Monday 23 January 2017

اسلام میں عورت کی حفاظت

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اسلام میں عورت کی حفاظت

آج ہم عالم اسلام کی مضبوط ترین ریاست وطن عزیز پاکستان میں رہتے ہیں۔کبھی آپ نے غور کیا کہ یہاں آمد اسلام کی وجہ کیا چیز بنی؟جب ہم تاریخ کا  مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات ہم پرروز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ محمد بن قاسم نے ایک مظلوم عورت کی فریاد پر بر صغیر پاک و ہند کا سفر کیا اور آپ کے کراچی سے لے کرملتان بلکہ چنیوٹ تک پرچم اسلام لہرا کر یہ ثابت کر دیا کہ دین اسلام خواتین کا محافظ اور مظلوموں کا داد رس دین ہے۔

محترم قارئین!یہ تو تھا ہندو راجائوں کا ایک خاتون پر تشدداور اس کے مقابلے میں اسلام کے شیر محمد بن قاسم کا کردار۔آئیے اب دیکھتے ہیں مولانا صفی الرحمن کی الرحیق المختوم سے یہودیوں کا کردار۔رسول اللہ ﷺ کے دور کی بات ہے کہ ایک عرب خاتون بنو قینقاع کے یہود کے بازارمیںایک سونار کی دوکان پر گئی تو یہودی سونار نے اسے پردہ کھولنے کا کہا ۔لیکن غیرت مند خاتون نے انکار کیا تو یہودی نے چپکے سے عورت کی چادر کے پچھلے حصے کو کسی چیز سے باندھ دیا۔تو جب عورت کھڑی ہوئی تو اس کا پردہ چاق ہو گیا۔عورت کی اس بے آبروئی پر یہودیوں نے قہقہہ لگایا مظلوم خاتون کی بے ساختہ آہ و پکار بلندہوئی۔جھٹ سے ایک مسلم نوجوان اپنی اس بہن کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھا اور یہودی پر حملہ آور ہوا اور اس کا کام تمام کرکے رہتی دنیا تک کے لیے یہ بات ثابت کردی کہ اسلام ہی خوتین کا محافظ دین ہے۔
آئیے اب دیکھتے ہیں قبل از اسلام عورت کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا تھا۔تاکہ بات مزید واضح ہوسکے۔ اس حوالے سے جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ  بات ہم پر اظہر من الشمس واضح ہوتی ہے کہ اس کی ساری زندگی ہی غیر محفوظ تھی ۔اول تو اس کے پیدا ہوتے ہی اس کا باپ اس معصومہ کو زندہ ہی منوں مٹی کے نیچے دبا کر آجاتا تھا۔ہاں اگر بچ جاتی توپھر اس کے ساتھ جانوروں سے بھی بد تر سلوک کیا جاتاتھا۔کیونکہ عرب جہلاء اونٹ اور گھوڑوں کی خدمت میں تو فخر سمجھتے تھے جبکہ عورت کو ذلت و رسوائی کا سبب گردانتے تھے۔اسی وجہ اس پر مظالم ڈھاتے رہتے تھے۔اجتماعی طور پر اس کی عزت لوٹنا ان کے نکاح کے طریقوں میں شامل تھا ۔اس پر تاریخ شاہد ہے کہ اس کے پاس بیک وقت دس مرد آتے پھر بچے کی پیدائش کے موقع پر یہ جس کی طرف بچے کی نسبت کر دیتی وہ مرد اس کا کفیل بن جاتا۔اور اسی انداز میں ایک ایک مرد دس دس ،پندرہ پندرہ خواتین کو اپنے عقد میں رکھا کرتا تھا۔اور ان سے ہر طرح کی خدمت لینا اور اس کے بعدمار پیٹ کرنا ان کی گھٹی میں رچا ہواتھا۔اس سے بڑھ کر یہ کہ شوہر کی وفات کے بعد ان تمام بیویوں کو اس کی اولاد میں بطور وراثت کے تقسیم کیا جاتا تھا۔الغرض کہ عورت کی عمر کاکوئی لمحہ ایسا نہیں تھا جوپر امن اور محفوظ ہو۔جب کہ اس کے مقابلے میں اسلام نے نہ صرف عورت کی زندگی کی حفاظت کی ہے بلکہ اسے زندگی کے ہر موڑ پر بے شمار حقوق سے نوازتے ہوئے ماں،بیٹی اور بہن کے عظیم مراتب پر فائز کیا ہے۔یہی بیٹی جسے زندہ درگور کیا جاتاتھا۔اسلام نے اسے رحمت قرار دیا اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’جس کو اللہ نے بیٹی عطا کی پھر اس نے اس کی اچھے طریقے سے پرورش کی اور اس کو تعلیم و تربیت سے آراستہ کرکے نکاح کے بندھن میں منسلک کرکے ایک گھر کی مالکہ بنایا تو اس کے لیے جنت کی بشارت ہے۔‘‘اور اسی انداز سے کہیں فرمایا کہ ’’ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔‘‘اور کہیں فرمایاکہ :’’مائوں کی نافرمانی کبیرہ گناہ ہے۔‘‘الغرض کہ اسے ہر طرح کے حقوق عطاء کرتے ہوئے اسے وراثت میں بھی شامل کیا۔اسے پردے کا حکم دے کر اس کی عزت و عصمت کی حفاظت کی۔اس پر ایک مرد کو نگران اور کفیل بنا کر اسے محنت ،مزدوری اور دنیاوی جھنجھٹوںسے آزاد کیا کہ اے خاتون تو اس چار دیواری کے اندر رہتے ہوئے باپردہ،باعزت اور انتہائی محفوظ زندگی گزار۔آخر یہ حق صنف نازک کو کس نے دیا؟
صرف یہی نہیںاسلام نے تو جہادوقتال کے میدان میں بھی جہاں گردنیں کٹ رہی ہوتی ہیں،لہو بہہ رہا ہوتا ہے،لاشیں تڑپ رہی ہوتی ہیں،ا س حالت میں بھی بوڑھے بچے اور عورتوں کے قتل سے منع کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ اسلام ہی عورتوں کا محافظ دین ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں عروج اسلام کے دور میں اس انداز کے مناظر ملتے ہیں۔کہ ایک اکیلی عورت یمن سے چلتی ہے۔مکہ پہنچ کر بیت اللہ کا حج کرتی ہے اور پھر بحفظ وامان گھر واپس آجاتی ہے۔اس کو ٹیڑھی نگاہ سے دیکھنے والا کوئی نہیں۔آخر اس انداز کا کوئی ایک نمونہ تو پیش کرو جو اسلام کے علاوہ کسی اور دور میں نظر آیا ہو۔
محترم قارئین!یہی تو وجہ ہے کہ آج یورپ میں نئے مسلمان ہونے والوں میں زیادہ تعداد خوتین کی ہے۔کیونکہ وہ اچھی طرح سمجھتی ہیں کہ اگر عزت سے زندگی گزارنی ہے تو اسلا م میں آجائو۔ورنہ اس سے بڑھ کر باعزت اور پرا من زندگی کہیں میسر نہیں آسکتی۔اسی وجہ سے کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہوتی جارہی ہیں۔
اب آخر میں خلاصہ کلام کے طور پر ایک بات کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ نے عورت کی حفاظت کے حوالے سے ہندو راجائوں کا کردار پڑھا،پھر یہودیوں کا کردار پڑھا،پھر قبل از اسلام عرب جہلاء کا سلوک پڑھا ۔اب ذرا انصاف کے ساتھ نام نہاد حقوق نسواں کے علمبرداروں کودیکھو اور موجودہ اسلامی ریاستوں کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کرو کہ کون لوگ ہیں جو فلسطینی خواتین پرظلم و ستم کی چکی چلا رہے ہیں۔اور وہ کون لوگ ہیں جو کشمیری بہنوں کی عصمت دری کررہے ہیںاور وہ کون لوگ ہیں جن کی جیلوں میں پاکستان کی بیٹی عافیہ صدیقی اور دیگرامت مسلمہ کی بیٹیاں عرصہ حیات گزارنے پر مجبور ہیں۔یقینااسلامی ریاستوں میں سے کوئی ایک بھی ریاست آپ کو اس قبیح جرم میں ملوث نظر نہیں آئے گی۔حالانکہ یہ سچ ہے کہ اس دور میںمکمل نظام اسلام بھی لاگو نہیں ہے،مگر پھر بھی عورت کی اتنی زیادہ حفاظت موجودہے تو جب مکمل نظام اسلام نافذ ہوگیا تو پھر یقینا عمر بن خطا ب رضی اللہ عنہ کے دور کی یادیں تازہ ہو جائیں گی۔ان شاء اللہ تو پھر میں کیوں نہ کہوںکہ اسلام ہی خواتین کا محافظ دین ہے۔اسلام زندہ باد
تحریر:شکیل احمد
رابطہ:03055003898
ای میل:sa5003898@gmail.com
پتہ: جامعہ ا لدراسات الاسلامیہ گلشن اقبال بلاک نمبر7کراچی 

No comments:

Post a Comment