Tuesday 30 May 2017

بغاوت


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بغاوت
اس نے پوچھا:’’بغاوت کیا ہے؟‘‘ جواب ملا:’’سرکشی، دنگا، فساد،خون خرابہ، لڑائی‘‘اس نے پوچھا:’’انسان باغی کب بنتا ہے؟‘‘ جواب ملا: جب حقوق غصب کیے جاتے ہیں۔ جب مزدورکو پسینہ بہانے کے باوجود مزدوری نہیں ملتی۔ جب محنت کش کی محنت رائیگاں چلی جاتی ہے۔ جب کمزور کی کمزوری سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ جب امراء نشہ دولت میں مگن ہوکردنیا کی چمک دمک میں لگ جاتے ہیں۔ جب اہل عقل و ارباب کی عقل کا محور دولت ہوتی ہے۔
جب مال کی چکاچوندیاں انسان کو اندھے کردیتی ہیں۔جب اولاد کی رگوں میں والدین کے بجائے مال کی محبت خون میں گردش کرنے لگتی ہے ۔ جب حرام پیسہ انسان کے خون میں گردش کرنے لگتا ہے۔ جب اہل عقل ودانش کی عقلوں پر زر کی چھاپ لگا کران کے اذہان کوداغدار کردیا جاتا ہے۔جب محنت و مشقت کرنے والوں کا گزران مشکل ہوجاتا ہے۔ جب مزدور کو دیہاڑی ملنا بند ہوجاتی ہے۔ جب غریب دھوپ کی سخت گرمی کی جھونپڑیوں میں اورامیرٹھنڈ کے بنگلوں میں رہائش اختیار کیے ہوتا ہے۔جب مفادات بدل جاتے ہیں۔ جب سوچوں کے دھارے یکساں نہیں رہتے۔
 جب فکروتدبرمیں خلل واقع ہوجاتا ہے۔ جب اہل خرد حق بیان کرنے سے گھبر ا تے ہیں۔ جب حق بولنے والے کی زبان پر ظلم کے تالے ڈال دیئے جاتے ہیں۔ جب مال کی دھمال میں انسان بدمست ہوجاتے ہیں۔ جب پیسہ سے انسانوں کو خرید کر لوگوں کے اذہان کوبدلہ جاتا ہے۔ جب خزانے کے ڈھیر فضول بہائے جاتے ہیں۔ جب خزانے پر سانپوں کا بسیرا ہوتا ہے۔ جب ظلم وستم کی آندھیوں کے جھکڑغرباء کو اپنے لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ جب مساکین مصائب کے پہاڑکے بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔جب اپنی مفادات کے لیے سب کوقربان کردیا جاتا ہے۔ جب سوچیں انفرادی ہوجاتی ہیں اوراجتماعی فوائد کو پس پشت ڈال دیا جاتاہے۔جب امیر کا مامورین اورمامورین کا امیر پر سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ جب حکمران ہی رعایا کے حقوق دینے کے بجائے غاصب بن جاتے ہیں۔ جب گلی کی نکڑ پرکھڑا ، ایک معصوم سا بچہ اپنے ہاتھ پھیلائے زندگی کی بھیک مانگ رہا ہوتا ہے۔ جب کسی کے جگر کے ٹکڑے کی لاش بھوک کی وجہ سے گھر سے نکلتی ہے۔ جب پھولوں سی معصوم کلیاں باپ کے آنسو پونچھ پونچھ کر اپنا ننھا سا دپٹہ تر کرلیتی ہیں۔ جب معصوم سے لال خوشیوں کوترس جاتے ہیں۔ جب ظلم وستم کے گھنے بادل غریبوں کے آنگن کو گھیر لیتے ہیں۔ جب غریب کے بچے تو راتوں کو روتے ہیں، مگر امیرشہر اپنے اہل وعیال کے ساتھ شاداں وفرحاں نیند کے آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ 
جب غربت کے اندھیر بادلوں نے صرف غرباء کو ڈھانپا ہوتا ہے۔ جب امراء امیرسے امیرتراورغرباء غریب سے غریب تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جب غریبوں کی غربت ان کے فن کا مذاق اڑاتی ہے اورامیروں کے عیوب ان کی دولت کے انبار میں گم ہوجاتے ہیں۔جب حق کے حصول کے لیے بھی رشوتوں کے بازار گرم ہوتے ہیں۔ جب مظلوم کی غربت اسے ظالم اور ظالم کی دولت اسے مظلوم کے مرتبے پر فائز کردیتی ہے۔ جب چہار سو ناانصافی کی اندھیر نگری ہوتی ہے اورانصاف کا نام ونشان مٹ جاتا ہے۔جب انصاف کاعلم بلند کرنے والا مجرم اورناانصافی کاداعی محسن قرار پاتاہے۔ جب ناانصافی کے ہاتھوں انصاف کا خون ہوتا ہے اورجرم کے ہاتھوں عدل کا جنازہ اٹھتا ہے۔ جب امیرشہر دولت کوڈھال بنائے ہوئے جرم کرکے بھی سزا سے ممنون و محفوظ رہتے ہیں۔ 
تب بغاوت کھڑی ہوتی ہے، سرکشی سراٹھاتی ہے، رعایا حکمرانوں کے خلاف کھڑی ہوجاتی ہے،حقوق کی طلب میں خون بہتا ہے اور انقلاب برپا ہوتے ہیں۔
کہا:’’بغاوت کو کیسے کچلا جاتا ہے؟‘‘ جواب ملاـ:’’عدل وانصاف کے تقاضے پورے کرکے،حقوق کی ادائیگی کے ساتھ، حکمرانوں کے عمدہ رویوں کے ساتھ، عوام پر اپنا اعتماد بحال کرنے کے ساتھ، اپنے نکھرے اوراجلے اخلاق وکردار کے ساتھ،سب طبقوں میں قانون کی پاسداری کے ساتھ، مخلص اورصاف ستھرے کارکنان کے ساتھ،رشوت کی چور بازاری ختم کرکے، سود کی لعنت ختم کرکے، عدل کا دامن تھام کے، عصبیت کی موذی لعنت کو ترک کرکے، بغیر کسی تفریق کے مجرموں کو کٹہروں میں لاکر، کمزور کا حق ظالم سے دلوا کر، غریب کوامیر کی ناانصافی سے بچا کر، حکمرانوں کی سادگی کے ساتھ، کہا:’’حکمرانوں کی سادگی کی مثال بھی کوئی مل سکتی ہے؟‘‘جواب ملا:’’ضرور مل سکتی ہے؟‘‘ کہا:’’بتائیے‘‘ جواب ملا:’’اس کائنات کی سب سے افضل اورعظیم ترین ہستی میرے حضور ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اپنے جوتے گانٹھے،اپنے کپڑوں کو پیوند لگایا، گھر میں دو دو مہینے چولہا نہیں جلا،
کبھی پیٹ بھر کو کھانا نہیں کھایا، کبھی مستقل پسے آٹے کی روٹی نہیں کھائی،گھر کے کاموں میں گھروالوں کا ہاتھ بٹایا، مزدوروں کے ساتھ مل کرمزدوری کی، محنت کشوں کے ساتھ مل کر محنت کی، کبھی کسی پر حد سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے اور آپ کے عظیم ترین شاگردوں میں آدھی دنیا کی حکمرانی کرنے والے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سر کے نیچے کنکریوں کاتکیہ بنائے سورہے ہیں، بیت المقدس کی فتح کے وقت فلسطین جاتے ہیں ،ساتھ ایک ہی اونٹ اورغلام ہے ،تو داخلے وقت اونٹ پر غلام سوار ہے اور آدھی دنیا کا حقیقی خادم پیدل سفر کررہا ہے۔ ان کے نقش قدم پر چلنے والے اورنازونعم اور عیش وعشرت کی زندگی میں پلنے والے عمربن عبدالعزیز بھی جنہیں تاریخ عمرثانی کے نام سے جانتی ہے،انہیں جب امت کی خدمت کے لیے منتخب کیا جاتا ہے تو نازونعم کی زندگی کا خول اتار پھینکا۔ان کی زندگی کا ایک واقعہ جو کتب احادیث میں مذکور ہے کہ انہوں نے ابوسلام حبشی کو بلوایا، وہ جلدی سے دوسرے علاقے سے ان کے پاس آئے۔ کہا:’’میں نے سنا ہے کہ تم اللہ کے رسول ﷺ کے غلام حضرت ثوبان سے حوض کوثر کے بارے میں ایک حدیث بیان کرتے ہو ۔ کہا:’’جی ! میں بیان کرتا ہوں‘‘ کہا:’’کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا:’’میرے حوض عدن سے لے کر ایلہ تک (مسافت تک طویل )ہے۔وہ دودھ سے زیادہ سفیداور شہد سے زیادہ میٹھا ہے۔اس کے پیالے آسمان کے ستاروں کی تعداد کی طرح بے شمار ہیں۔جوایک بار اس سے پانی پی لے گا، اسے اس کے بعد کبھی پیاس نہیں لگے گی۔حوض پر میرے پاس سب سے پہلے وہ غریب مہاجر آئیں گے جن کے کپڑے میلے اورسرپراگندہ ہوں گے۔ جو نازونعمت میں پلی ہوئی عورتوں سے نکاح نہیں کرتے اوران کے لیے(ان کی غربت واجنبیت کی وجہ سے)دروازے نہیں کھولے جاتے۔ حضرت عمربن عبدالعزیز رحمۃ اللہ یہ سن کرزاروقطار سسکیاں لے لے کر رونے لگے حتیٰ کہ ان کی داڑھی آنسوئوں سے تر ہوگئی ،پھر فرمانے لگے۔لیکن میں نے تونازونعمت والی عورتوں سے نکاح کیا ہے اور میرے لیے دروازے کھولے گئے۔اب کے بعد ضرور یہ ہوگا کہ میں پہنے ہوئے کپڑے اس وقت نہیں دھوئوں گا جب تک کہ میلے نہ ہوجائیں۔ اورسر میں تیل نہیں ڈالوں گا جب تک بال بکھر نہ جائیں۔‘‘(سنن ابن ماجہ:4303)
کہا!اس طرح بغاوت کو کچلا جاتا ہے اورامن کا سورج طلوع ہوتا ہے، جب حاکم وقت کٹہرے میں کھڑاہوکراپنے خلاف مقدمے کا جواب دے رہا ہوتا ہے۔ اسے اس سے کوئی عار اورپریشانی نہیں ہوتی اوراپنے خلاف مقدمہ آنے پر بھی وہ عدل کا دامن تھامے رکھتا ہے۔ تب جاکر برکتوں کانزول ہوتا ہے، عوام کے دلوں میں اس کی محبت سما جاتی ہے، اس کے لیے رحمت وبرکت کی دعائیں نکلتی ہیں، اس کے لیے ضعیف اورکمزورہاتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے بلند ہوتے ہیں۔

تحریر:حبیب اللہ 
رابطہ:8939478@gmail.com

مدرس جامعہ الدراسات الاسلامیہ کراچی

No comments:

Post a Comment