Tuesday 11 October 2016

زندگی سے مایوس لوگوں کے لیے بہترین ہتھیار

زندگی سے مایوس لوگوں کے لیے بہترین ہتھیار
(دعا)

                                            


          اس نفسانفسی کے دور میں لوگوں کی اکثریت زندگی سے مایوس نظر آتی ہے۔ حالانکہ لوگوں میں صلاحیتیں پنہاں ہیں مگر چونکہ اللہ پر ایمان ، یقین ، توکل و بھروسہ نہیں۔ اس لئے لوگ اپنے تئیں یہ محسوس کرتے ہیں کہ میں معاشرے کی ترقی میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا۔ اپنی زندگی سنوارنے کے لئے میرے اندر کوئی خوبی نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جب مچھلی کو پانی سے نکال دیا جائے تو وہ تڑپ تڑپ کر جان دے دیتی ہے کیونکہ پانی کے بغیر اس کی زندگی محال ہے۔ تو جیسے پانی سے نکال دینے پر مچھلی زندہ نہیں رہ سکتی بعینہ جب مومن بندہ ایمان کے سمندر سے نکل جائے تو اس کے لئے اطمینان و سکون کی زندگی بسر کرنا ناممکن ہے۔ 
ایسے لوگ ساری زندگی معاشرے میں ٹھوکریں لگنے پر تڑپتے رہتے ہیں۔ اب اگر وہ اپنے اللہ کی طرف پلٹ آئیں۔ اپنے گناہوں سے اظہار ندامت کرلیں۔ اپنے رب سے دعا کرکے غلطیوں کا ازالہ کرلیں تو اللہ ان کی زندگی کو راحتوں سے بھر دیتا ہے۔ مگر جو لوگ سرکشی میں آگے نکل جائیں تو پھر ایسے لوگ مصائب میں مبتلا ہوکر ذلت و رسوائی کی زندگی بسر کرتے ہیں اور اسی ذلت کی حالت میں ان کی زندگی کا دیا بجھ جاتاہے۔تو ایسے وقت میں جب کوئی سہارا نظر نہیں آتا اور زندگی سے مایوسیاں چمٹ جاتی ہیں تو ایک مسلمان کے لئے بہترین ہتھیار دعا ہے جس کے ذریعے وہ کانٹوں بھری غمگین زندگی سے نجات پاکر موسم بہار میں گلاب کے پھول سے معطر اور پر سکون زندگی کا راز پالیتا ہے۔
سبحان اللہ ! آج ہمیں ایسے سینکڑوں واقعات ملیں گے کہ جو لوگ بیماری، تنگ دستی یا کسی اور وجہ سے اپنی زندگی سے مایوس ہو چکے تھے۔ جب انہوں نے دعا کے ہتھیار کو استعمال کیا تو ان کی زندگی میں ایک بار پھر نئے سرے سے بہار آگئی اور وہ امن وسکون اور لطف و چین کی زندگی بسر کرنے لگ گئے۔ دنیا میں ہر انسان کسی نہ کسی مصیبت ، تکلیف یا پریشانی میں مبتلا رہتا ہے کیونکہ زندگی نام ہی آزمائش کا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ اسے پیدائش سے لے کر موت تک کانٹا تک نہ چبھے تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ ایسی زندگی جس میں راحت ہی راحت ، سکون ہی سکون ملے اور پریشانی کا دور دور تک نام و نشان دکھائی نہ دے یہ صرف جنت میں ممکن ہے دنیا میں ناممکن ہے۔
ہر انسان زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر ایسے حالات سے یقینا دوچار ہوتا ہے۔ جب اس کے سارے دنیاوی سہارے ٹوٹ جاتے ہیں۔ ظاہری اسباب و وسائل ناکام ہوجاتے ہیں۔ قریب ترین عزیز و اقارب پر اعتماد نہیں رہتا۔ ماں ، باپ، بہن، بھائی گویا سب کچھ ہوتے ہوئے بھی انسان تنہا و بے کس نظر آتا ہے تو وہ اس تنہائی میں تڑپنے لگتا ہے۔
مصائب نے آکے دل کو پا ش پاش کیا
تنہا ئی نے آکے تو قصہ ہی صاف کیا
اس تنہائی کے عالم میں وہ سکون کی طلب کے لئے جدوجہد کرتا ہے مگر ہر طرف سے مایوس ہوجانے پر انسان کے ضمیر سے یہ آواز اٹھتی ہے۔ کہ ایک سہارا اب بھی موجود ہے۔ ایک دروازہ اب بھی کھلا ہے۔ وہاں انسان اپنے دکھوں اور الم بھری داستان ہر وقت بیان کر سکتا ہے۔ اور اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر سکتا ہے۔ اس کیفیت کو اللہ نے قرآن میں کچھ اس طرح ذکر کیا ہے۔
”بھلا وہ کونسی ذات ہے جو بے قرار کی دعا اس وقت جب بے قرار اسے پکارے تو اسے قبول کرتا ہے اور پھر اس مشکل سے تمہیں نجات دیتا ہے۔ اسی عظیم ہستی نے ہی تو تمہیں زمین میں جانشین بنایا ہے۔ (اب عقل سے کام لے کر بتائے کہ ایسے کام کرنے والا)اللہ کے سوا کوئی اور بھی ہے؟“(النمل:26) قرآن کریم نے ہمارے سامنے انبیاءکرام علیہ السلام کی بہت سی مثالیں رکھی ہیں کہ انہوں نے بھی مصائب و پریشانیوں میں اللہ کو پکارا اور اللہ نے انہیں اس پریشانی سے نجات دی۔آدم علیہ السلام نے جنت سے نکالے جانے پر رب کو پکارا تو زکریا علیہ السلام نے اولاد نہ ملنے پر دعا کی۔ یونس علیہ السلام نے مچھلی کے پیٹ میں رب کو پکارا تو یوسف نے عورتوں کے شر سے بچنے کے لئے رب سے دعا کی۔ ایوب علیہ السلام نے بیماری کی حالت میں رب کو پکارا تو لوط علیہ السلام نے کمزوری کی حالت میں رب سے دعا کی۔ نوح علیہ السلام نے قوم سے مایوس ہوکر رب کو پکارا تو موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے فتنے سے محفوظ رہنے کے لئے رب سے دعا کی۔ غرض ایسی بے شمار مثالیں قرآن میں موجود ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اہمیت و فضلیت بیان کرتے ہوئے فرمایا ” اللہ کے نزدیک کوئی چیز دعا سے بڑھ کر عزت والی نہیں “(ابن حبان ) اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” بے شک دعا ہی عبادت ہے“ (ترمذی) بعض لوگوںکا خیال ہے کہ ہم گناہ گار ہیں گنہگاروں کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ یہ خیال شریعت کی رو سے بالکل غلط ہے۔ اے کاش ہم قرآن کو سمجھ کر پڑھیں تاکہ ہماری زندگیاں بدل جائیں۔ کیا شیطان سے بڑا مردود و ملعون بھی کوئی ہو سکتا ہے؟ نہیں۔ اس نے کھلم کھلا اللہ کے حکم کی نافرمانی کی اور اس کے بعد دعا کی۔اے اللہ مجھے قیامت تک (لوگوں کو گمراہ کرنے کی) مہلت دے۔ تو اللہ نے اس کی پکار قبول کرکے مہلت دے دی(الحجر:36)شیطان نے کسی نیک مقصد کے لئے دعا نہیں کی مگر پھر بھی قبول ہو گئی تو یہ سمجھنا کہ گناہ گاروں کی دعا قبول نہیں ہوتی محض شیطانی فریب و دھوکہ ہے۔ 
اگر کوئی شخص دعا کرتا ہے اور وقتی طور پر دعا قبول نہ ہو پھر دعا مانگنا چھوڑ دے یہ بھی غلط ہے۔کیونکہ قبولیت دعا کی تین صورتیں ہیں۔
(۱) دعا بندے کی خواہش کے مطابق فوراََ قبول ہوجاتی ہے۔ (۲) اس کے بدلے اس کی دنیاوی کوئی آفت ٹل جاتی ہے۔ (۳) یااس کی دعا آخرت کے لئے ذخیرہ کردی جاتی ہے۔ (رواہ احمد) بعض مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اللہ کو ہماری حالت کا علم ہے تو دعا کی کیا ضرورت ہے۔ تو اس کی خدمت میں عرض ہے کہ اللہ نے خود دعا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر ہم اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ پر نظر دوڑائیں تو پتا چلتا ہے کہ حیات طیبہ کا کوئی لمحہ دعا سے خالی نہیں گزرا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق صحیح احادیث سے ثابت شدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاو ¿ں کی تعداد سات سو کے لگ بھگ ہے۔ اسی طرح اللہ نے اہل ایمان کو مختلف واقعات کے حوالے سے ستر سے زائد دعائیں سکھائی ہیں جس سے دعا کی اہمیت کا پتا چلتا ہے۔ لہٰذا اگر آج ہم زندگی سے مایوس ہو چکے ہیں اور تمام سہارے ٹوٹ چکے ہیں تو آج ہی اللہ کے حضور اپنے ہاتھوں کو بلند کریں اور مسنون طریقے سے دعائیں مانگیں۔ پھر دیکھیں اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کا آپ پر نزول ہوگا۔ اور خزاں بھری زندگی میں بہار آئی گی۔انشاءاللہ

تحریر: حبیب اللہ
جامعہ الدراسات الاسلامیہ گلشن اقبال بلاک نمبر7کراچی

8939478@gmail.com



No comments:

Post a Comment