Monday 27 February 2017

موجودہ سودی نظام سے کیسے نجات پائی جا سکتی ہے؟


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

موجودہ سودی نظام سے کیسے نجات پائی جا سکتی ہے؟

سب سے پہلے ہم بات کریں گے کہ سود کیا ہوتا ہے اور قرآن و سنت میں سود کے بارے میں کیا وعیدات آئی ہیں۔
سود کیا ہے؟
سود کو عربی زبان میں رِبَا کہتے ہیں۔عربی زبان میں رِبَا زیادت،بڑھوتری اوراضافہ کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے۔قرآن کریم میں بیع یعنی تجارت کو حلال اور رِبَا یعنی سود کو حرام قرار دیا گیا ہے جیسا کہ سورہ البقرۃ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’إِنَّمَا الْبَیْْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللّہُ الْبَیْْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا‘‘

دل کی اصلاح کیجئے


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

دل کی اصلاح کیجئے

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ محمدؐ کی بعثت ایک عظیم مقصد کے لئے ہوئی تھی اور وہ مقصد’’اصلاح‘‘ تھا۔ معاشرو ں کی اصلاح، عبادات و معاملات کی اصلاح، عقائد و نظریات کی اصلاح، دل و دماغ کی اصلاح، انفرادی و اجتماعی زندگی کی اصلاح، ظاہری و باطنی اصلاح، اور ان تمام اصلاحی مقاصد میں جو بنیادی مقصد ہے وہ  اصلاح ِقلب ہے، چونکہ دل انسانی جسم میں ایک بادشاہ کی حیثیت رکھتا ہے اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس کی اصلاح کو پورے جسم کی سلامتی قرار دیا ہے ، فرمایا:’’آگاہ ہوجاؤ !بے شک (انسانی ) جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ایسا ہے جو اگر سلامت رہے تو سارے کا سارا جسم سلا مت رہتا ہے اور اگر یہ ٹکڑا فاسد ہوجائے توسارے کا سارا جسم فساد کا شکار ہوجا تا ہے ،آگاہ ہوجاؤ! وہ دل ہے۔‘‘

اخلاق حسنہ


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اخلاق حسنہ

اس دنیاکہ اندر بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ جن کی اتباع کرنا قابل رشک سمجھی جاتی ہے۔مگر کچھ ایسی ہستیاں بھی ہیں جن کی اتباع کرنا ناصرف دنیا میں کامیابی کی ضمانت فراہم کرتی ہے بلکہ آخرت بھی سنبھل جاتی ہے۔ان میں ایک عظیم ہستی جناب محمد ﷺ کی ہے۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو رسول اللہ ﷺکے سیرت کی روشنی میں گزاریں۔یعنی آپ کی زندگی کو اسوہ حسنہ سمجھ کر زندگی کے تمام معاملات کو اس کے مطابق ڈھال لیں۔چاہے وہ عبادات سے متعلق ہوں یا معاملات ہوں ۔آپ ﷺ کا اخلاق نہایت ہی اعلیٰ و ارفع تھا۔آپ کی مکمل زندگی اخلاص حسنہ کا عمدہ نمونہ ہے۔

تمباکونوشی !


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

تمباکونوشی !

اسلامی و طبی اصولوں کے منافی عمل 

عام لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ تمباکو نوشی حرا م نہیں مکروہ ہے اگر آپ کسی حقہ ،یا سگریٹ نو ش شخص سے کہیں کہ آپ تمبا کو نوشی کیوں کرتے ہیں ؟ تو انکا جوا ب آتا ہے کہ یہ کو نسا حرا م ہے ؟بعض لو گ یہ بھی کہتے ہیں کہ تمباکو نوشی کو حرام اور خلاف اسلام کہنا بے جا تشد د اور سختی ہے ۔بعض لو گ ان خیا لا ت کا اظہا ر بھی کرتے ہیں کہ تمبا کو نوشی میں کو نسی نقصا ن دہ چیز ہے؟یہ فقط دھواں اور ہوا ہے جو کش لگا نے کے بعد فضا میں چھو ڑ دی جا تی ہے ۔

Saturday 11 February 2017

اندازِ محبت(ویلنٹائن ڈے اور آج کے مسلمان)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اندازِ محبت

(ویلنٹائن ڈے اور آج کے مسلمان)

محبت بندگی ہے جب اللہ تعالیٰ سے ہوجائے،محبت محض چاہت و دل لگی ہے جب اہلِ دنیا سے ہوجائے۔جسے محبت ہوجاتی ہے ،وہ اسے کامیابی و کامرانی کے تاج بھی پہناتی ہے اور نظروں سے بھی گراتی ہے۔جب محبت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے ہوجائے تو انسان کی دنیا وآخرت سنور جاتی ہے۔مگر جب یہی محبت اہل دنیا سے ہوجائے ،توانسان اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات سے غفلت کے پردوں میں چلا جاتا ہے۔تب یہ محبت خسارے کا باعث بنتی ہے۔انسان ایمان کا مزہ بھی تب ہی چکھ سکتا ہے جب اسے اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول ﷺ سے حقیقی معنی میں محبت ہو۔محبت کا وہ مقام کہ جس میں محبوب کی ہر ادا محب کے دل کو بھاتی ہے۔

Thursday 9 February 2017

ویلنٹائن ڈے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ویلنٹائن ڈے

جوانیاں برباد کرنے کا تہوار

نوجوان کسی بھی معاشرے کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔جوانی میں عزم جواں ہوتے  ہیں اور انسان ہر کٹھن کا عزم مصمم سے دفاع کرنے کے قابل ہوتا ہے۔عموماً معاشروں کی ترقی اور انہیں ترقی یافتہ اقوام کی صفوں میں لاکھڑا کرنے میں نوجوان طبقہ اہم کردار کا حامل ہوتا ہے۔جس معاشرے کے نوجوان اپنی قدرو منزلت کو پہچان لیں اوراپنے کردار کے ذریعے معاشرہ کو سدھارنے کی ٹھان لیں تو وہ معاشرہ بہت جلدکامیابی و کامرانی کے زینے عبور کر لیتا ہے۔مگر شرط یہ ہے کی نوجوان اپنی جوانی کھپا دیں۔

Monday 6 February 2017

زبان کو سنبھالیے،وگرنہ!

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

زبان کو سنبھالیے،وگرنہ!

پاگل .....یہ لفظ سنتے ہی عجیب قسم کی تصوراتی صورت انسان کے ذہن میں ابھر آتی ہے ۔پراگندہ بال،خاک آلود چہرہ،پھٹے پرانے کپڑے،دنیا سے الگ تھلگ،اپنی مستی میں مست،جدھرمنہ ہوا ،ادھر چل دیا۔جسے نہ اپنی پرواہ،نہ دنیاکی فکر،نہ بنائو سنگھارکی چاہت،نہ فیشن میں دلچسپی،غرض کہ اس کی اپنی الگ دنیا ہی بسی ہوئی ہے۔معاشرے میں جب کسی کو پاگل کہا جائے تویہی چہرہ ابھر کر سامنے آتا ہے۔مگر جب اس شخص پر نظر پڑتی ہے جس پر یہ جملہ کسا گیا ہوتا ہے۔ تو نظر آتا ہے کہ وہ تو صحیح سلامت شخص ہے۔ جو اسی معاشرے کا حصہ ہے۔جو اپنی الگ تھلگ دنیا نہیں بلکہ اسی معاشر ے کا ایک فرد ہے۔

امیدوں کی دنیا کے شہہ سوار

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

امیدوں کی دنیا کے شہہ سوار

    محفل پورے زوروشور پر تھی۔سامعین ہمہ تن گوش متکلم کی جانب مکمل توجہ کیے ہوئے تھے۔کسی کو علم نہ تھا کہ ان کے اردگرد بھی کچھ ہورہا ہے۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی نگاہیں مخاطب کے چہرے سے ہٹیں اور کوئی قیمتی نصیحت ان سے رہ جائے۔اب سامنے بیٹھے مبلغ نے تین شاخیں اٹھائیں اورپہلی شاخ کو ایک جگہ گاڑھ دیا ۔’’اس کا مطلب کیا ہوسکتا ہے؟‘‘سب کی سوچوں کا محور زمین میں گاڑھی گئی شاخ بن گئی۔ سب اپنے تئیں اپنی، اپنی سوچ کے مطابق مختلف اندازے لگا رہے تھے۔’’چلو خیر اس کا مطلب ابھی تھوڑی دیر میں معلوم ہوجائے گا۔‘‘یہ سوچ کر ہر ایک سابقہ حالت پر لوٹ آیا۔اب مبلغ نے تھوڑا آگے چل کے دوسری شاخ اسی پہلے والی کی سیدھ میں کچھ دور گاڑھ دی اور پھراس سے مزید کچھ دور تیسری بھی دونوں کی سیدھ میں گاڑھ کراپنے مخاطبین کی طرف متوجہ ہوا۔