Thursday 8 September 2022

بیچاری دینی فلاحی تنظیمیں

 بیچاری دینی فلاحی تنظیمیں


اس وقت وطن عزیز انتہائی نازک صورتحال سے گزر رہا ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں نے متوسط و غریب طبقے کی کمر توڑ دی ہے۔ لوگ انتہائی پریشان حال ہیں۔ مسائل پر مسائل جنم لے رہے ہیں۔ مگر ہماری سیاسی پارٹیاں اپنی سیاست میں اس قدر مگن ہیں کہ انہیں خلق خدا کی فکر ہی نہیں۔ بس سوشل میڈیا پر عوامی تنقید کی وجہ سے کچھ بیان بازی سیلاب زدگان کے حق میں دے کر ایک طرف ہوجاتے ہیں۔ایسے میں جب سب لبرل و سیکولر سیاسی پارٹیاں اپنی سیاست میں مگن ہیں تب ایک طبقہ میدان عمل میں اتر چکا ہے اور اپنے سیلاب زدگان بھائیوں کی اس مشکل میں ہر وقت ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ وہ طبقہ مذہبی طبقہ ہے کہ جسے ہر موقع و موڑ پر کوسنا نام نہاد سیکولرز ثواب کاکام سمجھتے ہیں۔ کئی ایسی تنظیمیں کہ جنہوں نے ماضی میں بھی اپنے بھائیوں کی فلاح و بہبود کے لیے دن رات ایک کیے رکھا آج بھی وہ میدان عمل میں ہیں۔ حالانکہ اس خدمت کے بدلے انہیں پابندیوں کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا سوائے بدنامی و رسوائی کے، کہ نیکی کرکے بھی بدنامی کا طوق ان کے نصیب میں ہے۔ مگر وہ بڑی ہی عجیب مخلوق ہیں، کہ لوگوں کی ہر طرح کی تیکھی اور چھبنے والی باتیں سنتے چلے جاتے ہیں اور کام کرتے چلے جاتے ہیں۔ وطن کی محبت ان کی انگ انگ میں رچ بس چکی ہے۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ اگر ان کے پاس اختیار ہو تو کسی بھی ہم وطن کو کبھی بھوکا نہ سونے دیں، کسی کو پریشان حال نہ رہنے دیں، کسی کو بغیر چھت کے نا رہنے دیں۔ مگر کیاں کریں راستے میں کانٹے ہی اس قدر ہیں کہ غیروں کے ساتھ اپنوں کے ہاتھوں مشق ستم بنے ہوئے ہیں۔

اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ہیں تنگ

میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا کند


مگر عجیب و غریب انسان ہیں کہ سیلاب ہو یا زلزلہ ہو یا کوئی آسمانی و خدائی آفت ہو، یہ اچانک ہی نکل آتے ہیں اور پھر فلاح کے کام کرتے چلے جاتے ہیں۔ شنید ہے کہ اب اس دفعہ بھی خدمت کا صلہ انہیں مزید پابندیوں کی صورت میں ملنے والا ہے۔ دراصل یہاں جنگل کا قانون ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے قوانین پر عمل کیا جارہا ہے۔ حالانکہ ملی و قومی غیرت کا تقاضہ یہ بنتا ہے کہ ایسے محب وطن اداروں و تنظیموں کو ہر طرح کی حکومتی مدد و نصرت حاصل ہو مگر پھر سرکاری جھولی کے خالی رہنے کا بھی خطرہ سر پر منڈلاتا رہتا ہے کہ کہیں امراء و وزراء کی روزی روٹی ہی بند نہ ہوجائے۔ دراصل جب لقمہ حرام منہ کو لگ جاتا ہے پھر اس سے جان چھڑانا مشکل ہی ہوجاتا ہے۔دراصل جب غیرت ختم مرجاتی ہے تب جائز و ناجائز قومی و عوامی مفاد نظر نہیں آتا، بلکہ اسے صرف اپنا مفاد ہی عزیز سے عزیز تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اب تو جب بھی سیاسی لیڈران کی گفتگو سنیں تو محسوس ہوتا ہے کہ دشنام ترازی، الزام تراشی اور ایک دوسرے کی برائی کرنا ہی ان کا کام رہ گیا ہے۔خدا کی لاٹھی بے آواز ہے اور ہمیشہ وہ چل کر ہی رہتی ہے۔ ایسے ہی خدا کی مدد و نصرت ہمیشہ حق کے ساتھ ہوتی ہے۔ حق کو دبانے والے ہر دور میں مٹ گئے مگر حق پورے زور و شور اور طاقت کے ساتھ چھا گیا۔ جو اللہ تعالیٰ کے لیے جیتے و مرتے ہیں سدا نام انہی کا رہتا ہے اور جو مفاد پرست ٹولے ہوتے ہیں وہ مٹ جایا کرتے ہیں۔ اس لیے سب کو عقل و ہوش کے ناخن لینے چاہیئں اور مل بیٹھ کر قوم کا سوچنا چاہیے۔ اب تجوریوں کے دروازے بھی بند ہونے چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ دیر ہوجائے اور خلق خدا کا صبر جواب دے جائے۔ اگر ایسا ہوگیا تو شدید خطرہ کہ اندر پلنے والا لاوا کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ باقی رہے نام اللہ کا 

تحریر: حبیب اللہ خان پاندہ 

جامعۃ الدراسات الاسلامیہ کراچی

No comments:

Post a Comment