بسم اللہ الرحمن الرحیم
اندازِ محبت
(ویلنٹائن ڈے اور آج کے مسلمان)
محبت بندگی ہے جب اللہ تعالیٰ سے ہوجائے،محبت محض چاہت و دل لگی ہے جب اہلِ دنیا سے ہوجائے۔جسے محبت ہوجاتی ہے ،وہ اسے کامیابی و کامرانی کے تاج بھی پہناتی ہے اور نظروں سے بھی گراتی ہے۔جب محبت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے ہوجائے تو انسان کی دنیا وآخرت سنور جاتی ہے۔مگر جب یہی محبت اہل دنیا سے ہوجائے ،توانسان اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات سے غفلت کے پردوں میں چلا جاتا ہے۔تب یہ محبت خسارے کا باعث بنتی ہے۔انسان ایمان کا مزہ بھی تب ہی چکھ سکتا ہے جب اسے اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول ﷺ سے حقیقی معنی میں محبت ہو۔محبت کا وہ مقام کہ جس میں محبوب کی ہر ادا محب کے دل کو بھاتی ہے۔
محبوب کے حکم رد کرنا اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا،محبوب کی ہر بات پر محب عمل کرنا باعث سعادت سمجھتا ہے۔جب محبت کا یہ درجہ اللہ تعالیٰ سے ہوجائے تو یہ عین عبادت ہے۔کیونکہ اس کے بعد انسان کا اختیار اس کے پاس نہیں رہتا بلکہ انسان دنیا میں رہ کر بھی اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات کوقبول کررہا ہوتاہے۔اسے جب بھی علم ہوتا ہے کہ میرا یہ طرزِ عمل،قول وفعل،اندازواطواراللہ تعالیٰ کی منشاء وچاہت کے خلاف ہے ،انسان اسے ترک کرنا ہی سعادت کی بات سمجھتا ہے۔اسی طرح جب اسے کسی ایسے عمل کا علم ہوتا ہے کہ جس پر اس کا عمل نہیں تو وہ فوراً ہی عملی زندگی میں اس عمل کو اپنانے میں خوشی محسوس کرتا ہے،یہ بھی اندازِ محبت ہے۔انسان کاایمان انسان سے ایسی ہی محبت کا متقاضی ہے۔جس کے بعد مومن ہونے میں کوئی شک نہیں رہ جاتا۔مگرآج مسلمانوں کے اندازواطوار ،اقوال وافعال،طرق و اعمال دیکھ کر تو یہ شک گزرتا ہے کہ یہ مومن ہے بھی سہی یا نہیں۔کیونکہ اس کے اس طرزِ حیات سے اغیار کی بو آرہی ہوتی ہے۔اس کے قول و فعل اس بات کا متقاضی ہوتا ہے کہ اس کے رگ وپے میں اغیار کا خون دوڑ رہا ہے،اس کا کردارو گفتار کچھ اس ادا گواہی دے رہا ہوتا ہے کہ میں بھی ان سے کم نہیں ،گویا کہ وہ اس بات پر زور دے رہا ہوتا ہے کہ میںغلطی سے مسلمانوں کے گھر پیداہوگیا ،مجھے تو وہاں پیدا ہونا چاہیے تھا۔
اسی بارے میں علام مرحوم ارشاد فرماگئے تھے۔
وضع میں ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنودیہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
علامہ مرحوم کا یہ شعر ان سب کے منہ پر طمانچہ ہے کہ جو مسلمانوں کے گھر پیدا ہوکر اہلِ ہنودویہود اور نصاریٰ کی روش اختیار کیے ہوئے ہیں۔یہ لوگ اس بات کو اپنے لیے باعثِ افتخار گردانتے ہیں۔ان کی ساری کی ساری محبتیں ان کے لیے ہیں۔محبت کچھ چیزوں کی متقاضی ہے۔جس شخص کو اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول ﷺ سے محبت ہوجاتی ہے تو اس کے دل میں خودبخود کافروں کے مقابلے میں نفرت آجاتی ہے۔کیونکہ محبت چیز ہی ایسی ہے،ایسا نہیں کہ جن چیزوں سے محبت ہونی چاہیے ان سے محبت کے ساتھ ساتھ اس دل میں نفرت بھی موجود ہو۔ اگرآپ کسی سے محبت کرتے ہیں تواس کی غلطیاں بھی آپ کو غلط نہیں لگتیں بلکہ آپ انہیں بھی اس کی محبت میں اچھائیاں سمجھتے رہتے ہیں۔آج کے مسلمانوں خصوصاً نوجوان طبقے کی حالت کچھ ایسی ہی ڈگر پر گامزن ہے۔جب امت مسلمہ کے نوجوانوں کے ہیرویہودونصاریٰ اورہنود کے فلمی ایکٹر بن گئے تو ان کی تمام عادات واطوار ان کے لیے نمونہ ٹھہریں۔اب دل اس بات کا متقاضی ہوا کہ جس سے محبت ہے اس کے افکارو کردار کو اپنالو،اسے کے اقوال وافعال کو تہہ دل سے تسلیم کرلو۔ اپنی سوچ ونظریات کو اس کی سوچ ونظریات کے دھارے میں ڈھال دو۔کیونکہ محبت ہی اس چیز کی متقاضی ہے۔اس لیے معاشرے میں اس بات کاعموماً مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ جس طرح لچرلفنگے جیسافیشن اپناتے ہیں ان سے مرعوب نوجوان فوراً ہی اس میں ڈھلنے کی تگ و میں لگ جاتے ہیں۔ حقیقتاً ایسے نوجوان ذہنی گراوٹ وغلامی کا شکار ہوچکے ہیں۔یہ اقبال کے نوجوان نہیں ہیں کہ جن کے بارے میں علامہ مرحوم نے فرمایا تھا۔
ہے وہی جوان قبیلے کی آنکھ کا تاراکردار ہو جس کا بے داغ ضرب ہو کاری
کیونکہ ان کا کردارداغدار ہے،ان کی ضرب کند ہے،ان کی جوانیوں میں امت مسلمہ دگرگوں ہے،مگر انہیں ٹس سے مس نہیں۔یہ تو اغیار کی ہر رسم ورواج سینے سے چمٹائے چلے جارہے ہیں۔14فروری کو ویلنٹائن ڈے منایا جاتا ہے۔جو کہ سراسر بے حیائی کا دن ہے۔ایک طرف لبرلز کا اعتراض ہے کہ ایک سے زائد شادیاں نہ کی جائیں مگر دوغلی پالیسی یہ ہے کہ ایک غیر مرد کے ساتھ چار چار لڑکیاں گھومتی نظر آتی ہیں مگراس پر ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی بلکہ وہ اسے قابل فخر سمجھتے ہیں۔ان کے نزدیک یہی تو اندازِ مسلمانی ہے،اللہ تعالیٰ کا قرآن اور رسول مکرم کا فرمان پس پشت ڈال کراغیار کی سوچوں میں رچے بسے یہ رنگین مزاج مسلمان اسلام کے نام پر دھبہ ہیں۔ان کی وجہ سے اسلام بدنام ہورہاہے۔ویلنٹائن ڈے پر ایک غیر محرم لڑکا کسی غیر لڑکی سے تعلق جوڑتا ہے،اسے تحفے تحائف سے نوازتا ہے اور پھریہ تعلق اسکول،کالج، یونیورسٹی سے نکل کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ پھر بے حیائی فحاشی کی آخروں حدوں کو پار کرلیا جاتا ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کسی روڈ کنارے یا کچرے کے ڈھیر پر تھیلی میں لاوراث نومولود کی صورت میں ملتا ہے۔ اس پر کسی کوئی اعتراض نہیں ،اعتراض ہے تو چار شادیوں پر کہ جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے۔گویا کہ ان کا مالک اللہ نہیں بلکہ اغیار ہی ان کے خدا ہیں۔ان میں کچھ ایسے دوموئے بھی ہیں کی جنہیں جب یہ کہا جائے کہ تمہاری ماں ،بہن ، بیوی،بیٹی کے ساتھ کوئی ایسا کرے تو غصے میں آجائیں گے مگر دوسروں کی عزت پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے انہیں شرم نہیں آتی بلکہ بے شرمی کی تمام حدودوقیود کو پار کرتے چلے جاتے ہیں۔امت مسلہ میں بے حیائی پھیلانا انہیں اچھا لگتا ہے۔
ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ کا قرآن ارشاد فرما رہا ہے:’’ان الذین یحبون أن تشیع الفاحشۃ فی الذین آمنوا لھم عذاب ألیم فی الدنیا والآخرۃ(النور:۱۹)‘‘ ’’یقینا وہ لوگ جو اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں فحاشی عام ہوجائے ان کے لیے دنیا وآخرت میں تڑپا دینے والا عذاب تیار ہے۔‘‘توایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔آج مسلمانوں کی ذلت میں اس عمل کا بھی بہت زیادہ دخل ہے۔یہ فحاشی وبے حیائی تب جڑپکڑتی ہے جب انسان کے دل سے حیا چلا جائے اوروہ بے غیرت بن جائے۔ کیونکہ حیاء صفات ممدوحہ میں سے ایک ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’الحیاء والایمان قرناء جمیعا فاذا رفع أحدھما رفع الآخر‘‘(الحاکم۱/۲۲)حیاء اورایمان دونوں ایک ساتھ ہیں جب ان میں سے ایک چلا جائے تو دوسرا خود ہی چلا جاتا ہے۔‘‘اس لیے ایسے لوگوں کو اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے،جو حیاء کی چادر کو داغدار کرتے ہیں۔اسی طرح کسی غیر محرم کو چھونا بھی بہت بڑا جرم ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’لأن یطعن فی رأس أحدکم بمخیطٍ من حدیدٍ خیر لہ من أن یمس امرأۃ لاتحل لہ (سلسلۃ الصحیحہ للألبانی:۵۰۴۵) کہ تم میں سے کسی کے سرمیں لوہے کی کنگھی مار کر نوچ دیا جائے اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی غیر عورت کو چھوئے۔‘‘اس لیے عاشق مستانوں کو اللہ تعالیٰ کاخوف کرنا چاہیے اور اس عارضی لذت عشق کے بجائے حقیقی خوشی کے حصول کی تگ وکرنی چاہیے،کہ جو لذتِ لامتناہی ہے۔اگر ہم غیروں کی مشابہت میں رنگتے چلے گئے تو انجام بہت خطرناک ہوسکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’من تشبہ بقوم فھو منھم‘‘(ابوداود)’’ کہ جس نے کسی قوم کے اطواروانداز میں اپنے آپ کو رنگا وہ انہی میں سے ہے۔‘‘اس لیے ان عارضی چہروں کے بجائے اس حقیقی رب سے لو لگا لو تو دنیاوآخرت میں کامیابی وکامرانی قدم چومے گی اورجنت کی حوریں منتظر ہوں گی وگرنہ انجام بہت خطرناک ہوگا۔
تحریر:حبیب اللہ
رابطہ:8939478@gmail.com
پتہ:جامعہ الدراسات الاسلامیہ کراچی
No comments:
Post a Comment