Tuesday, 20 September 2022

جنگل کا قانون

جنگل کا قانون

ناظرین دنیا میں ایک ایسا ملک بھی ہے کہ جس کی آبادی 20 ملین سے بھی زیادہ ہے۔جسے اللہ تعالیٰ نے چاروں موسموں سے نوازا ہے۔ جس ملک کے ایک کونے میں دنیا کی بلند ترین دوسری چوٹی ہے تو دوسرے کونے میں گرم پانی کے سمندر جیسی نعمت بھی ہے۔جس ملک میں ایک وسیع ترین آب پاشی کا نہری نظام موجود ہے۔ جس ملک کو اللہ تعالیٰ نے چاروں موسموں سے نوازا ہے۔ جس ملک کے لوگ اتنے ذہین وفطین ہیں کہ باقی ممالک میں جاکر کامیاب زندگی گزارتے ہیں۔ جس ملک کے پاس معدنیات سے بھرپور پہاڑ بھی ہیں۔ نمک کی سب سے بڑی کان بھی ہے۔ سونے کی سے مالا مال، کوئلے کے بہت بڑے ذخائر بھی ہیں۔ الغرض وہ تمام نعمتیں جو کسی ملک کے لیے کسی نعمت متراقبہ سے کم نہیں ہوتی وہ سب نعمتیں اس ملک کو اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہیں۔ اس ملک کو اللہ تعالیٰ نے آزادی بھی رمضان المبارک کے عظیم مہینے اور اس کی عظیم شب 27 رمضان المبارک کو آزادی نصیب فرمائی ۔ 

مگر آپ کو یہ سن کر حیرانی ہوگی کی ان تمام انعامات کے باجود وہ ملک اس وقت دنیا کے سامنے تماشہ بنا ہوا ہے۔ جو سب نعمتیں ہونے کے باوجود کمرتوڑ قرضوں کے بوجھ تلے دب چکا ہے۔جہاں ہر سال دنیا کی طاقتیں قرضوں پہ قرضے دیتی چلی جاتی ہیں مگر اس ملک کی معیشت مسلسل گراوٹ کا شکار ہوتی چلی جارہی ہے۔ حیرت کی بات کہ جس عوام کے نام پر اتنا مال آتا ہے اور ان سے اس کی بناپرٹیکس وصول کیے جاتے ہیں انہیں اس میں سے ایک پائی بھی شاید نہیں مل پاتی۔ جس ملک پر جوکروں کو وزارت عظمیٰ کی کرسی دے دی گئی ہے جن کی وجہ سے ساری دنیا میں اس ملک کی سبکی ہورہی ہے۔ جس ملک پرباہر سے اتنا زیادہ فنڈ آتا ہے کہ 20 ملین کیا 40 ملین عوام پر بھی وہ خرچ کیا جائے تو زیادہ ہوجائے مگر حیرت کی بات ہے کہ سارا فنڈ اس ملک کی سرحد کے اِس پار آتے ہی ایسے غائب ہوجاتا ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ جی ہاں ناظرین ! آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ اس ملک میں جو جتنا بڑا چور اور ڈاکو ہوتا ہے اسے اتنا بڑا عہدہ اور کرسی ملتی ہے۔ آپ کو یہ بھی سن کر حیرت ہوگی کہ اس ملک کے کئی اسکولوں میں انسانوں کے بچوں کو چھوڑ کر گدھے، بیل، بھینس اور قسما قسم کے جانور پائے جاتے ہیں۔


 
                                                                                                                                                                                                                                    یہ سن کر بھی آپ حیران ہوں گے کہ اس ملک میں یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد اصل ڈگری والے نوکری کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں اور تھک ہار کر سڑک کنارے کوئی ریڑھی یا تھابا لگا لیتے ہیں۔ نقل و جعلی ڈگریوںوالے پائلٹ و ڈاکٹر و انجینئر بن جاتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر حیرانی والی بات کہ جن کے پاس کوئی ڈگری نہیں وہ اس ملک کے حاکم اعلیٰ کی وزارت سنبھال لیتے ہیں۔ 



جی تو ناظرین آپ کو حیرت کے جھٹکے کیسے لگے؟ ، رکیں رکیں ابھی تو آپ کو 420 وولٹ حیرت کے مزید جھٹکے لگنے والے ہیں۔ جی تو یہ ایسا عجیب ملک ہے کہ اس وقت وہاں ملک کے ایک بڑے حصہ میں سیلابی آفت نے تباہی مچائی ہوئی ہے کہ مگر تف ہے کہ اس کے سیاہ و سفید کے مالکوں کو تھوڑی سی شرم آجائے۔ نا جی نا بلکہ  آپ کو یہ سن کر حیرانی ہوگی کہ ان کے لیے تو یہ آفت کسی نعمت متراقبہ سے کم نہیں۔ کیونکہ اس آفت کے بعد بھی ان کی تجوریوں کے منہ کھل چکے ہیں اور جتنا بھی پیسہ اس آفت سے متاثرین کی مدد کے لیے آرہا ہے وہ سب ان کی تجوریوں میں بھرتا چلا جارہا ہے۔ مگر وہ تجوریاں ایسی برانڈڈ ہیں کہ جتنا ان میں آتا ہے ان کا منہ اور پیٹ اور بڑا ہوتا چلا جاتا ہے۔ اور وہ بھرنے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ مزید حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ اتنے بڑے جھٹکے عوام کو لگنے کے باوجود عوام انہی کو پشت در پشت منتخب کرتے چلے آرہے ہیں۔ پہلے دادا تھا تو پھر اس کا بیٹھا پھر اس کا پوتا اور یہ سلسلہ آگے تک چلا آرہا ہے۔ اس وقت اس ملک کی اکثریت کو ایک وقت کی روٹی نصیب نہیں اور سرڈھانپنے کے چھت گرچکی ہے اور سیلاب نے زندگی کی ساری کمائی کو ملیا میٹ کردیا ہے مگر وقت کے حکمران انہیں سیلاب متاثرین کے نام پر جتھوں کے جتھے کی صورت میں باہر ممالک امداد کے نام پر مہنگے مہنگے ہوٹلوں میں قیام کے مزے لے رہے ہیں۔ ملک کے اندر پروٹوکول ایسا کہ کئی کئی گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں آپ کو نظر آجائیں گی۔ یہاں جنگل کے قوانین ہیں۔ جو لاکھوں چوری کرتا ہے وہ بڑا عہدہ پاتا ہے جو انڈا چوری کرتا ہے وہ سالہا سال جیل میں سڑتا رہتا ہے۔ یہاں اربوں کھربوں ڈکارنے والوں سے سوال کرنے کا حق نہیں مگر بھوک اور ننگ سے مجبور اگر ایک لقمہ بھی کسی اور سامنے سے اٹھا لے تو اس کو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔ 



مگر سب بڑھ کر حیرت کی بات یہ ہے کہ اس سب کے باوجود جب وہ عوام میں آتے ہیں تو عوام ان سے مرعوب ہوکر ان کے سامنے سرجھکائے کھڑی رہتی ہے اور عوام میں اتنی جرائت نہیں ہوتی کہ آنکھیں اٹھا کر ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان سے اپنے دیے ہوئے ووٹ کے درست استعمال کا سوال کرے۔ جی تو یہ وہ ملک ہے جس کی عوام اس کے لیے کٹ مرنے کو تیار ہے مگر ہمیشہ سے چوروں اور ڈاکووں کو منتخب کرتی چلی آرہی ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ عوام بچاری ہوش وحواس ہی کھوبیٹھی ہے۔  یہ سلسلہ تب تک چلتا رہے گا جب تک عوام ہوش کے ناخن نہیں لے گی۔



باتیں تو بہت ہیں مگر سدا بلند رہے نام اللہ کا

تحریر:

حبیب اللہ خان پاندھا

جامعۃ الدراسات الاسلامیہ کراچی


 

Thursday, 8 September 2022

بیچاری دینی فلاحی تنظیمیں

 بیچاری دینی فلاحی تنظیمیں


اس وقت وطن عزیز انتہائی نازک صورتحال سے گزر رہا ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں نے متوسط و غریب طبقے کی کمر توڑ دی ہے۔ لوگ انتہائی پریشان حال ہیں۔ مسائل پر مسائل جنم لے رہے ہیں۔ مگر ہماری سیاسی پارٹیاں اپنی سیاست میں اس قدر مگن ہیں کہ انہیں خلق خدا کی فکر ہی نہیں۔ بس سوشل میڈیا پر عوامی تنقید کی وجہ سے کچھ بیان بازی سیلاب زدگان کے حق میں دے کر ایک طرف ہوجاتے ہیں۔ایسے میں جب سب لبرل و سیکولر سیاسی پارٹیاں اپنی سیاست میں مگن ہیں تب ایک طبقہ میدان عمل میں اتر چکا ہے اور اپنے سیلاب زدگان بھائیوں کی اس مشکل میں ہر وقت ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ وہ طبقہ مذہبی طبقہ ہے کہ جسے ہر موقع و موڑ پر کوسنا نام نہاد سیکولرز ثواب کاکام سمجھتے ہیں۔ کئی ایسی تنظیمیں کہ جنہوں نے ماضی میں بھی اپنے بھائیوں کی فلاح و بہبود کے لیے دن رات ایک کیے رکھا آج بھی وہ میدان عمل میں ہیں۔ حالانکہ اس خدمت کے بدلے انہیں پابندیوں کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا سوائے بدنامی و رسوائی کے، کہ نیکی کرکے بھی بدنامی کا طوق ان کے نصیب میں ہے۔ مگر وہ بڑی ہی عجیب مخلوق ہیں، کہ لوگوں کی ہر طرح کی تیکھی اور چھبنے والی باتیں سنتے چلے جاتے ہیں اور کام کرتے چلے جاتے ہیں۔ وطن کی محبت ان کی انگ انگ میں رچ بس چکی ہے۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ اگر ان کے پاس اختیار ہو تو کسی بھی ہم وطن کو کبھی بھوکا نہ سونے دیں، کسی کو پریشان حال نہ رہنے دیں، کسی کو بغیر چھت کے نا رہنے دیں۔ مگر کیاں کریں راستے میں کانٹے ہی اس قدر ہیں کہ غیروں کے ساتھ اپنوں کے ہاتھوں مشق ستم بنے ہوئے ہیں۔

اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ہیں تنگ

میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا کند


مگر عجیب و غریب انسان ہیں کہ سیلاب ہو یا زلزلہ ہو یا کوئی آسمانی و خدائی آفت ہو، یہ اچانک ہی نکل آتے ہیں اور پھر فلاح کے کام کرتے چلے جاتے ہیں۔ شنید ہے کہ اب اس دفعہ بھی خدمت کا صلہ انہیں مزید پابندیوں کی صورت میں ملنے والا ہے۔ دراصل یہاں جنگل کا قانون ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے قوانین پر عمل کیا جارہا ہے۔ حالانکہ ملی و قومی غیرت کا تقاضہ یہ بنتا ہے کہ ایسے محب وطن اداروں و تنظیموں کو ہر طرح کی حکومتی مدد و نصرت حاصل ہو مگر پھر سرکاری جھولی کے خالی رہنے کا بھی خطرہ سر پر منڈلاتا رہتا ہے کہ کہیں امراء و وزراء کی روزی روٹی ہی بند نہ ہوجائے۔ دراصل جب لقمہ حرام منہ کو لگ جاتا ہے پھر اس سے جان چھڑانا مشکل ہی ہوجاتا ہے۔دراصل جب غیرت ختم مرجاتی ہے تب جائز و ناجائز قومی و عوامی مفاد نظر نہیں آتا، بلکہ اسے صرف اپنا مفاد ہی عزیز سے عزیز تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اب تو جب بھی سیاسی لیڈران کی گفتگو سنیں تو محسوس ہوتا ہے کہ دشنام ترازی، الزام تراشی اور ایک دوسرے کی برائی کرنا ہی ان کا کام رہ گیا ہے۔خدا کی لاٹھی بے آواز ہے اور ہمیشہ وہ چل کر ہی رہتی ہے۔ ایسے ہی خدا کی مدد و نصرت ہمیشہ حق کے ساتھ ہوتی ہے۔ حق کو دبانے والے ہر دور میں مٹ گئے مگر حق پورے زور و شور اور طاقت کے ساتھ چھا گیا۔ جو اللہ تعالیٰ کے لیے جیتے و مرتے ہیں سدا نام انہی کا رہتا ہے اور جو مفاد پرست ٹولے ہوتے ہیں وہ مٹ جایا کرتے ہیں۔ اس لیے سب کو عقل و ہوش کے ناخن لینے چاہیئں اور مل بیٹھ کر قوم کا سوچنا چاہیے۔ اب تجوریوں کے دروازے بھی بند ہونے چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ دیر ہوجائے اور خلق خدا کا صبر جواب دے جائے۔ اگر ایسا ہوگیا تو شدید خطرہ کہ اندر پلنے والا لاوا کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ باقی رہے نام اللہ کا 

تحریر: حبیب اللہ خان پاندہ 

جامعۃ الدراسات الاسلامیہ کراچی

اصحاب کھف (اللہ کے بندے)

 


 اللہ کے نیک بندے



یہ کہانی ہے اللہ کےنیک بندوں کی کہ جنہوں نے اپنا سب کچھ قربان کردیا مگر اللہ کا بندہ بننا پسند کیا
            سورہ الکھف میں اللہ کے ان بندوں کا تفصیلی واقعہ موجود ہے کہ جب ان پر ایمان لانے کی وجہ سے آزمائش کا سامنا کرنا پڑا مگر اس آزمائش میں اپنا سب کچھ قربان کردیا لیکن ایمان کو قربان کرنا پسند نہ کیا۔ دنیا کا مال، جاہ و جلال، مرتبہ و عزت الغرض جو کچھ وہ کرسکتے تھے قربان کیا۔ گھر سے بے گھر ہوئے۔ والدین و اقرباء کی محبت کی قربانی دی۔ اپنے علاقہ کو خیر آباد کہا۔ بے آب و گیاہ وادی کا سفر کیا اور پہاڑوں کی غاروں کو مسکن بنایا۔ دنیا والوں سے دور، دنیا کی رنگینیوں سے دور، اپنے ایمان کو مقدم کرکے ہر چیزقربان کردی مگر ایمان کو سلامت رکھا۔

رب کو ادا پسند آئی

                    آخر  رب کو ان کی یہ ادا  اس قدر پسند آئی کہ کہ رب نے بھی ان کی حفاظت کا سامان کیا اور ان کی حفاظت کے لیے اپنے لشکروں کو لگادیا۔ كهتے هيں نا كه جو رب كے ليے سب كو قربان كرديتا هے تو رب اس كي خدمت پر سب كو لگاديتا هے۔ اس موقع پر چشم فلك نے ايسے هے منظر كا مشاهده كيا۔ هر ايك كو يقين کو آگیا کہ رب کبھی اپنے بندوں کو اکیلا نہیں چھوڑتا۔رب نے ان کے آرام کا بھی خوب سامان کیا اور انہیں 300 سال کے لیے گہری نیند سلادیا۔
            دشمنوں نے انہیں خوب تلاش کیا مگر رب نے دشمنوں کو ایسا اندھا کیا کہ وہ منہ کی کھاکر واپس پلٹ گئے۔آخر تین صدیاں گزریں دشمنوں کا نام و نشان مٹ گیا اور کفر کی جگہ ایمان نے لے لی۔ جو دشمن دین تھے وہ دین کی پناہ میں آگئے۔ 


جب  نیند میں تین صدیاں گزر گئیں

                آخر کار تین سو سال گزرنے کے بعد رب نے ان کی آنکھ کھول دی اور انہیں بھوک احساس ہوا۔ اپنے ہی ساتھیوں میں سے سمجھ دار اور نرم طبیعت شخص کو منتخب کرکے باہر روانہ کیا کہ جاؤ اور کچھ کھانے کے لیے لاؤ، مگر دھیان رہے کہ بات نرمی سے کرنا اور راز کو فاش مت ہونے دینا۔ کسی کو اپنے متعلق اور اپنے ٹھکانے کے متعلق کچھ مت بتانا۔ اللہ کا یہ بندہ جاتا ہے مگر جیسے ہی وہاں سے باہر کی جانب نکلتا ہے تو دیکھتا ہے کہ سارا ماحول بدلا بدلا لگ رہا ہے۔ ایمان کے نقوش چھا چکے ہیں اور  کافروں کے نشانات مٹ چکے ہیں۔ مگر پھر بھی خوب احتیاط سے بازار میں پہنچتا ہے اور جیب سے تین صدیاں پرانا سکہ نکال کر دکاندار کو آہستہ سے ضرورت کی چیز کے متعلق باخبر کیا۔ حساسیت ایسی کہ کسی کو احساس تک نہ ہو۔ سکہ ہاتھ میں لیتے ہی دکاندار کبھی سکہ کو دیکھتا ہے اور کبھی اس انجان مسافر کو دیکھتا ہے۔ الغرض اس دکاندار سے رہا نہیں جاتا اور وہ کوئی چیز ساتھ والی دکان سے لانے کا بہانہ بناکر چلاجاتا ہے اور یہ سکہ پڑوسی دکاندار کو دکھاتا ۔ الغرض بات باہر نکلتی ہے کہ یہ وہی سکہ اور انہی افراد میں سے ایک ہے جو ایمان لاکر غائب ہوگئے تھے۔


بات تھی کہ پھیل گئی:

                یہ بات پھیلتے ہین سب اکھٹے ہوجاتے ہیں اور اس اللہ والے سے تقاضہ کرتے ہیں کہ اپنا ٹھکانہ و بقیہ ساتھیوں سے ملاقات کرواؤ۔دراصل اس وقت سب مسلمان ہوچکے تھے اور کفریہ عقائد سے تائب ہوکر اسلام کی عمارت میں داخل ہوچکے تھے۔انہوں نے اسے تسلی بھی دے کہ ڈرو نہیں دشمن خدا خاب و خاسر ہوچکے ہیں۔  یہ اللہ کا بندہ وہاں سے حامی بھر کر نکلتا ہے اور سب اس کے پیچھے چلے آتے ہیں۔ اس کی رفتار قدرے تیز ہوتی ہے اس لیے اپنے ساتھیوں کے پاس جلد پہنچ کر انہیں سارے واقعہ کے متعلق باخبر کرتا ہے۔تب اب کا وقت اجل آجاتا ہے اور موت کا فرشتہ آکر ان کی روح قبض کرلیتا ہے۔یوں رب نے یہ ثابت کردیا کہ اس کے لیے کچھ مشکل نہیں کہ وہ زندہ کو 3 سو سال تک سلا دے مگر مردہ کو جگا دے۔