تحریر:حبیب اللہ خان پاندہ
ای میل:8939478@gmail.com Fb:ha8939478@gmail.com
صحرا کا مسافر
وہ
بے آب و گیاہ صحرا تھا۔ نظروں کا رخ جدھر بھی اٹھتا تھا۔ ریت کے ٹیلے ہی ٹیلے
نظروں کا استقبال کرتے نظر آتے تھے۔ البتہ کہیں کہیں دور کوئی درخت، کانٹے دار
جھاڑیاں بھی دیکھنے کو مل جاتی تھیں۔ غرض کہ ہر طرف ہو کا عالم تھا۔ وسیع و عریض
صحرا میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ پرندوں کی گنگناہٹ اور چڑیوں کی چہچہاہٹ سننے کو
کان ترس رہے تھے۔ ماحول میں چاروں طرف سناٹا ہی سناٹا تھا۔ دور دور تک انسان تو
درکنار کوئی جانور بھی ڈھونڈے نہ مل پاتا تھا۔ ایک تو بے آباد اور ویران صحرا مزید
اوپر سے خاموشی نے اس ماحول کو وحشت ناک بنا دیا تھا۔ گویا کہ یہاں انسانوں کی
نہیں بلکہ ریت کے ٹیلوں، خاموشیوں اور سناٹوں کی حکومت تھی۔ ایسے لگ رہا تھا کہ یہ
جگہ اس زمین کا حصہ نہیں ہے کہ جس پر انسان بستے ہیں۔ جہاں پرندوں کی گنگناہٹ،
چڑیوں کی چہچہاہٹ، کوئل کی مستانہ آواز، ماحول کو معطر کیے ہوتے ہے۔ جہاں چھوٹے
چھوٹے پھول جیسے بچوں کی شرارتیں اور شور ماحول کو مہکائے ہوتا ہے۔ جہاں انسانیت
کا وجود پایا جاتا ہے۔ جس ماحول میں زندگی پر لطف وپر سکون ہوتی ہے۔ جہاں انسان
بستے ہیں۔