Monday 30 January 2017

نرمی و برداشت

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

نرمی و برداشت

’’ابے او اخروٹ کی نسل، ابے بھڑوے.......‘‘اس کی زبان سے جیسے ہی یہ کلمات ادا ہوئے۔مد مقابل نے آئو دیکھا نہ تائو گاڑی سے اترتے ہی اس کا گریبان تھام لیا۔اور پھر ایک  دشمن کی مانند اس پر یک لخت کئی مکوں اور گھونسوں کی برسات کردی۔نہ دیکھا کہ چہرے پر لگ رہے ہیں یا کہیں اور.....سامنے والے نے بھی دفاعی انداز اختیار کرتے ہوئے رد عمل میں اس کی دھنائی شروع کردی اور ایک حریف کی مانند پورا حق ادا کیا۔چند لمحات پہلے جہاں سکون تھا اب شیطانیت غالب آچکی تھی۔قریب تھا کہ
معاملہ زیادہ پیچیدہ صورتحال اختیار کرتا مگر قریب لوگوں کی مداخلت پر معاملہ رفع دفع ہو گیا۔دونوں نے منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے ہوئے اپنی راہ لی۔پھر بھی ایک کا سر پھٹ چکا تھا تو دوسرے کا چہرہ لہو لہان تھا۔یہ ایک واقعہ نہیں بلکہ روزانہ اس طرح کے کئی واقعات رونما پذیر ہوتے ہیں۔میں ان دونوں کو دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ آخر کیوں ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پر مد مقابل کو اپنا حریف سمجھ کر اس پر ایک دشمن کی مانند ٹوٹ پڑتے ہیں۔آخر ہماری قوت برداشت کہاں چلی جاتی ہے؟چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپے سے باہر ہو جانا،ہلکی ہلکی غلطیوں پر غصے سے لال پیلا ہو جانا،عام سی لغزشوں پر آپس میں میدان جنگ سجا دینا،کیا یہ مسلم کا طریقہ ہے؟کیا یہ ایک مومن کا سلیقہ ہے؟کیا یہی امت محمدیہ کے افراد کا طرز عمل ہے؟کیا اہل اسلام کو اسلام نے یہی آداب سکھلائے ہیں؟آخر ایسا کیوں ہے؟
رسول اللہ ﷺ نے تو یہ ارشاد فرمایا ہے:’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔‘‘’’مومنوں کی مثال آپس کی رحم دلی اور شفقت میں ایک محل کی مانند ہے، جس کی ہر اینٹ دوسری کو مضبوطی سے جوڑے رکھتی ہے۔‘‘تمام مسلمان آپس میں جسد واحد کی مانند ہیں،کہ جسم کے ایک عضو میں کوئی تکلیف پہنچے تو سارا جسم کلبلا اٹھتا ہے۔نیند اڑ جاتی ہے اور سکون غائب ہو جاتا ہے۔آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایاکہ:’’مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیںیہ آپس میں نہ ظلم کرتے ہیں نہ ہی ایک دوسرے کو رسوا کرتے ہیںاور نہ ہی آپس میں ایک دوسرے کو کم تر سمجھتے ہیں۔‘‘
اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کا نٹا جو قابل میں 
تو ہندوستان کا ہر پیرو جواں بے تاب ہوجائے
مگر ہم مسلمانوں اور امت محمد کے دعوے دار اپنے مربی اور مشفق نبی کے فرامین بھلا چکے ہیں۔کیا آپ ﷺ کا طرز عمل اس طرح کے معالات میں یہی ہوا کرتا تھا؟آئیے سیرت مصطفی کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیے۔صحیح مسلم کا واقعہ ہے سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ میں آپ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھا۔آپ نے اپنے کندھوں پر نجران کے موٹے کپڑوں کی چادر لٹکائی ہوئی تھی اور اپنی منزل مقصود کی جانب رواں دواں تھے۔کہ اچانک سامنے سے ایک دیہاتی آیا۔اس نے آتے ہی چادر کو دونوں کناروں سے پکڑا اور اسے کھینچا۔اس قدر شدت سے کہ گردن مبارک پر چادر کے نشان پڑ گئے۔آپ جب اس کی طرف متوجہ ہوئے تو دیکھا کہ وہ دیہاتی ہے ۔ان پڑھ جاہل ہے۔ادب و آداب سے نا واقف ہے۔آپ نے اس پر نہ تو فوراغصے سے اس پر گالوں کو پھلایا اور نہ ہی اس پر برسے کہ تمہیں چھوٹے بڑے کی تمیز نہیں۔نہ تو اسے ڈانٹا اور نہ اس پر سخت کلامی کی ۔بلکہ آپ پر میرے ماں باپ و میری جان قربان ہوجائے آپ نے اسے نظر رحمت سے دیکھاتو وہ کہنے لگا کہ:’’اے محمد اپنے ساتھیوں کو کہو کہ آپ کے پاس جو اللہ کا مال ہے اس میں سے مجھے بھی دیں ۔آپ اس کے اس انداز پر مسکرا دیئے اوراپنے صحابہ کو حکم دیا کہ اس کو اللہ کے مال میں سے دے دو۔‘‘
سبحان اللہ!قربان جائیے اپنے نبی کی ہر ادا پرکہ جو رحمت کا مرقع تھا۔جن کی ہر ادا سے شفقت و محبت ٹپکتی تھی۔جو نہ صرف اپنوں کے لیے رحم دل بلکہ غیروں پر بھی مہربان تھے۔مشرکین عرب جنہوں نے آپ پر سختیوں اور مصائب کے پہاڑڈھائے۔آپ پر ظلم و ستم کی آخری حدوں سے بھی تجاوز کیا ۔تو کسی ساتھی نے فرما دیاآپ ان ظالموں کے خلاف بددعا کر دیں۔تو آپ نے فرمایا :’’مجھے اس لیے نہیں بھیجا گیا کہ میں لوگو ں پر لعن طعن کروں بلکہ مجھے رحمت بنا کر بھیجاگیا ہے۔‘‘یہ آپ کی روشن سیرت ہے ذرا اپنے دلوںکو تھام کر بتلائیے کیا ہم نے اپنے نبی کہ اسوہ کو پسند کیا؟کیا سیرت مصطفیٰ ہمارے لیے نمونہ نہیں؟چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کی جان کا دشمن بن جانا کس کا طریقہ ہے؟میرے مصطفیٰ علیہ السلام نے تو یہ فرمادیاکہـ:’’کہ اللہ تعالیٰ مہربان ہے اور مہربانی کو پسند فرماتا ہے اور مہربانی پر وہ کچھ دیتا ہے جو سختی پر نہیں دیتا۔نہ ہی اس کے علاوہ کسی اور چیز پر دیتا ہے۔‘‘(مسلم:2593)اور فرمایا:’’جوشخص مہربانی سے محروم کردیا گیا وہ خیر و بھلائی سے محروم ہو گیا۔‘‘ 
قارئین کرام!اگر کامیابی چاہئے تو پھر نبوی راستے کا انتخاب کیجئے۔شاہراہ عام کوترک کرکے اسی طریق پر چلیے جو طریق الجنتہ ہے۔ جو صراط مستقیم ہے۔ اسی پر چلنے میں کامیابی و کامرانی ہے۔اس کے علاوہ باقی راستے گمراہیوں اور ضلالتوں کے ہیں ۔جن پر چل کر نہ صرف آپ دنیا میں گھاٹے کا سودہ کریں گے بلکہ آخرت کی حقیقی کامیابی سے بھی محرومی کا شدید خطرہ ہے۔کیونکہ باقی راستوں پر اللہ کے دشمنوں شیاطین کا دور دورہ ہے ۔ وہ مردود یہ کبھی پسند نہ کریں گے کہ اللہ کا یہ بندہ اللہ کی رحمتوں اوربرکتوں کو سمیٹ کر اپنی دنیا بھی سدھار جائے اور آخرت کی کامیابی سے بھی سرفراز ہو۔کیونکہ اللہ نے واشگاف الفاظ میں یہ اعلان فرما دیا کہ’’یقینا شیطان تمہارا واضح دشمن ہے اور اس کو اپنا دشمن ہی سمجھو کیونکہ وہ اور اس کا لشکر تمہیںگمراہی کی طرف دعوت دیتے ہیں تاکہ تم (ان کی بات مان کراور برائیاں کر کے) بھڑکتی آگ (یعنی جہنم) میں داخل ہو جائو۔‘‘(سورہ فاطر:6)تو پھر کیا خیال ہے جنت کی طلب ہے یا پھر.........؟

تحریر:حبیب اللہ
رابطہ:8939478@gmail.com

No comments:

Post a Comment