مداری میڈیا اوراندھی عوام
حسبِ معمول آج بھی فیس بک IDکھولی اور ہوم پیج پر مائوس کرسر گھماتا چلا گیا۔کرکٹ میں پاکستانی ٹیم کے اتار چڑھائوپر گرما گرم بحث جاری تھی۔ہر دفعہ کی طرح آج بھی اسکرین پر زیادہ تر کرکٹ کے بارے میں تبصرے موجود تھے۔ شکست کے بعد کرکٹ بورڈپر تنقید کے نشتر برسائے جارہے تھے۔تو کہیں عوام بوم بوم آفریدی کرتی تو کہیں ان کو مطعون کرتی نظر آرہی تھی۔ہر ایک کے جملوں سے یہ عیاں ہورہا تھا کہ جیسے کوئی عظیم سانحہ رونما ہوگیا ہے۔مگر چونکہ اللہ نے اس فتنے سے محفوظ رکھا ہوا ہے۔اس لیے کوئی زیادہ پریشانی نہ ہوئی۔اچانک اسکرین پرایک ویڈیو نمودار ہوئی
جس کا عنوان کچھ یوں تھا
’’این المسلمون؟‘‘
(کہ مسلمان کہاں ہیں؟)کرسر کی حرکت رک گئی اور میں دیکھنے لگا کہ آخر اس ویڈیو میں وہ کیا ہے جس کی وجہ سے امت مسلمہ کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔ویڈیو کا آغاز ہوا ،تقریباً1منٹ 19سیکنڈ کی ویڈیو تھی۔
وہ تین افراد تھے،ہاتھوں میں گنیں تھیں۔ہاتھوں میں گنیں تھامیں ،پسٹل پر انگلی رکھے،بیرل کا رخ سامنے کیے کسی غریب کے آشیانے کی جانب بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ناجانے کون غریب ان کے زیر عتاب آنے والا تھا۔گھرکا دروازہ کھلا تھا۔اچانک ایک سپاہی کی کے منہ سے باہر نکلنے کے احکامات صادر ہوئے،آواز سے خون ٹپک رہا تھا۔کچھ ہی دیر میں وہ گھر کے دروازے پر پہنچ گئے اور زور زور سے چلا کر اہل خانہ کو گھر سے باہر نکلنے کا کہہ رہے تھے۔ایک گن مین نے اپنی گن کا بیرل اندر کیا ،اہل خانہ تھر تھر کانپ اٹھے۔پھر خودایک قدم داخل ہو کر وہ چلایا اور اہل خانہ کو باہر نکلنے کا کہا۔گھر میں موجود معصوم سی کلیا ں اور بچے سہم گئے۔ان احکامات کے صادر ہوتے ہی اہل خانہ کا سرپرست باہر نکلا۔ان ظالموں نے دونوں ہاتھ اٹھانے کا کہا اور سب اہل خانہ کو باہر نکلنے کا حکم دیا۔وہ اور اس کا جوان سال بیٹا گھر کاکفیل تھا۔چہرے پر خوف و دہشت کے اثرات تھے۔سب اہل خانہ کا دل خوف سے پسیج گیا تھا ،ناجانے اب کیا ہونے والا ہے؟وہ باہر نکلا اس کے ساتھ ہی اس کی جیون ساتھی اور جوان سالہ بیٹا بھی باہر نکلا۔ان کے ساتھ پانچ سالہ معصوم سی گڑیا اور تین ،چار سالہ ننھے ننھے پھول کہ جن کی پڑھنے لکھنے کی عمر تھی وہ بھی ہاتھ فضا میں بلند کیے ہوئے باہر نکلے۔گویا ان سب سے کوئی بہت بڑا جرم سرزد ہوگیا تھا۔بچے خوف سے سہم چکے تھے گویا انہیں سانپ سونگھ گیا ہو۔گھر سے دور انہیں ایک قطار میں کھڑا کر دیا گیا۔وہ معصوم سی پانچ سالہ گڑیا کہ جن کا دل موم سا ہوتا ہے کا چہرہ تو خوف سے لال ہورہا تھا۔ وہ اپنی اہل خانہ کی بے بسی پرزاروقطار روئے جارہی تھی۔
ہاں ہاں!وہ بچیاں جن کے بارے میں میرے نبی علیہ الرحمۃ نے فرمایا تھا کہ یہ رحمت ہیں،گھر کی زینت ہیں۔والدین کی خدمت گزار اوردکھ درد میں تڑپ اٹھنے والیاں ہیں۔میرے نبی علیہ السلام کو جب دعوت کے راستے میں تکلیفیں دی گئیں اور ستایا گیاتوآپ کی لاڈلی بیٹی سیدہ فاطمہ الزھرہ رضی اللہ عنہانے اپنے بابا کا ہر وقت ساتھ دیا۔مکہ میں جب بیت اللہ میں میرے نبی علیہ الرحمۃ سجدے میں گئے اور دشمنان اسلام و مسلمان نے آپ پراونٹ کی اوجھری ڈال دی۔شدید بوجھ کی وجہ سے آپ مسلسل سجدے میں پڑے ہیں۔کسی نے سیدہ فاطمہ الزھرہ رضی اللہ عنہاکو بتلایا کہ بیت اللہ میں آپ کے بابا کے ساتھ ان ظالموں نے یہ حال کیا ہے ،سنتے ہی کانپ اٹھتی ہیں، قدم ہیں کہ بے اختیار بیت اللہ کی طرف دوڑتے چلے آرہے ہیں۔جب وہاں پہنچتی ہیں تو کیا منظر دیکھا کہ مشرک شیاطین ایک طرف کھڑے قہقہے لگا رہے ہیں اور سیدہ فاطمہ الزھرہ رضی اللہ عنہاکے بابا اوجھری تلے دبے پڑے ہیں،یہ منظر دیکھتے ہی سیدہ فاطمہ الزھرہ رضی اللہ عنہاکا کلیجہ کانپ اٹھا۔ننھی سیدہ فاطمہ الزھرہ رضی اللہ عنہامکمل زور لگا کر اپنے باباکی کمر سے اوجھڑی اتارتی چلی جاتی ہیں اور ان خبیثوں کو ان کی اس حرکت پر کوستی چلی جاتی ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ احد کے روزمیدانِ جہاد میں میرے پیارے نبی کے چہرہ اقدس پرایک مشرک نے اس زور سے تلوار ماری کہ خود کی کڑیاں آپ کے چہرے میں دھنس گئیں۔جب وہ نکالی گئیں تو خون بہنے لگا۔توسیدہ فاطمہ الزھرہ رضی اللہ عنہااپنے بابا کے اس زخم کو دھوتی جارہی ہیں اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس میں راکھ بھرتے چلے جارہے ہیں۔وہ بھی سیدہ فاطمہ الزھرہ رضی اللہ عنہا تھی اورآج یہ بھی امت محمد کی گمنام بیٹی فاطمہ ہے۔فوجی گنیں تانے کھڑے ہیں اور بے بس ولاچارگڑیاآنکھوں پر ضبط نہ رکھ سکی اور آنسوئوں کی جھڑیاں مسلسل بہتی چلی جارہی ہیں۔
یہ منظر دیکھتے ہی میرے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا اورآنکھوں سے آنسوئوں کا سیلِ رواں بہہ نکلا۔میں سوچنے لگا کہ امت مسلمہ کے نوجوانوں کو کس طرح فضول کاموں اور کھیلوں میں لگا کریہ خبیث الفطرت یہودوہنود اورنصاریٰ امت مسلمہ کی عزتوں کو تارتار کررہے ہیں۔یہ غریب خاندان کوئی اور نہیں بلکہ فلسطینی خاندان تھا اوروہ فوجی اسرائیلی درندے تھے۔جنہوں نے آج بھی یہ ظلم رواں رکھا ہوا ہے۔اس طرح کے حالات صرف ایک خاندان کے نہیں بلکہ پورافلسطین،مقبوضہ وجموں کشمیر،برما اور ہر جگہ جہاں امت مسلمہ کمزورہے ان کی حالت یہی ہے۔مگرافسوس درافسوس!میڈیا کے نام نہاد مداری وعوام کوسانپ تماشے کے کھیل کی مانند اندھا کیے ہوئے ہیں۔اس ظلم کو دنیا کی نظروں کے سامنے لانا تو گویا ان کی ذمہ داری میں شامل ہی نہیں۔یہ توبھلا ہو سوشل سائٹس کا اس طرح کے ظلم کے کچھ مناظر اہل دنیا کی آنکھوں تک پہنچ جاتے ہیں مگر پاکستان کے نام نہاد میڈیا چینلز،اخبارات وجرائد،نیوزایجنسیز جو ایسی خبروں کہ جن میں ان کے آقائوں کے خلاف کوئی بات ہواگرچہ اس میں اسلام و اہل پاکستان کی بدنامی ہی ہو اس کو ضرور کمرشلائز کرتے ہیں اور اس کی خوب تشہیر کی جاتی ہے۔مگر امت مسلمہ کے رستے زخم اور بہتے خون کونذرانداز کردیا جاتا ہے۔
میں جب اپنے گریبان میں جھانکتا ہوں تو مجھے بھی نظرآتا ہے کہ اس جرم میں برابر کا شریک ہوں کیونکہ میں اس ملک کا باسی ہوں جس کا میڈیا غیروں کی چاہتوں پر پلتا، بڑھتا اورچلتا ہے۔گھرکو آگ لگی گھر کے چراغ سے ،امت مسلمہ کوزخم پرزخم لگ رہے ہیں مگرمجھے میچ ،ہولی،میوزیکل شوز،فلم انڈسٹریز،ڈرامے،سیاست،اوررنگا رنگ مناظر میڈیا پر دیکھنے کے لیے ملتے ہیں۔تاکہ کہیں میری نظران مناظر پر نہ چلی جائے جس سے میری ایمانی و اسلامی غیرت جاگ اٹھے۔میرے ضمیر کو مردہ بنایا جارہا ہے ،مگر مجھے احساس تک نہیں۔مجھے شرمین عبیدچنائے کا آسکر ایوارڈ تو دکھایا جاتا ہے،مگر وہ جوان بہنیں جن کی عزتوں کو تارتار کیا جارہا ان سے بے خبر رکھا جاتا ہے۔مجھے کرکٹ دکھانے کا تو باقاعدہ اہتمام کیا جاتا ہے مگر جو کرکٹ یہودوہنود اورنصاریٰ امت مسلمہ کے سروں اوراپنی گنوں سے کھیل رہے ہیں اس سے بے خبر رکھا جاتا ہے کیونکہ میری غیرت نہ جاگ اٹھے۔مجھے یہ تو دکھایا جاتا ہے کہ ناموس رسالت کاقانون کالا ہے اس سے بے گناہ لوگوں کوسزا دی جاتی ہے مگراس سے بے خبررکھا جاتا ہے کہ امت مسلمہ کاخون بہہ رہا ہے۔ ناموس رسالت کی دھجیا ں بکھیری جارہی ہیں۔ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم بنانے والے میڈیا، ویلڈن میڈیا کے نمائندوویلڈن تمہیں اللہ کے سامنے پیش نہیں ہونا اور نہ ہی تمہیں حساب کتاب دینا ہے۔اس لیے تو تمہیں کوئی فکر ہی نہیں کہ تم کیا کرتے جا رہے ہو۔ٹھیک ہے جو تم کررہے ہو کرتے رہو۔مگر اس ذات، وقت اورجگہ کو بھی یاد رکھو۔یقینا ایک ذات ایسی بھی ہے جسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند۔ جس کے دربار میں صرف انصاف ہوتا ہے۔جہاں حق وسچ کی فتح اورجیت ہوتی ہے۔جہاں جھوٹ اوردغابازی کرنے والا ذلیل ورسواہوتا ہے اورمخلص کامیاب وکامران ہوجاتا ہے۔جہاں مظلوم کی دعا پہنچنے میں کوئی رکاوٹ نہیں بنتی بلکہ ساتوں آسمان چیرتی ہوئی مظلوم کی دعا اس عرش معلیٰ پر مستوی رب کے حضور پہنچ جاتی ہے جو سب کچھ دیکھ رہا ہے اور اپنے بندوں برابر بھی غافل نہیں۔
میں جب اپنے گریبان میں جھانکتا ہوں تو مجھے بھی نظرآتا ہے کہ اس جرم میں برابر کا شریک ہوں کیونکہ میں اس ملک کا باسی ہوں جس کا میڈیا غیروں کی چاہتوں پر پلتا، بڑھتا اورچلتا ہے۔گھرکو آگ لگی گھر کے چراغ سے ،امت مسلمہ کوزخم پرزخم لگ رہے ہیں مگرمجھے میچ ،ہولی،میوزیکل شوز،فلم انڈسٹریز،ڈرامے،سیاست،اوررنگا رنگ مناظر میڈیا پر دیکھنے کے لیے ملتے ہیں۔تاکہ کہیں میری نظران مناظر پر نہ چلی جائے جس سے میری ایمانی و اسلامی غیرت جاگ اٹھے۔میرے ضمیر کو مردہ بنایا جارہا ہے ،مگر مجھے احساس تک نہیں۔مجھے شرمین عبیدچنائے کا آسکر ایوارڈ تو دکھایا جاتا ہے،مگر وہ جوان بہنیں جن کی عزتوں کو تارتار کیا جارہا ان سے بے خبر رکھا جاتا ہے۔مجھے کرکٹ دکھانے کا تو باقاعدہ اہتمام کیا جاتا ہے مگر جو کرکٹ یہودوہنود اورنصاریٰ امت مسلمہ کے سروں اوراپنی گنوں سے کھیل رہے ہیں اس سے بے خبر رکھا جاتا ہے کیونکہ میری غیرت نہ جاگ اٹھے۔مجھے یہ تو دکھایا جاتا ہے کہ ناموس رسالت کاقانون کالا ہے اس سے بے گناہ لوگوں کوسزا دی جاتی ہے مگراس سے بے خبررکھا جاتا ہے کہ امت مسلمہ کاخون بہہ رہا ہے۔ ناموس رسالت کی دھجیا ں بکھیری جارہی ہیں۔ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم بنانے والے میڈیا، ویلڈن میڈیا کے نمائندوویلڈن تمہیں اللہ کے سامنے پیش نہیں ہونا اور نہ ہی تمہیں حساب کتاب دینا ہے۔اس لیے تو تمہیں کوئی فکر ہی نہیں کہ تم کیا کرتے جا رہے ہو۔ٹھیک ہے جو تم کررہے ہو کرتے رہو۔مگر اس ذات، وقت اورجگہ کو بھی یاد رکھو۔یقینا ایک ذات ایسی بھی ہے جسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند۔ جس کے دربار میں صرف انصاف ہوتا ہے۔جہاں حق وسچ کی فتح اورجیت ہوتی ہے۔جہاں جھوٹ اوردغابازی کرنے والا ذلیل ورسواہوتا ہے اورمخلص کامیاب وکامران ہوجاتا ہے۔جہاں مظلوم کی دعا پہنچنے میں کوئی رکاوٹ نہیں بنتی بلکہ ساتوں آسمان چیرتی ہوئی مظلوم کی دعا اس عرش معلیٰ پر مستوی رب کے حضور پہنچ جاتی ہے جو سب کچھ دیکھ رہا ہے اور اپنے بندوں برابر بھی غافل نہیں۔
تحریر:حبیب اللہ
ای میل:8939478@gmail.com
No comments:
Post a Comment