Thursday 12 January 2017

آخرت کا منظر

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

تحریر: حبیب اللہ جامعہ الدراسات الاسلامیہ کراچی

رابطہ:Email:8939478@gmail.com Fb:ha8939478@gmail.com

آخرت کا منظر

علم کی محفل سجی ہوئی تھی۔ دنیا کا سب سے عظیم معلم اور شاگرد، اس کے سامنے براجمان تھے۔ ایسے عظیم شاگرد کہ اوراقِ تا ریخ پر جن کی مثال کا ملنا مشکل ہے۔ شاگرد اپنے استاد کے علم کے سمندر سے جام نوش فرما رہے تھے۔ اپنے استاد کے سامنے اس ادب سے بیٹھے تھے جیسے ان کے سروں پر پرندے ہیں کے جو معمولی سی حرکت سے ہی اڑ جائیں گے۔ یہ مثالی استاد ہمارے پیارے نبی جنابِ محمد ﷺ کی ذاتِ مبارکہ تھی۔ اور آپ کے سامنے زانوئے تلمذ کیے بیٹھے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے۔

اس عظیم محفل میں آخرت کا تذکرہ چل نکلا۔ جنت کا تذکرہ ہوا جب اس کی نعمتوں کا ذکر شروع ہوا تو اس میں انعامات، راحتوں اور لذتوں کا سن کر تمام صحابہ کرام انتہائی خوش ہوتے رہے۔ پھر جہنم کا تذکرہ چھڑ گیا۔ نبی مکرم ﷺ کی زبان مبارکہ سے یہ الفاظ نکلے: 
”اے میرے صحابہ سنو!“ تمام صحابہ متوجہ ہو جاتے ہیں۔ آپ ﷺ بات کو آگے بڑھاتے ہوئے فرماتے ہیں: ”روزِ قیامت! جب سخت گرمی میں میدانِ محشر سجا ہوگا۔ سورج ایک میل کے فاصلے پر ہوگا۔ لوگ گناہوں کی وجہ سے پسینے میں شرابور ہوں گے۔ گرمی کی شدت کی وجہ سے جان نکلتی محسوس ہوگی مگر نکلے گی نہیں۔ رب کریم فرمائے گا: ”اے آدم“ پس وہ کہیں گے: ”جی رب کریم! میں حاضر ہوں، میں تیرا فرمان سننے کے لیے تیار کھڑا ہوں، بے شک ساری بھلائیوں کا تو ہی مالک ہے۔“ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ”یہ جو لوگو ںکا ٹھاٹھیں مارتا سمندر میدان محشر میں کھڑا ہے ان میں سے جنتیوں اور جہنمیوں کو علیحدہ کرو۔“ تو آدم علیہ السلام پوچھیں گے: ”اے میرے رب تو بڑا ہی عظیم ہے تمام باتوں کا علم صرف تیرے ہی پاس ہے۔ مجھے بتائیں لوگوں کے اس سمندر میں سے جنتیوں اور جہنمیوں کو کیسے الگ کروں؟ کتنے لوگ جنت کے لیے اور کتنے جہنم کے لیے علیحدہ کروں؟“ تو اللہ رب العالمین فرمائے گا: ”اے آدم! ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے جہنم کے لیے اور ایک جنت کے لئے علیحدہ کرو۔“ اللہ رب العالمین کی جانب سے جیسے ہی یہ حکم وارد ہو گا خوف کے مارے بچے بوڑھیں ہو جائیں گے۔ اللہ کے عذاب کے خوف سے لوگ اپنے عزیز و اقرباءکو بھول جائیں گے۔“
 صحابہ کرام نے جیسے ہی یہ سنا خوف کے مارے چیخیں نکل گئیں۔ دھاڑیں مار کر رونے لگے۔ آنکھوں سے آنسوﺅں کا سیلِ رواں بہہ پڑا۔ یہ سوال کرنے لگے: ”اے اللہ کے رسولﷺ ہمیں بتائیں ہم سے کون سا خوش نصیب ہوگا جو ان ہزار میںجنت میں داخل ہوگا۔“ جب مہربان و مشفق نبی نے اپنے صحابہ کے چہرے پر، پریشانی کے آثار دیکھے تو فرمایا: ”اے میرے صحابہ غم نہ کرو خوش ہو جاﺅ۔ وہ جو نوسو ننانوے علیحدہ کیے جائیں گے وہ یاجوج ماجوج میںسے ہی پورے ہو جائیں گے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جنت کا نصف تم ہی ہو۔ صحابہ کرام نے جیسے ہی یہ سنا ساری پریشانی ختم ہوگئی اور چہرہ خوشی سے ٹمٹمانے لگا۔ انہوں نے جوش میں آکر اللہ اکبر کا بلند نعرہ لگایا۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے اصحاب کو متوجہ کرتے ہوئے فرمایا: ”اے میرے صحابہ! تم سابقہ تمام امتوں میں سے تعداد میں ایسے ہو جیسے سفید بیل کے جسم پر ایک کالا بال یا کالے بیل کے جسم پر ایک سفید بال۔ صحابہ کرام اس قدر قلیل تھے مگر جنت میں جانے والوں کی اکثریت امت محمدیہ کی ہے۔ تو یہ کون لوگ ہوں گے؟ دراصل پیارے نبی ﷺ اپنے ساتھیوں کو یہ سمجھانا چاہ رہے تھے کہ تمہارے بعد جو لوگ آئیں گے اور ان راہوں کا انتخاب کریں گے جن سے تم گزر چکے ہو اورتمہاری پیروی کریں گے۔ تو ان کا ٹھکانہ بھی جنت ہوگی۔
آج ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ ہم بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت کے دعوے دار ہیں۔ کیا ہم ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں یا ہم نے کسی اور کا راستہ اپنا لیا ہے؟ کہیں ہم اپنی چاہتوں پر تو عمل پیرا نہیں ہو رہے۔ یہ دیکھنا اورمحاسبہ کرنا ہے کہ جس جنت کی خوشخبری رسول اللہ ﷺ نے اپنے ساتھیوں کو دی تھی ہم بھی اس خوشخبری کے مستحق بننے کی کوشش کر رہے ہیں یا نہیں؟

No comments:

Post a Comment