Wednesday 18 January 2017

عزت مسلم کا دفاع

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

عزت مسلم کا دفاع

گاڑی تسلسل کے ساتھ منزل کی جانب رواں دواں تھی۔راستے میں مقرر شدہ مقامات پر رک کر سواریوں کو اتارنے اور چڑھانے کے بعد آگے ہی آگے بڑھتی جا رہی تھی۔تمام نشستیں مسافروں سے پر تھیں۔کچھ مسافر منزل کے انتظار میں کھڑے سفر کاٹ رہے تھے۔اچانک گاڑی رکی اورایک ضعیف العمر شخص گاڑی پر سوار ہوا۔شکل وصورت سے وہ غیر مسلم لگ رہا تھا۔ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ اچانک کسی نے اس کے ہاتھ کو پکڑا گویا وہ اسے اپنی طرف مخاطب کرنا چاہ رہا تھا۔وہ جب اس جانب متوجہ ہوئے تو ایک گبھرو نوجوان اسے یہ کہتاہوا کھڑا ہوچکا تھا کہ:’’ آپ یہاںبیٹھ جائیں‘‘ ۔میں کھڑے ہوکر ہی سفر طے کر لونگا ۔پہلے توانکار ہوا لیکن آخر کار اس بزرگ کو ہار ماننا پڑی اور وہ اس نشست پر بیٹھ گئے۔
یقینا اسلام ہی ایسا عظیم دین ہے جوکہ جس نے اہل اسلام کو زندگی گزارنے کے اتنے عمدہ اصول سکھلائے ہیں۔اسلام کے روشن فرامین میں سے یہ بھی ہے کہ وہ شخص ہم میں سے نہیں جو بڑوں کا احترام نہیں کرتا اور چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا‘‘(الحدیث)کسی کی عزت نفس کا خیال رکھنا ناصرف اس کے دل میں آپ کی قدرو قیمت کو بڑھا دیتاہے اس کے ساتھ ساتھ اسلام سے متاثر کرنے میں معاون و مددگارثابت ہوتا ہے۔انسانیت کے ناطے سے ہر کسی کا ادب کرنا مسلمانوں کا اولین فریضہ ہے۔جب تک کہسامنے والا اسلام کو حقیر جانتے ہوئے اس پر انگلیاں اٹھائے یا اسلام مخالف کوئی اقدام کرے تو اسلام اس کے خلاف کچھ اقدامات کرنے کی اجازت دیتا ہے مگر ہمارا موضوع وہ نہیں ۔اس کائنات میں  کسی بھی انسان کے نزدیک عزت نفس بڑھ کر کوئی شے قیمتی نہیں ہوتی ۔عزت کے معاملے پر بڑے بڑے واقعات رونما پذیرہوتے ہیں۔معاملہ زبانی کلامی سے بڑھتا ہوا ہاتھا پائی تک جا پہنچتا ہے۔کبھی کبھار تو اس سے اگلا قدم بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔نوبت قتل وغارت تک جا پہنچتی ہے۔اس سب کی بنیادی وجہ عزت نفس ہے۔
اس وقت چونکہ معاشرہ کی اکثریت دنیا کی طرف مائل ہو کر آسمانی دین سے غافل ہو چکی ہے۔اس لیے معمولی معمولی مسائل پر دوسرے کی عزت کو اس طرح اچھا لا جاتا ہے کہ جیسے اس کے ساتھ برسوں سے دشمنی ہو۔اسی پر ہی بس نہیں بلکہ اس کی مزید تشہیر کرکے اس کو ذلیل و رسواکرنے کی قسم کھا لی جاتی ہے۔اس کی قدرو منزلت مسخ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہ معاملہ سم قاتل کی مانند مسلم معاشرہ کی رگ و پہ میں سرایت کرچکا ہے۔ایسا کرنے والوں کو ناجانے اس وقت اللہ کا خوف کیوں محسوس نہیں ہوتا جب وہ اپنے مسلمان بھائی کی عزت کو خاک میں ملا رہے ہوتے ہیں۔اس کی آبرو پر حسدکے نشتر چلا کر اسے لوگوں کی نظروں میں نفرت کا ہدف  بنا رہے ہوتے ہیں۔اپنی قینچی سی زبانوں کو تیزی سے چلا کر اس کی عزت کو تارتار کر رہے ہوتے ہیں۔اپنے سیاہ دلوں کی کالک اس پر انڈیل رہ ہوتے ہیں۔اس کے مقام و مرتبہ کی تنقیص کرکے نا جانے ان کو کیا حاصل ہوجاتا ہے۔اگر اس قسم کی کوئی آہٹ سن بھی لیں تو پھر اس سلگتی چنگاری کو شعلوں میں تبدیل کرنے کی سعی میں مگن ہوجاتے ہیں۔گویا ان کو اسی طرح کے کالے کرتوتوں کے لیے اس کائنات کے اندر تخلیق کیا گیا ہے۔جو لوگ دوسروں کو اپنی اعضاء سے مشکلات سے دو چار کرتے ہیں وہ اللہ کے اس فرمان کو ذرا غور سے پڑھیں اور پھر اپنے انجام کی فکر کریں:’’یقینا روز قیامت کان،آنکھ اور دل کے متعلق ضرور بالضرور سوال کیا جائے گا۔‘‘(بنی اسرائیل:36)کہ کانوں سے کس قدر غلط باتیں سنی اور پھر دل میں کچھ سوچے سمجھے اور تحقیق کیے بغیر ان کو اپنی زبا ن سے معاشرے میں عام کردیا۔انہوں نے اپنے دل تک اس کو محدود نہ رکھا بلکہ اس کو لوگوں میں مشہور کرکے مسلم بھائی کوذلیل و رسوا کرکے دل میں سکون محسوس کیا۔
محترم قارئین!معززین کے مقام ومرتبے کا پاس رکھنا بھی اہم امور میں سے ہے۔اگر وہ مسلمان ہو تو پھر تو اس کی عزت کی حفاظت لازم ہو جاتی ہے۔ایک مسلمان ہونے کے ناطے سے ہمیں نبی کریم ﷺ کے اسوہ کو اپنانا چاہیے۔آئیے دیکھیں کہ ایسے اوقات میں آپ کی روشن سیرت سے ہمیں کیا نصیحتیں ملتی ہیں۔ایک دفعہ رسول کریم ﷺ اپنے ایک صحابی عتبان بن مالک کے گھر تشریف لے گئے۔آپ نے ان کے گھر میں نماز ادا کی جب لوگوں ک واطلاع ملی کہ سرور کائنات جناب محمد ﷺ تشریف لائے ہیں تو لوگ جمع ہونے لگ گئے یہاں تک کہ لوگوں کی بھیڑ ہونے لگی ۔بہت سے لوگ جمع ہو گئے۔مختلف امور پر باتیں ہونے لگیں۔آپ نے لوگوں کو دیکھاتو آپ ﷺ کو ایک شخص نظر نہ آیا ۔آپ نے فرمایا کہ:’’ مالک بن خشم کہاں ہے ؟وہ ہمیں نظر نہیں آ رہا ؟‘‘اتنے میں ان میں سے ایک شخص کی آواز ابھری:’’ اے اللہ کے رسول ﷺ! وہ تو منافق ہے ،اسے اللہ اور اس کے رسولﷺ سے کوئی محبت نہیں ہے ۔اس لیے تو یہاں حاضر نہیں ہوا ،حالانکہ یہاں سب کے سب حاضر ہیں ۔‘‘تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’ایسے مت کہوکیا تم نہیں دیکھتے کہ اس نے لا الہ الا اللہ کا اقرارا کیا ہے اور وہ اس کے ذریعے اللہ کی رضا چاہتا ہے۔بلاشبہ اللہ نے اس شخص کو آگ پر حرام قرار دیا ہے ۔ جس نے اللہ کی رضا مندی کی خاطر لا الہ الا اللہ کہا‘‘(مسلم:263) یہاں بھی مسئلہ عزت کا تھا۔اس شخص کی عزت پر یہ بات کہی گئی تو ہمارے پیارے رسولﷺ نے اس پر تنبیہ کر دی ۔تاکہ مسلم معاشرے کے افراد کے مابین اخوت و رواداری کا تعلق استوار رہے اور اس میں کسی قسم کا کوئی نقص نہ آنے پائے۔
  کسی کی عزت کا خیا ل رکھنا عظیم اعمال میں سے ہے ۔جیسا کہ نبی آخرالزماں جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’جس شخص نے اپنے بھا ئی کی عزت کا دفاع کیا تو اللہ تعالیٰ روز قیامت اس کے چہرے کو آگ سے محفوظ رکھے گا۔‘‘(رواہ الترمذی)معلوم ہوا کہ عزتوں کا خیا ل رکھنا ،مراتب کا لحاظ رکھنا فضیلت والے اعمال میں سے ہے ۔ایک حقیقی مسلمان کبھی بھی عزتوں کو نہیں اچھالتا اور نہ ہی بڑوں کی بے حرمتی کرتا ہے ۔بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے پیش آکرتعظیم کے پہلو کو تر جیح دیتا ہے ۔ اسی میں دنیا و آخرت کی بھلائی و فوزعظیم مضمر ہے ۔ 

تحریر: حبیب اللہ 
ای میل:8939478@gmail.com

No comments:

Post a Comment