Sunday 26 March 2017

23مارچ 1940؁ء اس عظیم عزم کی ’’تشکیل نو‘‘ کی ضرورت


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

23مارچ 1940؁ء اس عظیم عزم کی ’’تشکیل نو‘‘ کی ضرورت 

کسی بھی ملک کے معرض وجود میں آنے کا سبب ایک خاص فکر،سوچ،نظریہ ہوتا ہے۔اولاًوہ نظریہ مخصوص اذہان میں نمو پاتا ہے۔ بعدازاں اس کی تشہیر کی طرف توجہ دی جاتی ہے۔تاکہ اسے لوگوں کے ذہنوں میں بٹھاکر مقاصد کے حصول میں کامیابی حاصل کی جاسکے۔اس لیے اس نظریے کی تشہیر کی جاتی ہے اورعوام الناس کے رگ وپہ میں اس کوبسانے کی تگ ودوکی جاتی ہے۔جب بندوں کابنایا ہوا وہ مخصوص نظریہ لوگوں کی فکروسوچ میں راسخ ہوجاتا ہے ،تب اس نظریے کے حاملین اپنے لیے ایک خودمختار مملکت،خطہ،سرزمین،وطن وریاست کے قیام کی کوششوں کو آگے بڑھاتے ہیں۔آخرکاراس منظم طرزعمل کی وجہ سے وہ بہت جلد اپنے مقاصد کے حصول میں سرخروٹھہرتے ہیں۔
وطنِ عزیز کے وجود میں آنے کے وقت جس نظریہ پر اہل اسلام کے اذہان مرکوز تھے،وہ لوگوں کا بنایا ہوانظریہ وفکر نہیں تھی بلکہ وہ خاص نظریہ وسوچ تھی کہ جو سات آسمانوں کے اوپرسے چودہ صدیاں قبل امت مسلمہ کوعطا کردی گئی تھی۔جس میں حاکم اعلیٰ صرف ایک اللہ تعالیٰ ہی تھا،جس کی معراج سجدے میں مضمر تھی،جس کی نموں اسلام کے قلعوں مساجدومدارس سے ہونی تھی۔ جوکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو قرآن میں عطا کردیا تھا۔آخروہ نظریہ کیا تھا؟ وہ نظریہ ’’دوقومی نظریہ‘‘ تھا کہ جس کا اعادہ ہمارے آباؤاجدادنے کیا تھا۔

مگرصد افسوس!کہ آج اس نظریہ کو نوجوان نسل کے ذہنوں سے کھرچ کھرچ کرنکالا جارہا ہے۔ آئیے ذرا ہم اپنے ان آبائواجداد کی طرف نظریں دوڑائیں کہ جنہوں نے وطنِ پاکستان کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرکے اس ملک کے وجود میں آنے کی راہ ہموار کی۔سب سے پہلے علامہ محمداقبالؒ کی طرف دیکھتے ہیں تو انہوں نے اس نظریے کی طرف کچھ ان الفاظ میں اشارہ کیا:’’ہندو اورمسلمان دوالگ الگ قومیں ہیں،ان میں کوئی چیز بھی مشترکہ نہیں اورگزشہ ایک ہزارسال سے وہ ہندوستان میں اپنی الگ حیثیت قائم رکھے ہوئے ہیں۔ان دونوں قوموں کے نظریہ آزادی میں نمایاں فرق ہے اورمیں واضح الفاظ میں کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ہندوستان کی سیاسی کشمکش کا حل اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہرجماعت کو اپنی اپنی مخصوص قومی اورتہذیبی بنیادوں پرآزادانہ شوریٰ کا حق حاصل ہوجائے۔‘‘(خطبہ الہٰ آباد: 1930؁ء)تواقبالؒ کے خطبہ سے دوقومی نظریہ واضح طورپرچھلک رہا ہے کہ کبھی اہل اسلام واہل کفرایک نہیں ہوسکتے ۔ کیونکہ کائنات کے آغاز سے ہی یہ جنگ چل رہی ہے۔ ایک طرف اسلام کی پاکیزہ وروحانی تعلیمات ہیں تو مدمقابل باطل افکار ونظریات ہیں۔ ایک طرف صرف ایک اللہ تعالیٰ کے سامنے جبین سربسجود کی جاتی ہیں تودوسری جانب معبودانِ باطل کی خدائی ہے۔ ایک طرف اللہ تعالیٰ ہے اوردوسری طرف شیطان ہے۔ ایک طرف اللہ والے ہیں تو دوسری جانب شیطان کے حواری ہیں۔ غرض کہ ازل سے ان دونوں میں نظریے کی جنگ چلی آرہی ہے۔ اسی طرح سرسیداحمدخان نے 1867؁ء کی جنگ آزادی کے کے بعدبرملا طورپر یہ کہہ دیا تھا کہ: ’’میں اس بات کاقائل ہوچکا ہوں کہ برصغیرکے مسلمان اورہندو،دوعلیحدہ قومیں ہیں۔‘‘
اسی طرح حضرت شاہ ولی اللہ ؒ بھی دوقومی نظریہ کے زبردست حامی تھے۔ آپ نے مسلمانوں کوہدایت کی کہ:’’وہ اسلامی تہذیب وتمدن، تاریخی روایات، اسلامی ثقافت اوراپنے ملی ورثے کوترقی دیں۔ اپنے جداگانہ تشخص کوہرحالت میں برقراررکھیں اورغیراسلامی رسوم رواج کرترک کردیں۔‘‘اسی طرح حضرت مجددالف ثانی نے مسلمانوں کواچھی طرح باورکرایا کہ وہ اپنے جداگانہ تشخص کو ہرحال میں برقراررکھیں۔آپ کا قول ہے:’’اسلام کی عزت کفر اورکفارکی ذلت میں ہے۔‘‘جن ہستیوں کی کوششوں وکاوش کی بدولت علیحدہ مملکتِ خدادکی راہ ہموار ہوئی۔ ان کے اقوال سے بجا طورپریہ چیزواضح طورپر جھلک رہی ہے کہ مسلمانوں کی اپنی علیحدہ شناخت وقومیت ہے اورمسلمانوں کاعقیدہ ومذہب جداگانہ ہے۔ ہندومسلم کبھی ایک نہیں ہوسکتے ،بلکہ یہ دونوں جداجداہیں۔ کبھی بھی کافر مسلمانوں کے خیرخواہ ہوئے اورناہوسکتے ہیں جس کی وضاحت اللہ تعالیٰ نے اپنے قرآن سورہ المائدہ آیت نمبر۸۲ میں کچھ اس طرح فرمادی:’’کہ آپ مومنوں کے لیے دشمنی میں سب سے زیادہ سخت لوگوں میں سے یہود کوپائیں گے اوران کے بعد وہ لوگ جومشرک(بتوں کے پجاری)ہیں۔‘‘ 
تویہ نظریہ آج سے چودہ صدیاں قبل اہل اسلام کومل چکا تھا۔ اسی کی بنیاد پرمملکت خدادادپاکستان کے نام سے وجود میں آئی۔ اس راستے میں خون کی ندیاں بہائی گئیں اورلاکھوںعزتیں وعصمتیں پامال ہوئیں، انسانی اقدار کی دھجیاں اڑائی گئیں غرض کہ قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم ہوئیں تب جاکر یہ خطہ ہمیں ملا کہ جس میں سکون سے بیٹھ کرآج ہم اپنے اسلاف کی روایتوں کو صرف نظر کرتے نظرآتے ہیں۔ جہاں بیٹھ کر ہم ہندومسلم بھائی کا نعرہ لگاتے نظرآتے ہیں۔ یہاںایک مخصوص طبقہ اغیارکے افکاروکردار کی ترویج و تشہیرکرتا نظرآتا ہے۔ اس وطن کے حصول کے بعدمحمدعلی جناح نے اسلامیانِ پاکستان سے جوخطابات کیے اب ذرا،ان کی جھلک دیکھتے ہیں کہ ان میں کس طرح نظریہ پاکستان کی جھلک چھلکتی دکھائی دیتی ہے اوریہ کہ اس مملکت خدادادکی حفاظت میں کہا ںتک جانا ہے۔ 4فروری1948؁ء کوسرکاری افسران سے خطاب کے دوران آپ نے فرمایا:’’ایمانداری اورخلوصِ دل سے کام کیجئے میں آپ کویقین دلاتا ہوں کہ آپ کے ضمیرسے بڑی کوئی قوت روئے زمین پر نہیں ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ جب آپ اللہ تعالیٰ کے روبروپیش ہوں توآپ پورے اعتمادسے کہہ سکیں کہ ہم نے اپنافرض انتہائی ایمانداری اوروفاداری سے انجام دیاہے۔‘‘ قائدجانتے تھے کہ اس کرہ ارض کے اوپر اگر کوئی بڑی طاقت ہے توضمیر کی طاقت ہے۔ جب ضمیر مردہ ہوجائے توصحت مند جسم کسی کام کا نہیں رہتا۔ اس لیے ضمیر کی اصلاح کرنی ہے اور فرض شناس بننا ہے۔ ضمیرکی حیات سے ہی انسان فرض شناس بنتا ہے اورضمیر کی ممات انسان کو فرائض سے تہی دامن کردیتی ہے۔ اس لیے جن کے ضمیر مردہ ہوجاتے ہیں پھر انہیں حق وباطل میں تمیزنہیں رہتی۔ اہل اسلام وکفر ایک ہی نظرآتے ہیں ،بلکہ ان کی محبت ومحور صرف اغیار ہوتے ہیں کیونکہ ان کے مفادمشترکہ ہوتے ہیں۔اس لیے ضمیر کی حیات کے لیے ضروری ہے کہ ضمیر کی نظراس نظریہ پر ہو جوانسان کے ضمیر کوتوانائی وطاقت مہیا کرتا ہے۔ وہ نظریہ اللہ کے قرآن اوررسول مکرم ﷺ کے فرمان سے مل سکتا ہے۔ جوان سے تہی دامن رہے گا تواس کی سوچ وافکاران کی عکاسی کریں گے جواللہ کے دین کے شمن ہیں۔ اس لیے موجودہ لبرل حضرات کی سوچ بھی اسی سوچ کی غمازی ہے کہ ہندومسلم مشترک ہیں۔ اسی طرح جناح نے 21فروری1948؁ء کوافواجِ پاکستان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’اگرکبھی ایسا وقت آجائے کہ پاکستان کی حفاظت کے لیے جنگ لڑنی پڑے توکسی صورت میں ہتھیارنہ ڈالیں اورپہاڑوں میں ،جنگلوں میں،میدانوں میں اوردریائوں میں جنگ جاری رکھیں۔‘‘یعنی کہ اس پاک سرزمین کی حفاظت کے لیے جوکچھ ممکن ہوسکے کرگزریں تاکہ اس کوآنچ نہ آنے پائے ۔
کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اس خطے سے اللہ تعالیٰ نے اہل اسلام کی حفاظت کا کام لینا ہے۔ اس لیے جب یہ مضبوط ہوگا توباقی مسلم دنیا بھی مضبوط ہوگی۔ اسی طرح جب واہ کے مقام پر پہلی اسلحہ فیکٹری کاقیام عمل میں آیا توآپ نے اس دوران خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’آپ کوزمانے کے ساتھ چلنا ہوگا اوراسلحہ جدیدترین طرز کارکھنا ہوگا۔تاکہ کوئی طاقت ہمیں بے خبری میں نقصان پہنچانے میں کامیاب نہ ہوجائے۔‘‘غرض کہ قائد کے ایک ایک جملے سے پاکستان سے حب الوطنی اوراس کی حفاظت کاجذبہ موجیں مارتا نظرآتا ہے۔مگرآج کے کچھ لبرل حضرات نہ صرف اہلیان پاکستان پر اعتراض کرتے نظرآتے ہیں بلکہ افواج پاکستان کی طرف بھی انگلیاں اٹھانے سے باز نہیں آتے۔انہیں ہوش کے ناخن لینے چاہیے اورنظریہ پاکستان کو مسخ کرنے کے بجائے اپنے اذہان کودرست سمت لانا چاہیے۔ اس مملکت کے قیام کا مقصداسلامی شعارپرعمل کویقینی بنانا تھا ناکہ لبرل سوچ کوپروان چڑھانا تھا۔مگرآج نظریہ پاکستان کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ اس لیے تو اقبالؒ نے 1930؁ء میں مسلم لیگ سے خطاب کے دوران یہ کہہ دیاتھا:’’ایک سبق جو میں نے اسلامی تاریخ سے سیکھا ہے کہ آڑے وقتوں میں اسلام نے مسلمانوں کوبچایا ہے۔ مسلمانوں نے اسلام کی حفاظت نہیں کی ہے۔ آج اگر آپ اپنی نظریں اسلام پرلگادیں اوراس کے حیات پرورتخیل سے اثرلیں توآپ کی منتشرقوتیں ازسرنو یکجاہوجائیں گی اورآپ کاوجود ہلاکت وبربادی سے بچ جائے گا۔‘‘ آج اسلام کے نام پروجود میں آنے والے پاکستان اورہندوستان سے تفریق مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہندوئوں کو مسلمانوں کا خیرخواہ گنوایا جارہاہے کہ جنہوں نے اسلام کے نام لیوائوں پرظلم وستم کے ایسے پہاڑڈھائے جن کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیںملتی۔اس پاک وطن میں نبی مکرم ﷺ کی عزت وناموس کی حفاظت کے لیے جنگ لڑناپڑرہی ہے۔ وجہ صرف ایک ہی ہے نظریہ سے اعراض، جب ہم اس نظریہ پردوبارہ سے کھڑے ہوجائیں گے جس پروطن عزیز کی بنادیں قائم ہیں توپھرسے یہ گلشن آبادہوجائے گی۔ اس کی فضائیں امن کاگہوارہ بن جائیں گی۔ اغیار کی سازشیں ناکام ہوجائیں گی اورامت مسلمہ کی قیادت وسیادت کاخواب حقیقت کا روپ دھارے گا۔تویہ وطن پاک کرہ ارض کی مظلوم انسانیت کے لیے امن کی راہیں ہموارکرے گا۔ اس لیے ہرفردکا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس نظریہ کوپختہ کرے، اسی پرقائم ودائم رہے۔

تحریر:حبیب اللہ
جامعہ الدراسات الاسلامیہ کراچی
رابطہ:8939478@gmail.com

No comments:

Post a Comment