بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
تمباکونوشی !
اسلامی و طبی اصولوں کے منافی عمل
عام لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ تمباکو نوشی حرا م نہیں مکروہ ہے اگر آپ کسی حقہ ،یا سگریٹ نو ش شخص سے کہیں کہ آپ تمبا کو نوشی کیوں کرتے ہیں ؟ تو انکا جوا ب آتا ہے کہ یہ کو نسا حرا م ہے ؟بعض لو گ یہ بھی کہتے ہیں کہ تمباکو نوشی کو حرام اور خلاف اسلام کہنا بے جا تشد د اور سختی ہے ۔بعض لو گ ان خیا لا ت کا اظہا ر بھی کرتے ہیں کہ تمبا کو نوشی میں کو نسی نقصا ن دہ چیز ہے؟یہ فقط دھواں اور ہوا ہے جو کش لگا نے کے بعد فضا میں چھو ڑ دی جا تی ہے ۔
بعض مفتیا ن یہ بے مثل فتو یٰ صا در فرماتے ہیں کہ! سگریٹ نویشی روزہ پر کسی طرح بھی نظر انداز نہیں ہو تی کیو نکہ اس سے نہ تو کھانے کی کو ئی چیز پیٹ میں دا خل ہو تی ہے اور نہ ہی پینے و الی کو ئی چیز حلق سے نیچے اترتی ہے۔
معز ز قا رئین:۔
تمباکو نوشی کے جرم اور اس کے نقصا نات سے عدم واقفیت کی بنا پر بہت سے لو گ اس بیما ری میںمبتلا نظر آتے ہیںاور مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ اسے مکروہ تصور کر تے ہیں اور دیدہ دلیری سے اس کا استعما ل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں یہ انتہا ئی قابل افسو س ہے کہ آئے روز یہ وبا عا م ہو تی چلی جا رہی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ امت مسلمہ کے بے شما ر افر اد جہا ں تمبا کو نوشی کی غلیظ عادت کو پو را کرنے کے لئے بہت بھا ری ما لیت صرف کر کے معیشت کو نقصا ن پہنچا رہے ہیں وہا ں اپنی صحت اور اسلا می معا شرے کی تباہی کابا عث بھی بن رہے ہیں۔ ہما را متفقہ نظر یہ ہے کہ تمبا کو نوشی حرام ہے ۔ اور خلا ف اسلام ہے اور اس کو مکروہ کہنا زبر دست غلطی ہے۔ اللہ تعا لیٰ نے قرآن مجید میں کئی مقا ما ت پر پا کیزہ اور طا ہر چیزیں کھا نے پینے کا حکم دیا ہے جبکہ نا پاک غلیظ اور گندی چیزوں کے نزدیک جا نے سے منع کیا ہے ۔ ایک مقام پر ارشا د ہے: یہ لو گ آپ سے پو چھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا چیزیں حلا ل کی گئیں ہیںان سے کہہ دیجئے کہ تمہا رے لئے پاکیزہ چیزیں حلا ل کی گئی ہیں ۔ (سورۃ ا لمائدۃ :۴)۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرما یا اور وہ (رسو ل اللہ ﷺ ) ان کے لئے پا کیزہ چیزیں حلال کرتا ہے اور خبیث (ردی )چیز یں حرام کرتا ہے ۔ (سورۃ الا عراف: ۱۵۷)۔
تمباکو نوشی اس لیے حرام ہے کہ تمباکو خبیث اور انتہا ئی بد بو دار چیز ہے ۔کیونکہ اس سے اٹھنے والی غلیظ اور متعفن بد بو تمبا کو نوش حضرا ت کو محسوس ہو یانہ ہو مگر ان کے ارد گرد بیٹھے لوگ اس سے زبردست متاثر ہو تے ہیں اور پو را ماحو ل بدبو دار ہو جا تا ہے ۔ اسی لیے سرور کونین ﷺ نے بعض بدبو دار کچی تر کا ریا ں کھا کر مسجد آنے سے منع فرما یا ہے ، ارشا د نبوی ﷺ ہے : جس کسی نے تھو م یا پیاز کھا یا ہو وہ ہم سے دور رہے یا ہماری مسجد وں کے قریب نہ آئے اور اسے چاہیٔے کہ اپنے گھروں میں ہی رہے( یعنی جب تک منہ سے بدبو آ تی رہے تب تک وہ مسجد میں نہ آئے اور نمازوں سے دور رہے) تمبا کو نوشی اس لیے بھی حرام ہے کہ دو سروں کے لئے اذیت اور تکلیف کا با عث بھی ہے ۔ ارشاد نبی ﷺ ہے : مسلما ن وہ ہے جس کے ہا تھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفو ظ رہیں(الحدیث)۔
تمبا کو نوشی کرنے والا ہر وقت دھو ئیں کے مر غولے اڑا کر لو گو ں کی نا ک میں دم کیے رکھتا ہے۔اور ان کے لئے اذیت کا باعث بنتا ہے جو کسی بھی لحاظ سے جا ئز نہیں ۔نبی کریم ﷺ نے فر ما یا : مسلمان کو تکلیف مت دو(الحدیث)۔ ایک اور مقا م پر فرما یا: فرشتو ں کو بھی اس چیز سے تکلیف پہنچتی ہے جس سے انسان تکلیف محسوس کرتا ہے(الحدیث) ۔
تمباکو نوشی فضو ل خرچی ہے۔ اس وجہ سے حرام ہے کہ اللہ تعا لیٰ نے فضول خرچی سے منع فرما یا ۔ ارشاد با ری تعالیٰ ہے : اور بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھا ئی ہیں اورشیطان اپنے رب کا نا فرمان ہے(سورۃ اسرا ء: ۲۷)۔
تمباکو نو شی اس لیے بھی حرام ہے کہ یہ صحت ،بدن ،عقل ،دین اور معاشرے کے لیے نقصا ن ہے ۔ ارشا د با ری تعا لیٰ ہے : اور اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈا لو (سورۃ البقرۃ:۱۹۵)۔ اور فرمایا اپنی جا نوں کو قتل مت کرو بے شک اللہ تعالیٰ تمھا رے ساتھ انتہا ئی رحم کرنے والا ہے (سورۃ النساء :۵۹)۔ اللہ تعا لیٰ فرما تا ہے : اور میرے بر گزیدہ بندے فضول کا موں سے منہ پھیر لیتے ہیں (سورۃ المو منون: ۳)۔ اور فرما یا نبی کریم ﷺ نے انسان کا بہترین اسلام یہ ہے کہ وہ لا یعنی فضو ل کاموں کو چھوڑ دے(الحدیث)۔
تمباکو نو شی موت کی سیڑھی ہے اور خود کشی کے مترادف ہے اور خود کشی حرام ہے ۔تمبا کو نو شی کے ذریعے انسان دھیرے دھیرے موت کے شکنجے میں پھنستا چلا جا تا ہے تمباکو نوشی فضول کا م ہے اور فضول کا م کے قریب نہیں جا نا چا ہیے ۔
اللہ تعا لیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں سیدھے راستے کی طرف ہدایت نصیب فرمائے اللہ پاک ہمیں حلا ل اور طیب چیز کھا نے پینے اور غلیظ و نا پاک چیزوں سے دوررہنے کی تو فیق عطا فرما ئے آمین ۔
با قا عدہ تفصیل کے لیے کتابچہ( تمبا کو نو شی کی شرعی حیثیت) ملا حفظہ فرما ئیں ۔
تحریر:عبداللہ شاہین
متعلم جا معہ الدراسات الاسلا میہ ۔ کراچی
No comments:
Post a Comment