Saturday 14 January 2017

واقعہ معراج


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

واقعہ معراج 

اس وسیع و عریض کائنات میں مخلوق الٰہ میں سب سے عظیم ترین انسان انبیاءکرام علیہم السلام گزرے ہیں۔ گزشتہ تمام امتوںکی طرف جن انبیاءعلیہم السلام کو مبعوث فرمایا گیا وہ کسی خاص علاقے یا قوم کی طرف دعوت دین لے کر آئے ۔ مگر امام الانبیاءجناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت تک آنے والی ساری نسانیت کی طرف پیغمبر بنا کر مبعوث فرمایا گیا۔ آپ کی حیات طیبہ سے پھوٹنے والی ضیاءبار کرنوںنے ساری کائنات کو روشن کر دیا۔ جو لوگ کفر و شرک کے اندھیروں میں ڈوب چکے تھے انہیں راہ راست پر لایا۔ بجھے دلوں کو تقویت ملی۔ زندگی سے مایوس لوگوں کو نئی زندگی نصیب ہوئی۔ دشمن آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔ غرض کہ متلاشیان حق بے دینی کے گھٹا ٹوپ اندھیروںسے نکل کر راہ ہدایت پر گامزن ہو گئے۔ جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے دنیا کا ہر فرد چاہے وہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتا ہورہنمائی حاصل کر سکتا ہے۔ رب کائنات نے آپ کو خصوصی مقام و مرتبہ سے نوازا۔ اسی طرح آپ کو عظیم معجزات بھی عطا کیے گئے۔ جن میں شب معراج یعنی صرف ایک رات میں مکہ سے بیت المدس اور ساتوں آسمانوں اور ان کے ارد گرد کی مخلوقات کا مشاہدہ بھی ایک خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔
ظاہرہے کہ اس عظیم معجزے کو یہ احقر قلم بعینہ بیان نہیں کر سکتا۔ مگر پھر بھی استطاعت انسانی کے تحت چند الفاظ میںآپ کے سامنے یہ عظیم واقعہ و معجزہ بیان کیا جا رہا ہے۔
27رجب کی بابرکت رات تھی۔ جب اس کائنات کی سب سے عظیم ہستی یعنی امام الا نبیاءجناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم حطیم میں استراحت فرماتے تھے۔ اچانک آسمان سے فرشتوں کا نزول ہوا ۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بطن مبارک کو سینے سے لے کر ناف تک چاک کیا اور دل باہر نکالا۔ سبحان اللہ! یہ اس وقت کی بات ہے جب عرب جہالت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔ علم طب کے ماہرین موجود نہ تھے۔ آج کے دور میں جدید آلات سے بھی دل کا آپریشن ایک رسک لے کر کیا جاتا ہے۔ مگر چودہ سو سال پہلے جب اس ٹیکنالوجی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ اس وقت دل کا آپریشن کیا گیا۔ سرور کائنات فرماتے ہیں: آنے والے نے میرا پیٹ چاک کیا سینے سے لے کر ناف تک کا حصہ کاٹ ڈالا اور پھر میرا دل باہر نکالا ، پھر میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا جو کہ ایمان و حکمت سے بھرا ہو اتھا۔ میرے دل کو دھویا گیا اور اسے ( ایمان و حکمت) سے بھر کر اپنی جگہ لوٹا دیا گیا۔
پھر ایک سفید جانور لایا گیا جو کہ خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا، وہ براق تھا کہ اپنا قدم وہاں تک رکھتا تھا جہاں اس کی نگاہ کی آخری حد ہوتی تھی۔ مجھے جب جبرائیل علیہ السلام نے اس پر سوار ہونے کا کہا تو وہ اچانک بدکنے لگا۔ جبرائیل علیہ السلام فرمانے لگے!” ٹھہر جا“ آج تجھ پر وہ عظیم سواری سوار ہو رہی ہے کہ کبھی بھی اس طرح کی سواری نے تجھ پر سفر نہ کیا۔ مجھے اس پر سوار کر دیا گیا اور جبرائیل علیہ السلام مجھے اپنے ساتھ لے چلے ۔ آپ کو مسجد اقصیٰ لایا گیا۔ وہاں آپ نے براق کوکھونٹی سے باندھا جس میں دوسرے انبیاءکرام علیہم السلام بھی اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے۔ پھر آپ کو تمام انبیاءکرام علیہم السلاکی امامت کے لیے آگے کر دیا گیا۔ آپ نے تمام انبیاءکرام علیہم السلام کو امامت کروائی یوں آپ امام الانبیاءبن گئے۔ اس کے بعد دوبارہ براق لایا گیا۔ پھر آپ اس پر سوار ہوئے اور جبرائیل علیہ السلام آپ کو ساتھ لے چلے۔ یہاں تک پہلے آسمان ( آسمان دنیا) تک پہنچ گئے۔ جبرائیل علیہ السلام نے دروازہ کھولنے کا کہا ! ” پوچھا گیا کون ؟“ کہا میں جبرائیل ہوں۔ ” پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہیں؟ “ فرمانے لگے : ” محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔“ ”سوال کیا گیا کیاانہیں پیغام دے کر بلوایا گیا ہے؟“ جبرائیل علیہ السلام نے جواباً کہا : ” ہاں “ انہیں خوش آمدید کہا گیااور پھر دربان نے دروازہ کھول دیا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتوں آسمانوں کی سیر کروائی گئی۔ اور تمام آسمانوںپر گفتگو کے بعد دروازہ کھولا گیا۔ 
جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ” جب میں نے پہلے آسمان پر قدم رکھا تو دیکھا وہاں آدم علیہ السلام ہیں۔ جبرائیل امین فرمانے لگے : ” یہ آپ کے باپ آدم علیہ السلام ہیں۔“ انہیں سلام کریں۔ میں نے ان کو سلام کیا انہوں نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا :” خوش آمدید ! نیک بیٹے اور نیک پیغمبر “۔ پھر جبرائیل امین نے فرمایا: ”یہ جو آدم علیہ السلام کے دائیں اور بائیں جانب پرچھائیاں ہیں یہ ان کی اولاد کی روحیں ہیں۔ ان میںسے دائیںجانب والی جنتی اور بائیں جانب والی جہنمی ہیں۔ جب آدم علیہ السلام اپنے بائیں جانب دیکھتے تو ( خوشی سے ) ہنستے اور بائیں جانب دیکھتے تو ( غم کی وجہ سے ) رو پڑتے۔ اس کے بعد دووسرے آسمان پر آپ کی ملاقات یحییٰ اور عیسیٰ علیہ السلام سے کروائی گئی ۔ دونوںخالہ زاد تھے۔ جبرائیل امین علیہ السلام نے فرمایا: ” یہ یحییٰ اور عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ انہیں سلام کریں۔“ آپ نے دونوں کو سلام کیا تو انہوںنے سلام کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: ” نیک بھائی اور صالح پیغمبر کو خوش آمدید “۔ پھر تیسرے آسمان پر آپ کی ملاقات یوسف علیہ السلام سے کروائی گئی۔ جبرائیل علیہ السلام کی رہنمائی سے آپ نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے جواباً فرمایا: ” نیک بھائی اور صالح پیغمبر کو خوش آمدید ۔ “ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں نے یوسف علیہ السلام کو دیکھا انہیں دنیا کا آدھا حسن دیا گیاتھا۔ 
پھر چوتھے آسمان پر آپ کی ملاقات ادریس علیہ السلام سے کروائی گئی ۔ انہوں نے بھی سلام کے جواب میں خوش آمدید کہا اور نیک بھائی اور صالح پیغمبر کے القاب سے نوازا۔ پھر پانچویں آسمان پر آپ کی ملاقات ہارون علیہ السلام سے کروائی گئی۔ ان سے دعا سلام کے بعد چھٹے آسمان پر آپ کی ملاقات موسیٰ علیہ السلام سے کروائی گئی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام سے آگے بڑھنے لگے تو موسیٰ علیہ السلام رو پڑے۔ رونے کی وجہ پوچھی گئی تو جواباً موسیٰ علیہ السلام نے کہا: ” اس لیے روتا ہوں کہ یہ لڑکا جو میرے بعد نبی بنا کر بھیجا گیا ہے اس کی امت کے لوگ میری امت سے زیادہ جنت میں جائیں گے۔“ پھر ساتویں آسمان پر آپ کی ملاقات ابراہیم علیہ السلام سے کروائی گئی۔ ابراہیم علیہ السلام دعا کے بعد فرمانے لگے: ’ ’ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنی امت کو میری طرف سے سلام پہنچا دینا اور یہ بتلا دینا کہ جنت کی مٹی بڑی عمدہ ہے۔ اس کا پانی میٹھا ہے لیکن وہ چٹیل میدان ہے ( اس میں کاشت کی ضرورت ہے) اس کی کاشتکاری ”سُبحَان َ اللہ ِ وَالحَمدُلَلہِ وَلَااِلٰہ اِ لّا اللہُ وَاللہُ اَکبَر“ہے۔ اس کے بعد آپ کے سامنے بیت المعمور کو بلند کیاگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق جبرائیل علیہ السلام سے دریافت کیا تو جبرائیل امین علیہ السلام نے بتلایا: ” یہ فرشتوں کی عبادت گاہ بیت المعمور ہے۔ اس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے نماز پڑھتے ہیں اور پھر نکلتے ہیں تو دوبارہ ( قیامت تک ) ان کی باری نہیں آتی۔“ پھر آپ کے لیے تین برتن لائے گئے ایک شراب کا ، دوسرا دودھ کا ، تیسرا شہد کا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے دودھ کا پیالہ لے لیا تو جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا:” یہ وہ فطرت ہے جس پر آپ اور آپ کی امت ہے۔ “آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ” پھر مجھے سدرة المنتہیٰ کی طرف اٹھایا گیا۔ تو اس میں بیری کا درخت میرے سامنے آیا ۔ جس کا پھل ( ایک بیر) جسامت میںہجر شہر کے مٹکوں کے برابر تھا اوراس کے پتے ہاتھی کے کان کے کانوں کے جیسے تھے۔ جبرائیل علیہ السلام نے بتلایا یہ سدرة المنتہیٰ ہے ۔ میں نے جنت میں دیکھا کہ وہاں موتیوں کے قبے ہیں اور اس کی مٹی کستوری کی ہے ، جنت میں چار نہریں تھیں دو نہریںاندر تھیں اور دو باہر جا رہی تھیں۔ میں نے دریافت کیا: ” اے جبرائیل علیہ السلام! یہ دو نہریں کہاں ہیں ؟ فرمایا: ”دوباطنی نہریں، وہ جنت میںہیں اور جو دو نہریں ظاہر ہیں وہ نیل و فرات ہیں۔ پھر میں ایک اور نہر پر آیا اس کے دونوں کنارے موتیوں کے قبے کے تھے ۔ میں جبرائیل علیہ السلام سے اس کے متعلق سوال کیا۔ جبرائیل امین بتلانے لگے : ”یہ کوثر ہے اس کی مٹی بھی خوشبودار کستوری کی ہے۔ “ جنت میں(دوران سیر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے قدموں کی آہٹ سنی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ” جبرائیل علیہ السلام یہ کس کے چلنے کی آواز ہے ؟ جبرائیل علیہ السلام نے جواب دیا: ” یہ آپ کے مﺅذن بلال کے قدموں کی آہٹ ہے۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واپسی پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بتلایا : ” بلال کامیاب ہو گیا میں نے اسے (جنت میں) اس طرح دیکھا ہے۔“
جنت کی سیر کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جہنم کا مشاہدہ بھی کروایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” معراج کے موقع پر میرا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جن کے ناخن پیتل کے تھے وہ اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے ان کے متعلق پوچھا ؟ فرمایا: ” یہ وہ لوگ ہیںجو لوگوں کا گوشت کھایا کرتے تھے اوران کی بے عزتی کرتے تھے۔ ( یعنی غیبت کرتے تھے) اسی طرح میں نے کچھ
لوگوں کو دیکھا کہ ان کے منہ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں۔میں نے ان کے بارے میںجبرائیل علیہ السلام سے پوچھا تو انہوں نے بتلایا : ” یہ آپ کی امت کے وہ خطیب ہیں جو لوگوں کو تو بھلائی کرنے کا حکم دیا کرتے تھے اور خود ان نصیحتوں پر عمل نہیں کرتے تھے۔ حالانکہ وہ وہ کتاب بھی پڑھتے اور سمجھتے تھے۔“ پھر مجھ پر ایک ( رات کو ) دن میں پچاس نمازیں قرض کر دی گئیں۔ جب میںواپس پلٹا اور دوبارہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے پوچھا : ” آپ کو کیا حکم دیا گیا ہے؟ “ میں نے کہا: ” ہر روز پچاس نمازیںپڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔“موسیٰ علیہ السلام نے کہا: ” آپ کی امت روزانہ پچاس نمازیں نہیںپ ڑھ سکے گی۔ اللہ کی قسم میں آپ سے پہلے لوگوں کا تجربہ کر چکا ہوں اور بنی اسرائیل کو خوب اچھی طرح آزما چکا ہوں۔ پس آپ اپنے رب کے پاس جاکر تحفیف ( کمی) کا سوا ل کریں۔ چنانچہ میں دوبارہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرنے لگا تو انہوں نے پھر پوچھا اور میں نے بتلایا ” چالیس نمازیں“ پھر انہوں نے مجھے واپسی کامشورہ دیا۔ پھر میںگیا اور تحفیف کا سوال کیا تو دس نمازیں مزید کم کردی گئیں۔ اسی طرح پھر موسیٰ علیہ السلامجھے کمی کا مشورہ دے کر واپس بھیجتے رہے۔ اور نمازوں میں تحفیف ہوتی رہی۔یہاں تک کہ پانچ نمازیںبچ گئیں۔ پھر بھی موسیٰ علیہ السلام نے کم کروانے کا مشورہ دیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”میں بار بار اپنے رب سے سوال کر چکا ہوں حتیٰ کہ اب مجھے شرم آرہی ہے۔ اس لیے اب میںاسی پر راضی ہوں اور اسے ہی تسلیم کرتا ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے کچھ آگے آئے تو ایک منادی نے بہ آواز بلند کہا :” میں نے اپنا فریضہ جاری کر دیا ہے اور اپنے بندوںپر تخفیف کر دی۔ “
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس زمین پر پلٹ آئے۔ مکہ میں جب صبح لوگوں کو بتلایا تو ان کی طرف سے مذاق ہونے لگا۔ آپ صبح کے وقت سخت پریشان ہوئے۔ لوگ بار بار الٹے سیدھے سوال کرنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہی سوچوں میں غمگین بیٹھے تھے کہ مشرکین کا سردار ابو جہل آیا اور مذاقاً پوچھا: ”کیا کوئی خاص بات ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں کل رات مجھے سیر کروائی گئی۔ پوچھا گیا کہاںتک؟ فرمایا : ” مسجد اقصیٰ تک “ اس نے کہا پھر صبح آپ ہمارے درمیان؟ فرمایا: ” ہاں “کہا اگرتمہاری قوم کو بلاکر لاﺅں سب کے سامنے اس کا اقرار کرو گے“ فرمایا: ” ہاں “ چنانچہ عرب کے طریقے کے مطابق اس نے آواز لگائی: ” اے بنو کعب بن لوئی! اس کی آواز سنتے ہی لوگ مجلسوں سے اٹھ کر اس کے پاس آگئے۔ وہ ان سب کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگیا اور کہنے لگا: ” اب اپنی قوم کے سامنے وہی بات بیان کرو“ اس پر جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” کل رات مجھے سیر کرائی گئی ہے۔“ انہوں نے سوال کیا: ” کہاں تک؟“فرمایا: ” بیت المقدس تک “ انہوں نے کہا :”پھر صبح آپ ہمارے درمیان بھی موجود ہیں؟“فرمایا : ” ہاں “یہ سنتے ہی وہ تالیاں پیٹنے لگے اور اسے جھوٹ سمجھ کر اپنے سروں پر تعجب سے ہاتھ رکھ لیے۔ ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے بیت المقدس ” مسجد اقصیٰ “ کی طرف سفر بھی کیا تھا اور مسجد اقصیٰ دیکھی بھی تھی۔ بغرض تصدیق وہ کہنے لگے :” کیا آپ مسجد اقصیٰ کی صفات بیان کریں گے؟ “اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پریشان ہو گئے۔مگر اللہ نے فوراً ہی مسجد معجزانہ طور پر ان کے سامنے کردی جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر آنے لگی پھر جو کچھ بھی انہوں نے مسجد کے متعلق سوالات کیے اور نشانیاں پوچھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ صفات بیان کر دیں۔ مشرکین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہنے لگے : ” اللہ کی قسم اس نے تو تمام صفات صحیح بیان کی ہیں۔ اس کے بعد مشرکین میں سے کچھ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے اچھے صحابی اور دوست ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچ گئے اور کہا:آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ساتھی عجیب و غریب بات بیان کر رہا ہے ۔ آج آپ کو بھی پتا چل جائے گا کہ وہ جھوٹ بولتا ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے پوچھا تو انہوں نے سارا قصہ بیان کر دیا۔ تو ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ نے تصدیق کے طور پر پوچھا کیا ایسا واقعی میرے محبوب نے بیان کیا ہے؟ مشرکین نے جھٹ سے جواب دیا ” ہاں “تو ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمانے لگے: ” اللہ کی قسم انہوں نے جو کچھ کہا ہے۔میں دل و جان سے کہتا ہوںکہ یہ سب کچھ سچ ہے۔ میں اس کی تصدیق کرتا ہوں کہ یہ سب کچھ سچ ہے۔میں اس کی تصدیق کرتا ہوں۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس واقعہ کا علم ہوا اور اپنے یار غار کی تصدیق کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنیت ” صدیق“ ( یعنی تصدیق کرنے والا ) رکھ دی۔
مصادر و مراجع:
٭صحیح البخاری
۱) کتاب الصلاة، ح349
۲)کتاب بدءالخلق، حدیث3207
۳) کتاب مناقب الا نصار،ح3886/3887
۴) کتاب التوحید ،ح 7515
۵) کتاب احادیث الانبیائ، ح3396/3394
۶) کتاب التفسیر ،4710/4709
۷) تفسیر سورةالنجم،4858/4855

٭صحیح مسلم
۱) کتاب الایمان

جمع و ترتیب : حبیب اللہ
رابطہ:8939478@gmail.com

No comments:

Post a Comment