Sunday 26 March 2017

عبادات میں انتہاپسندی کے نقصانات


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

عبادات میں انتہاپسندی کے نقصانات

اسلام دین فطرت ہے اوراللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ دین ہے۔اس کی بنیاد کلمہ طیبہ پر رکھی گئی ہے۔دین اسلام میں جتنے بھی اوامر ونواہی کاانسان کو مکلف بنایا گیا ہے ان میں اعتدال کو پسندکیاگیا ہے۔اعتدال کے ساتھ اس امت کو امتیاز حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کا تذکرہ کرتے ہوئے جو الفاظ استعمال کیے وہ کچھ یوں ہیں :
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا (البقرة:143)
’’امۃ وسطا‘‘ کہ یہ معتدل (بہترین )امت ہے۔لغت کی کتاب ’’القاموس الوحید‘‘میں ’’وسطا ‘‘کے معانی کچھ یوں مذکور ہیں’’ہر معتدل و متوسط شے،عدل وانصاف،منتخب وبہتر ‘‘ اسی طرح لغت کی کتاب المنجد میں بھی اس کے معانیٰ کچھ یوں مذکور ہیں’’الوسط،معتدل مثلاً کہا جاتا ہے 

’’شَئیٌ وَسَطٌ ‘‘
یعنی عمدہ اورردی چیز کے درمیانی چیز‘‘ اورلغت کی باقی کتب میں بھی اس لفظ کے معنیٰ یہی کیا گیا ہے۔گویا اللہ تعالیٰ نے اس امت کی صفت بیان کی کہ یہ امت نہ تو بے جا زیادہ سختی کرنے والی ہے اورنہ ہی بے جا حد سے زیادہ نرم رویہ اختیار کرنے والی ہے۔مثلاً جہاں اسلام نے انسانیت کی تکریم کادرس دیا ہے اورایک انسان کا ناحق خون بہانے کو گویا ساری انسانیت کا قتل قراردیا ہے، وہیں کائنات کے اوپربوجھ بنے انسانوں کوراستے سے ہٹانے کو بھی لازم جانا ہے۔اسلام کی سلامتی کی راہ میں روڑے اٹکانے والوں کوہرطرح سے ہٹانے کا حکم دیا ہے حتیٰ کہ اس وجہ سے ان کا خون بھی بہاناپڑے تواسے قابل تحسین جانا ہے۔یہاں تک کہ فرمادیا:
’’وَلْیَجِدُوْا فِیْکُمْ غِلْظَۃٌ‘‘
’’کہ وہ تم میں سختی محسوس کریں۔‘‘(التوبۃ:123)کہ انہیں ایساسبق سکھائو کہ وہ تمہیں شدت پسند کہنے پرمجبور ہوجائیں۔لیکن یہ اس وقت ہے جب معرکہ کفرواسلام کے درمیان ہو۔
بعض لوگ مختلف امور میں سختی اورشدت کے قائل ہیں اورایسا کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو بھی اس کی ترغیب دیتے ہیں۔جولوگ ان کے اس عمل پر عمل پیرااہونے کی بجائے بیزار ہوں ،ان کی نظروں میں ان کی کوئی حیثیت و وقعت نہیں ہوتی۔وہ انہیں اپنے تئیں حقیر گردانتے اوران سے حقارت سے پیش آتے ہیں۔دین اسلام میں تمام امور میں اعتدال کو مدنظر رکھا گیا ہے چاہے ان امور کا تعلق حقوق اللہ سے ہو یا وہ بندوں سے متعلقہ حقوق سے متصل ہوں۔اسلام نے جہاں شدت پسندی کو اچھا سمجھا ہے وہاں شدت پسندی کو بہت برا بھی گردانا ہے کیونکہ بعض معاملات میں شدت پسندی کی وجہ سے انسان معاشرے کے لیے ناسور بن جاتا ہے اوراس کے اس نظریے کی بنیاد پر معاشرے کی چونکیں ہل جاتی ہیں۔ذیل میں اسی پر چندامور کے بارے میں پڑھیں گے کہ کس طرح ان میں بعض مسلمانوں کی طرف سے بے جا سختی کی جاتی ہے اوراسلام اس معاملے میں کس طرف کی رہنمائی کرتا نظرآتا ہے۔

انسان پر کچھ عبادات کی ادائیگی فرض کی گئی ہے مگراس میں بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کوصرف اس قدر مکلف بنایا ہے جس قدراس میں استطاعت ہے۔استطاعت سے باہر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں۔کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے
 ’’لایکلف اللہ نفسا الا وسعھا‘‘
’’کہ اللہ تعالیٰ کسی جان کو تکلیف نہیں مگراس کی گنجائش کے مطابق ‘‘(البقرۃ:286)اس لیے انسان اس قدر نیکی کرنے کا مکلف ہے جتنی اس میں استطاعت ہو۔اب جوانسان اپنی طاقت سے زیادہ نیکی ادا کرنے پرتل جائے اوراس حدکوعبورکرنے کی تگ ودو میں مگن ہوجائے جو صاحب شریعت نے مقرر کی ہے،نتیجتاً وہ کہیں اورجا نکلتا ہے۔پھر یہی نیکی اس کے لیے سبب خسارہ بن جاتی ہے۔دین کے تمام احکام میں اللہ کے رسول ﷺ اورآپ کے صحابہ کا عمل حجت ہے،جو ان پاکباز ہستیوں کے طریق پر گامزن ہوکراس پر استقامت دکھائے گا دنیاوآخرت میں فلاح پائے گا۔مگراس طریق سے کنارہ کش ہوکراپنے وضع کردہ طرق کی پابندی کرنے والاخسارہ اٹھائے گا۔کیونکہ انہی کی طرح ایمان وعمل قابل قبول ہے۔انہی کو اللہ تعالیٰ بطور نمونہ پیش کرتے ہوئے فرمایا:
’’فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا‘‘
 کہ اگر وہ لوگ تم سا ایمان لائیں گے تو یقیناراہ راست پر رہیں گے۔(البقرۃ:137)اس لیے انہی کی وضع کردہ حدودوقیود پر عمل میں فلاح و نجات کا راز مضمر ہے۔ان کے طریقے سے ہٹنے والاہو یا ان سے آگے بڑھنے والا ہرگزاس زعم میں مبتلا نہ ہو کہ وہ اسلام پرعمل پیرا ہے۔ بلکہ اسے اپنے ایمان وعمل کی اصلاح کی طرف توجہ دینی ہوگی۔جس طرح باقی تمام امور میں ان پاکباز ہستیوں کی پیروی ہوگی توعبادات کے معاملے میں توانہیں خصوصی اہمیت دی جائے گی۔وہ اس لیے کے ان کی عبادات کی اصلاح بذاتِ خود جناب محمدﷺ نے کی۔اس لیے جب تاریخ کے اوراق کو کھنگالاجائے تو بے شمارایسے واقعات ملیں گے جن میں پیغمبراسلام جناب محمدﷺ اپنے پیارے صحابہ کی اصلاح کرتے نظرآئیں گے۔ان کوعبادات کے معاملے میں راہ اعتدال اپنانے کے تگ ودو میں مگن نظرآئیں گے اورشدت پسندی سے بچنے کی تلقین کرتے نظرآئیں گے۔ذیل میں ہم اس موضوع پرصحابہ کرام رضوان للہ علیہم اجمعین کے چندواقعات پرنظرِغائرڈال کرسبق حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو عبادات میں سبقت لے جانے کا بہت زیادہ شوق تھا۔ حتیٰ کہ وہ اس بات کے اشتیاق مند تھے کہ ان کا کوئی لمحہ اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہ گزرے۔ اس لیے وہ عبادات کی کثرت میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے ۔مگرانہی میں سے جب بعض نے ان حدود کو عبورکرنے کی کوشش کی کہ جن سے آگے بڑھنا منع تھا توصاحب شریعت نے ان کی اصلاح فرما دی اورانہیں اس پر تنبیہ کردی۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں مروی ہے:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَنْكَحَنِي أَبِي امْرَأَةً ذَاتَ حَسَبٍ فَكَانَ يَتَعَاهَدُ كَنَّتَهُ فَيَسْأَلُهَا عَنْ بَعْلِهَا فَتَقُولُ نِعْمَ الرَّجُلُ مِنْ رَجُلٍ لَمْ يَطَأْ لَنَا فِرَاشًا وَلَمْ يُفَتِّشْ لَنَا كَنَفًا مُنْذُ أَتَيْنَاهُ فَلَمَّا طَالَ ذَلِكَ عَلَيْهِ ذَكَرَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ الْقَنِي بِهِ فَلَقِيتُهُ بَعْدُ فَقَالَ كَيْفَ تَصُومُ قَالَ كُلَّ يَوْمٍ قَالَ وَكَيْفَ تَخْتِمُ قَالَ كُلَّ لَيْلَةٍ قَالَ صُمْ فِي كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةً وَاقْرَإِ الْقُرْآنَ فِي كُلِّ شَهْرٍ قَالَ قُلْتُ أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ قَالَ صُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فِي الْجُمُعَةِ قُلْتُ أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ قَالَ أَفْطِرْ يَوْمَيْنِ وَصُمْ يَوْمًا قَالَ قُلْتُ أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ قَالَ صُمْ أَفْضَلَ الصَّوْمِ صَوْمَ دَاوُدَ صِيَامَ يَوْمٍ وَإِفْطَارَ يَوْمٍ وَاقْرَأْ فِي كُلِّ سَبْعِ لَيَالٍ مَرَّةً فَلَيْتَنِي قَبِلْتُ رُخْصَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَاكَ أَنِّي كَبِرْتُ وَضَعُفْتُ فَكَانَ يَقْرَأُ عَلَى بَعْضِ أَهْلِهِ السُّبْعَ مِنْ الْقُرْآنِ بِالنَّهَارِ وَالَّذِي يَقْرَؤُهُ يَعْرِضُهُ مِنْ النَّهَارِ لِيَكُونَ أَخَفَّ عَلَيْهِ بِاللَّيْلِ وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَتَقَوَّى أَفْطَرَ أَيَّامًا وَأَحْصَى وَصَامَ مِثْلَهُنَّ كَرَاهِيَةَ أَنْ يَتْرُكَ شَيْئًا فَارَقَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ وَقَالَ بَعْضُهُمْ فِي ثَلَاثٍ وَفِي خَمْسٍ وَأَكْثَرُهُمْ عَلَى سَبْعٍ
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ فرماتے ہیں کہ:’’ میرے والد نے میرانکاح ایک شریف خاندان کی عورت سے کردیا تھااوراس سے بارباران کے شوہر کے متعلق پوچھتے رہتے تھے۔میری بیوی کہتی کہ بہت اچھا مرد ہے۔البتہ جب سے میں اس کے نکاح میں آئی ہوں انہوں نے ہمارے بستر پر قدم نہیں رکھا نہ ہی میری کپڑوں میں ہاتھ ڈالا۔جب بہت دن اسی حالت میں گزرگئے تووالد صاحب نے یہی بات نبی کریم ﷺ کے سامنے رکھی۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ انہیں مجھ سے ملوائو۔چنانچہ اس کے بعد میں آپ ﷺ سے ملاتوآپ نے پوچھا کہ:’’روزہ کس طرح رکھتے ہو؟‘‘میں نے کہا:’’روزانہ‘‘پوچھا کہ:’’ قرآن مجید کیسے ختم کرتے ہو۔‘‘کہا:’’ہررات‘‘اس پرآپ ﷺ نے فرمایا کہ:’’مہینے میں تین دن روزے رکھو اورمہینے میں ایک بارقرآن ختم کرو‘‘میں نے کہا’’یارسول اللہﷺ!مجھ میں اس سے زیادہ کی استطاعت ہے‘‘فرمایا:’’ہفتے میں تین دن روزہ رکھو‘‘فرمایا:’’پھر فرمایا:’’کہ دودن چھوڑکرروزہ رکھو‘‘کہا کہ :’’مجھ میں اس سے زیادہ کی استطاعت ہے‘‘ فرمایا:’’پھردائود علیہ السلام کے روزوں کی ترتیب پسندیدہ ہے اس لیے اس ترتیب سے روزے رکھو وہ یہ کہ ایک دن روزہ ایک دن افطار‘‘اورقرآن ہفتے میں ختم کرو‘‘(صحیح البخاری:5052) بعض روایات میں ہے کہ کم ازکم تین دن میں یاپانچ دن میں قرآن ختم کرواس سے کم میں نہیں۔
تواس روایت سے حاصل ہونے والے اسباق میں سے کچھ یہ بھی ہیں کہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ اس قدرعبادت پر حریص تھے کہ شادی کے بعد بھی حقوق الزوجین پر عبادت کو ترجیح دی۔لیکن رسول اللہ ﷺ نے انہیں بلاکرسمجھایا اوران کے اس عمل کی تحسین کرنے کے بجائے اس سے باز آنے کا حکم دیا۔بلکہ عبادت کوخاص حد میں رکھنے کا حکم دیاتاکہ جہاں حقوق اللہ پورے ہوں وہاں حقوق العباد بھی اداہوتے رہیں۔اس کے ساتھ ساتھ عبادت کے معاملے میں جس انتہاپسندی سے کام لیا جارہا ہے اس کو کم کرنا مقصود تھا۔اسی طرح عبادت میں حدودکوکراس کرنے اورغلو کرکے پاکبازہستی کے طریقے سے ہٹ کرعمل کرنے پرآپ نے اپنے ساتھیوں پرکسی حد تک سختی سے کام بھی لیا۔جیسا کہ ذیل میں دیا جارہاہے کہ
عن أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ جَاءَ ثَلَاثَةُ رَهْطٍ إِلَى بُيُوتِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُونَ عَنْ عِبَادَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا أُخْبِرُوا كَأَنَّهُمْ تَقَالُّوهَا فَقَالُوا وَأَيْنَ نَحْنُ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ قَالَ أَحَدُهُمْ أَمَّا أَنَا فَإِنِّي أُصَلِّي اللَّيْلَ أَبَدًا وَقَالَ آخَرُ أَنَا أَصُومُ الدَّهْرَ وَلَا أُفْطِرُ وَقَالَ آخَرُ أَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَاءَ فَلَا أَتَزَوَّجُ أَبَدًا فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ فَقَالَ أَنْتُمْ الَّذِينَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي (صحيح البخاري:5063)
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:’’ تین صحابہ رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات کی طرف نبی کریم ﷺ کی عبادات کے متعلق پوچھنے کے لیے آئے،جب انہیں نبی کریم ﷺ کاعمل بتلایا گیا توجیسے انہوں نے اسے کم سمجھااورکہا کہ ہماراحضورﷺ سے کیا مقابلہ!آپ کی تمام اگلی پچھلی لغزشیں معاف کردی گئی ہیں۔ان میں سے ایک نے کہا کہ:’’آج سے میں ہمیشہ رات بھر نماز پڑھا کروں گا‘‘ دوسراکہنے لگا کہ:’’میں ہمیشہ روزے سے رہوں گا اورکبھی ناغہ نہیں کروں گا‘‘تیسراکہنے لگا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیارکرلوں گااور کبھی نکاح نہیں کروں گا۔جب نبی کریم ﷺ(کو یہ بتلایا گیااورآپ) تشریف لائے ۔ان سے پوچھا :’’کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں؟‘‘جب انہوں نے تصدیق کی تو آپ ﷺ نے کہا:’’سن لو!اللہ کی قسم میں تم میں اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ ڈرنے والاہوں اورمیں تم میں سب سے زیادہ پرہیز گارہوںلیکن پھر بھی میں روزے بھی رکھتا ہوں اورافطار بھی کرتا ہوں۔ رات میں نماز پڑھتا بھی ہوں اورسوتا بھی ہوں۔میں عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں تو جس نے میرے طریقے سے بے رغبتی کی اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔‘‘(صحیح بخاری:5063)
اس حدیث کے الفاظ پر غور کیا جائے توواضح معلوم ہوگا کہ جب آپ کو ان کی دین میں انتہا پسندی و غلو کا علم ہوا توان سے تصدیق کروانے کے بعد واضح طور پرانہیں پیغام دیا کہ میں تو یہ کام کرتا ہوں ،جن کے چھوڑنے کاتم نے عزم ظاہر کیا ہے۔پھر انہیں واضح طور پر یہ پیغام دے دیا کہ جو میرے طریقے سے روگردانی کرکے یہ کام نہیں کرے گا بلکہ انتہا پسندی کی راہ اپنائے گا تواس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ اسی طرح اس طرح صحابہ کرام بھی آپس میں جب ایک دوسرے میں انتہا پسندی کامعاملہ دیکھتے تواس کی اصلاح کی کوشش کرتے تھے جیسا کہ ذیل میں اسی پر نص دی جارہی ہے۔
عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ آخَى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بَيْنَ سَلْمَانَ وَأَبِي الدَّرْدَاءِ فَزَارَ سَلْمَانُ أَبَا الدَّرْدَاءِ فَرَأَى أُمَّ الدَّرْدَاءِ مُتَبَذِّلَةً : فَقَالَ لَهَامَاشَأْنُكِ ؟ قَالَتْ : أَخُوكَ أَبُو الدَّرْدَاءِ لَيْسَ لَهُ حَاجَةٌ فِي الدُّنْيَا ،  فَجَاءَ أَبُو الدَّرْدَاءِ فَصَنَعَ لَهُ طَعَامًا ، فَقَالَ : كُلْ قَالَ : فَإِنِّي صَائِمٌ ، قَالَ مَا أَنَا بِآكِلٍ حَتَّى تَأْكُلَ ، قَالَ فَأَكَلَ  فَلَمَّا كَانَ اللَّيْلُ ذَهَبَ أَبُو الدَّرْدَاءِ يَقُومُ ، قَالَ نَمْ فَنَامَ ثُمَّ ذَهَبَ يَقُومُ فَقَالَ نَمْ فَلَمَّا كَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ ، قَالَ سَلْمَانُ قُمِ الْآنَ ، فَصَلَّيَا فَقَالَ لَهُ سَلْمَانُ : " إِنَّ لِرَبِّكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَلِأَهْلِكَ عَلَيْكَ حَقًّا فَأَعْطِ كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ " فَأَتَى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم صَدَقَ سَلْمَانُ ) البخاري- الفتح 4 (1968)
 حضرت وھب بن عبداﷲ رضی الله عنہ کہتے ہیں : ” رسول اﷲ صلی الله عليہ وسلم  نے حضرت سلمان فارسی اور حضرت ابو الدرداء رضی الله عنہما کو بھائی بھائی بنایا ، حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ ، حضرت ابو الدرداء رضی الله عنہ کے گھر گئے ، تو حضرت ام الدرداء رضی الله عنہ کو پراگندہ حال دیکھ کر پوچھا : یہ کیا حال بنا رکھا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ تمہارے بھائی ابو الدرداء رضی الله عنہ کو دنیا سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ اتنے میں حضرت ابو الدرداء رضی الله عنہ بھی آگئے ، حضرت ابوالدرداء رضی الله عنہ نے ان کے لیے کھانا بنایا اور انہیں کھانے کی دعوت دی، حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ نے ابو الدرداء  رضی الله عنہ کوبھی کھانے پربلایا توانہوں نے کہا: میں روزے سے ہوں ۔ حضرت سلمان فارسی  رضی الله عنہ نے کہا : میں اس وقت تک نہیں کھاؤں گا جب تک کہ آپ نہ کھائیں ۔ انہوں نے ( نفلی روزہ توڑکر ) ان کے ساتھ کھانا کھایا ۔ جب رات ہوئی توحضرت ابو الدرداء  رضی الله عنہ نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو حضرت سلمان فارسی رض رضی الله عنہ نے کہا ” سوجاؤ“ ۔ وہ سوگئے ۔ تھوڑی دیر بعد نماز کے لیے پھر کھڑے ہوئے تو انہیں ڈانٹا کہ سوجاؤ ، وہ سوگئے ۔ رات کے آخری حصے میں حضرت ابو الدرداء رضی الله عنہ کو جگایا اور کہا : اب اٹھو ، پھر دونوں نے اٹھ کر نماز پڑھی ، پھر حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ نے حضرت ابو الدرداء رضی الله عنہ کو سمجھاتے ہوئے کہا : ”تم پر تمہارے رب کا حق ہے ، تمہاری جان کا بھی حق ہے ،تمہارے اہل وعیال کا بھی حق ہے ، ہر حق دار کو اس کا حق ادا کرو ۔ حضرت ابو الدرداء رضی الله عنہ، رسول اکرم اکے پاس آئے اور ماجرا سنایا تو آپ نے فرمایا : ”سلمان نے سچ کہا ہے “۔ ( بخاری :1968)
تواس حديث سے واضح علم هوا كلا ہوا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عبادت میں انتہا پسندی کو ناپسند کرتے تھے اس لیے تو اس عمل پر ایک دوسرے کو تنبیہ کردیا کرتا تھے۔ جوانسان عبادات میں انتہاپسندی اختیار کرتاہے، تواس کی نظروں میں باقی سب حقیر سے حقیر تر ہوتے چلے جاتے ہیں اورایک وقت آتا ہے کہ اس کی نظر میں وہ بذاتِ خودیا اس کے نظریہ و سوچ کےحامل افراد مسلمان قرارپاتے ہیں اورباقی سب دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتے ہیں۔ پھرشیطان اسے استعمال کرتے ہوئے امت مسلمہ کے خلاف استعمال کرتا ہے وہ خودتوڈوبتے ہی ہیں اوروں کو بھی لے ڈوبتے ہیں  ’’والله المستعان‘‘جیسا کہ ذیل میں مذکور روایت سے اسی طرف اشارہ ملتا ہے۔
أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى قَالَ سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كُنَّا نَجْلِسُ عَلَى بَابِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَبْلَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ فَإِذَا خَرَجَ مَشَيْنَا مَعَهُ إِلَى الْمَسْجِدِ فَجَاءَنَا أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ فَقَالَ أَخَرَجَ إِلَيْكُمْ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ بَعْدُ قُلْنَا لَا فَجَلَسَ مَعَنَا حَتَّى خَرَجَ فَلَمَّا خَرَجَ قُمْنَا إِلَيْهِ جَمِيعًا فَقَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنِّي رَأَيْتُ فِي الْمَسْجِدِ آنِفًا أَمْرًا أَنْكَرْتُهُ وَلَمْ أَرَ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ إِلَّا خَيْرًا قَالَ فَمَا هُوَ فَقَالَ إِنْ عِشْتَ فَسَتَرَاهُ قَالَ رَأَيْتُ فِي الْمَسْجِدِ قَوْمًا حِلَقًا جُلُوسًا يَنْتَظِرُونَ الصَّلَاةَ فِي كُلِّ حَلْقَةٍ رَجُلٌ وَفِي أَيْدِيهِمْ حَصًى فَيَقُولُ كَبِّرُوا مِائَةً فَيُكَبِّرُونَ مِائَةً فَيَقُولُ هَلِّلُوا مِائَةً فَيُهَلِّلُونَ مِائَةً وَيَقُولُ سَبِّحُوا مِائَةً فَيُسَبِّحُونَ مِائَةً قَالَ فَمَاذَا قُلْتَ لَهُمْ قَالَ مَا قُلْتُ لَهُمْ شَيْئًا انْتِظَارَ رَأْيِكَ وَانْتِظَارَ أَمْرِكَ قَالَ أَفَلَا أَمَرْتَهُمْ أَنْ يَعُدُّوا سَيِّئَاتِهِمْ وَضَمِنْتَ لَهُمْ أَنْ لَا يَضِيعَ مِنْ حَسَنَاتِهِمْ ثُمَّ مَضَى وَمَضَيْنَا مَعَهُ حَتَّى أَتَى حَلْقَةً مِنْ تِلْكَ الْحِلَقِ فَوَقَفَ عَلَيْهِمْ فَقَالَ مَا هَذَا الَّذِي أَرَاكُمْ تَصْنَعُونَ قَالُوا يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَصًى نَعُدُّ بِهِ التَّكْبِيرَ وَالتَّهْلِيلَ وَالتَّسْبِيحَ قَالَ فَعُدُّوا سَيِّئَاتِكُمْ فَأَنَا ضَامِنٌ أَنْ لَا يَضِيعَ مِنْ حَسَنَاتِكُمْ شَيْءٌ وَيْحَكُمْ يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ مَا أَسْرَعَ هَلَكَتَكُمْ هَؤُلَاءِ صَحَابَةُ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَافِرُونَ وَهَذِهِ ثِيَابُهُ لَمْ تَبْلَ وَآنِيَتُهُ لَمْ تُكْسَرْ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّكُمْ لَعَلَى مِلَّةٍ هِيَ أَهْدَى مِنْ مِلَّةِ مُحَمَّدٍ أَوْ مُفْتَتِحُو بَابِ ضَلَالَةٍ قَالُوا وَاللَّهِ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَا أَرَدْنَا إِلَّا الْخَيْرَ قَالَ وَكَمْ مِنْ مُرِيدٍ لِلْخَيْرِ لَنْ يُصِيبَهُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا أَنَّ قَوْمًا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ وَايْمُ اللَّهِ مَا أَدْرِي لَعَلَّ أَكْثَرَهُمْ مِنْكُمْ ثُمَّ تَوَلَّى عَنْهُمْ فَقَالَ عَمْرُو بْنُ سَلَمَةَ رَأَيْنَا عَامَّةَ أُولَئِكَ الْحِلَقِ يُطَاعِنُونَا يَوْمَ النَّهْرَوَانِ مَعَ الْخَوَارِجِ
سنن الامام الدارمی: 1 /286 ح 210، ورواہ ایضا الامام اسلم بن سہل الواسطی فی التاریخ الواسط: 1/198، واسنادہ صحیح)
 عمرو بن یحی اپنے والد سے وہ اپنے دادہ سے بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم صبح کی نماز سے پہلے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے دروازے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔جب عبداللہ باہرتشریف لایا کرتے تھے توہم ان کے ساتھ چلتے ہوئے مسجد جایا کرتے تھے۔اسی دوران حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ وہاں تشریف لائے اوردریافت کیا :کیا حضرت ابوعبدالرحمن (حضرت عبداللہ بن مسعود)باہر تشریف لائے۔‘‘ہم نے جواب دیا:’’نہیں‘‘توحضرت ابوموسیٰ ہامرے ساتھ بیٹھ گئے یہاں تک کہ حضرت عبداللہ بن مسعود تشریف لائے ان کے آتے ہی ہم سب اٹھ کران کے پاس آگئے۔حضرت ابوموسیٰ ان سے کہنے لگے: ’’اے عبدالرحمن آج میں نے مسجد میں ایسی جماعت دیکھی ہے جو مجھے پسند نہیں آئی اورمیرا مقصد ہر طرح کی حمد اللہ کے لیے ہے یعنی نیکی ہے۔‘‘حضرت عبداللہ بن مسعود نے پوچھا وہ کیا ہے؟‘‘حضرت ابوموسی نے جواب دیا: "شام تک آپ خود ہی دیکھ لیں گے۔ حضرت ابوموسی بیان کرتے ہیں میں نے مسجد میں کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ حلقے بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں اور نماز کا انتظار کر رہے ہیں ان میں سے ہر ایک حلقے میں ایک شخص ہے جس کے سامنے کنکریاں موجود ہیں اور وہ شخص یہ کہتا ہے سو مرتبہ اللہ اکبر پڑھو۔ تو لوگ سو مرتبہ اللہ اکبر پڑھتے ہیں۔ پھر وہ شخص کہتا ہے سو مرتبہ لاالہ الا اللہ پڑھو تو لوگ سو مرتبہ یہ پڑھتے ہیں پھر وہ شخص کہتا ہے سومرتبہ سبحان اللہ پڑھو تو لوگ سبحان اللہ پڑھتے ہیں۔"حضرت عبداللہ بن مسعود نے ان سے دریافت کیا "آپ نے ان سے کیا کہا"۔ حضرت ابوموسی اشعری نے جواب دیا میں نے آپ کی رائے کا انتظار کرتے ہوئے ان سے کچھ نہیں کہا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا: "آپ نے انہیں یہ کیوں نہیں کہا کہ وہ اپنے گناہ شمار کریں اور آپ نے انہیں ضمانت کیوں نہیں دی کہ ان کی نیکیاں ضائع نہیں ہوں گی۔" )راوی بیان کرتے ہیں) پھر حضرت عبداللہ بن مسعود چل پڑے ان کے ہمراہ ہم بھی چل پڑے یہاں تک کہ حضرت عبداللہ ان حلقوں میں سے ایک حلقے کے پاس تشریف لائے اور ان کے پاس کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا:"یہ میں تمہیں کیا کرتے ہوئے دیکھ رہاہوں؟"انہوں نے جواب دیا: "اے ابوعبدالرحمن یہ کنکریاں ہیں جن پر ہم لا الہ الا اللہ اور سبحان اللہ گن کر پڑھ رہے ہیں۔"حضرت عبداللہ نے ارشاد فرمایا: "تم اپنے گناہوں کو گنو میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ تمہاری نیکیوں میں سے کوئی چیز ضائع نہیں ہوگی۔ اے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت تمہارا ستیاناس ہو تم کتنی تیزی سے ہلاکت کی طرف جا رہے ہو یہ تمہارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تمہارے درمیان بکثرت تعداد میں موجود ہیں اور یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے ہیں جو ابھی پرانے نہیں ہوئے اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے برتن ہیں جو ابھی ٹوٹے نہیں ہیں اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے تم ایسے طریقے پر ہو جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے زیادہ ہدایت یافتہ ہے؟ یا پھر تم گمراہی کا دروازہ کھولنا چاہتے ہو۔"لوگوں نے عرض کی: "اللہ کی قسم اے ابوعبدالرحمن ہمارا ارادہ صرف نیک ہے۔" حضرت عبداللہ نے ارشاد فرمایا: "کتنے نیکی کے خواہش مند ایسے ہیں جو نیکی نہیں کرتے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ کچھ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ قرآن ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترے گا اور اللہ کی قسم مجھے نہیں معلوم ہوسکتا ہے ان میں سے اکثریت تم لوگوں کی ہو۔"

 پھر حضرت عبداللہ ان کے پاس سے اٹھ کر آگئے۔ عمرو بن سلمہ بیان کرتے ہیں ہم نے اس بات کا جائزہ لیا ان حلقوں سے تعلق رکھنے والے عام افراد وہ تھے جنہوں نے نہروان کی جنگ میں خوارج کے ساتھ مل کر ہمارے ساتھ مقابلہ کیا۔
تومعلوم ہوا کہ عبادات میں غلوکرنے سے وہ اسلام کی حدودقیودسے آگے بڑھ گئے اورشیطان کے جھانسے میں آکر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف کھڑے ہوگئے کہ جن کاایمان اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطورپیمانہ مقررتھا۔ اس غلووانتہا پسندی نے انہیں غلط ڈگرپر گامزن کردیااورانہوں نے امتِ مسلمہ میں فساد کی بنیادرکھ دی۔ عبادت میں انتہاپسندی خوارج کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے جیساکہ ذیل کی حدیث سے اس طرف اشارہ مل رہا ہے۔
عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ بَعْدِي مِنْ أُمَّتِي أَوْ سَيَكُونُ بَعْدِي مِنْ أُمَّتِي قَوْمٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَلَاقِيمَهُمْ يَخْرُجُونَ مِنْ الدِّينِ كَمَا يَخْرُجُ السَّهْمُ مِنْ الرَّمِيَّةِ ثُمَّ لَا يَعُودُونَ فِيهِ هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيقَةِ فَقَالَ ابْنُ الصَّامِتِ فَلَقِيتُ رَافِعَ بْنَ عَمْرٍو الْغِفَارِيَّ أَخَا الْحَكَمِ الْغِفَارِيِّ قُلْتُ مَا حَدِيثٌ سَمِعْتُهُ مِنْ أَبِي ذَرٍّ كَذَا وَكَذَا فَذَكَرْتُ لَهُ هَذَا الْحَدِيثَ فَقَالَ وَأَنَا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ(صحیح البخاری:2469)
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی انھوں نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا:’’ بلا شبہ میرے بعد میری امت سے۔۔۔یا عنقریب میرے بعد میری امت سے۔۔۔ایک قوم ہو گی جو قرآن پڑھیں گے وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جا تا ہے پھر اس میں واپس نہیں آئیں گے ۔وہ انسانوں اور مخلو قات میں بد ترین ہوں گے ۔ابن صامت نے کہا :میں حکم غفا ری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ملا ،میں نے کہا : (یہ) کیا حدیث ہے جو میں نے ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس طرح سنی ہے؟ اس کے بعد میں نے یہ حدیث بیان کی تو انھوں نے کہا میں نے بھی یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے ۔‘‘
تواس حدیث سے واضح اشارہ مل رہا ہے کہ خوارج عبادات میں انتہا پسندی کی سوچ کے حامل ہوں گے۔اس لیے عصرِحاضر میں خوارج کی علامتوں میں بہت سی علامات اس حدیث کے موافق ہیں۔ جس سے سیدھے سادھے مسلمان دھوکہ کھاجاتے ہیں۔ یادرکھئے ہرمکمل داڑھی ،ٹخنوں سے اوپرشلواررکھنے والا اورسینے پر ہاتھ باندھنے والا خالص مسلمان نہیں ہوسکتا۔ جب تک انسان کانظریہ ،سوچ،عقیدہ سلف صالحین کی موافقت نہیں کرے گااس پراعتبار نہیں کیا جائے گا۔اس لیے دھوکہ مت کھائیے اوردرست منہج اختیار کیجئے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اسلاف کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین

تحریر:حبیب اللہ
جامعہ الدراسات الاسلامیہ کراچی
رابطہ:8939478@gmail.com

No comments:

Post a Comment