اسلام کی وارث اک ایسی قوم چھوڑیکہ دنیا میں جس کی مثالیں ہیں تھوڑی
ہاں ہاں ! وہ ایک چیز ہے۔ اللہ کا قرآن اور جناب محمد رسول اللہ ﷺ کا فرمان جیسا کہ امام الانبیا محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ جب تک تم ان کو مضبوطی سے پکڑے رکھو گے کبھی گمراہ نہیں ہو گے وہ دو چیزیں کیا ہیں ؟ فرمایا ” ایک اللہ کا قرآن اور دوسرا رسول اللہ کا فرمان “ ( رواہ النسائی )آج آپس میں گروہ بندیاں ہیں۔ فرقے ہیں تعصب کی گرما گرم فضا ہے۔ جماعتیں مخالفین کی گردن پر چھری چلانے کو باعث فخر سمجھتی ہیں۔ تعصب نے بھائی کو بھائی اور بیٹے کو باپ کا جانی دشمن بنا دیا ہے۔ تکفیر کے فتوے لگ رہے ہیں۔ مظلوموں کے جنازے اٹھ رہے ہیں۔ غرض نفرتوں کا ایک ایسا لامتناہی سلسلہ شروع ہو چکا ہے کہ جس میں امت کی جڑیں کھوکھلی کردی گئی ہیں۔ آخر اس سارے فساد کی جڑ کیا ہے؟ غور کرنے پر حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ ہم نے اللہ سے دوستی کے ہاتھ واپس کھینچ لئے ہیں۔ ہم نے ہدایت کے نسخہ کیمیا کو ترک کردیا ہے۔ ہم نے ان روشن تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ہے کہ ضلالت و گمراہی میں ڈوبنے والوں کے لئے آج بھی باعث ہدایت ہیں۔
آج لوگ سوچنے پر مجبور ہوچکے ہیں کہ آپس میں اتحاد کیسے قائم ہو۔ نفرتوں کا سلسلہ کیسے مٹایا جائے۔ تعصب کی فضا کو کیسے نیست و نابود کیا جائے۔ کچھ نے اس عظیم مقصد کے لئے قدم بھی بڑھائے ہیں مگر وہ عظیم راستہ جس پر چل کر ہم نفرتوں کا لامتناہی سلسلہ ختم کرکے محبتوں کے بیج بو سکتے ہیں جو ہمارے نبی ﷺ نے ہمیں عطا کیا ہے۔ اس سے لا تعلقی کرکے کچھ بھی ممکن نہیں۔ آج ہم لوگوں کو زبان و قلم سے جتنا مرضی سمجھا لیں جب تک ہم اپنا راستہ قرآن و سنت والا نہیں اپنائیں گے تو موجودہ حالات سے چھٹکارہ پانا ناممکن ہے لہٰذا آج کے پرفتن دور میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی اصل کی طرف واپس لوٹ آئیں۔
No comments:
Post a Comment