جنگل کا قانون
ناظرین دنیا میں ایک ایسا ملک بھی ہے کہ جس کی آبادی 20 ملین سے بھی زیادہ ہے۔جسے اللہ تعالیٰ نے چاروں موسموں سے نوازا ہے۔ جس ملک کے ایک کونے میں دنیا کی بلند ترین دوسری چوٹی ہے تو دوسرے کونے میں گرم پانی کے سمندر جیسی نعمت بھی ہے۔جس ملک میں ایک وسیع ترین آب پاشی کا نہری نظام موجود ہے۔ جس ملک کو اللہ تعالیٰ نے چاروں موسموں سے نوازا ہے۔ جس ملک کے لوگ اتنے ذہین وفطین ہیں کہ باقی ممالک میں جاکر کامیاب زندگی گزارتے ہیں۔ جس ملک کے پاس معدنیات سے بھرپور پہاڑ بھی ہیں۔ نمک کی سب سے بڑی کان بھی ہے۔ سونے کی سے مالا مال، کوئلے کے بہت بڑے ذخائر بھی ہیں۔ الغرض وہ تمام نعمتیں جو کسی ملک کے لیے کسی نعمت متراقبہ سے کم نہیں ہوتی وہ سب نعمتیں اس ملک کو اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہیں۔ اس ملک کو اللہ تعالیٰ نے آزادی بھی رمضان المبارک کے عظیم مہینے اور اس کی عظیم شب 27 رمضان المبارک کو آزادی نصیب فرمائی ۔
مگر آپ کو یہ سن کر حیرانی ہوگی کی ان تمام انعامات کے باجود وہ ملک اس وقت دنیا کے سامنے تماشہ بنا ہوا ہے۔ جو سب نعمتیں ہونے کے باوجود کمرتوڑ قرضوں کے بوجھ تلے دب چکا ہے۔جہاں ہر سال دنیا کی طاقتیں قرضوں پہ قرضے دیتی چلی جاتی ہیں مگر اس ملک کی معیشت مسلسل گراوٹ کا شکار ہوتی چلی جارہی ہے۔ حیرت کی بات کہ جس عوام کے نام پر اتنا مال آتا ہے اور ان سے اس کی بناپرٹیکس وصول کیے جاتے ہیں انہیں اس میں سے ایک پائی بھی شاید نہیں مل پاتی۔ جس ملک پر جوکروں کو وزارت عظمیٰ کی کرسی دے دی گئی ہے جن کی وجہ سے ساری دنیا میں اس ملک کی سبکی ہورہی ہے۔ جس ملک پرباہر سے اتنا زیادہ فنڈ آتا ہے کہ 20 ملین کیا 40 ملین عوام پر بھی وہ خرچ کیا جائے تو زیادہ ہوجائے مگر حیرت کی بات ہے کہ سارا فنڈ اس ملک کی سرحد کے اِس پار آتے ہی ایسے غائب ہوجاتا ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ جی ہاں ناظرین ! آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ اس ملک میں جو جتنا بڑا چور اور ڈاکو ہوتا ہے اسے اتنا بڑا عہدہ اور کرسی ملتی ہے۔ آپ کو یہ بھی سن کر حیرت ہوگی کہ اس ملک کے کئی اسکولوں میں انسانوں کے بچوں کو چھوڑ کر گدھے، بیل، بھینس اور قسما قسم کے جانور پائے جاتے ہیں۔
جی تو ناظرین آپ کو حیرت کے جھٹکے کیسے لگے؟ ، رکیں رکیں ابھی تو آپ کو 420 وولٹ حیرت کے مزید جھٹکے لگنے والے ہیں۔ جی تو یہ ایسا عجیب ملک ہے کہ اس وقت وہاں ملک کے ایک بڑے حصہ میں سیلابی آفت نے تباہی مچائی ہوئی ہے کہ مگر تف ہے کہ اس کے سیاہ و سفید کے مالکوں کو تھوڑی سی شرم آجائے۔ نا جی نا بلکہ آپ کو یہ سن کر حیرانی ہوگی کہ ان کے لیے تو یہ آفت کسی نعمت متراقبہ سے کم نہیں۔ کیونکہ اس آفت کے بعد بھی ان کی تجوریوں کے منہ کھل چکے ہیں اور جتنا بھی پیسہ اس آفت سے متاثرین کی مدد کے لیے آرہا ہے وہ سب ان کی تجوریوں میں بھرتا چلا جارہا ہے۔ مگر وہ تجوریاں ایسی برانڈڈ ہیں کہ جتنا ان میں آتا ہے ان کا منہ اور پیٹ اور بڑا ہوتا چلا جاتا ہے۔ اور وہ بھرنے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ مزید حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ اتنے بڑے جھٹکے عوام کو لگنے کے باوجود عوام انہی کو پشت در پشت منتخب کرتے چلے آرہے ہیں۔ پہلے دادا تھا تو پھر اس کا بیٹھا پھر اس کا پوتا اور یہ سلسلہ آگے تک چلا آرہا ہے۔ اس وقت اس ملک کی اکثریت کو ایک وقت کی روٹی نصیب نہیں اور سرڈھانپنے کے چھت گرچکی ہے اور سیلاب نے زندگی کی ساری کمائی کو ملیا میٹ کردیا ہے مگر وقت کے حکمران انہیں سیلاب متاثرین کے نام پر جتھوں کے جتھے کی صورت میں باہر ممالک امداد کے نام پر مہنگے مہنگے ہوٹلوں میں قیام کے مزے لے رہے ہیں۔ ملک کے اندر پروٹوکول ایسا کہ کئی کئی گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں آپ کو نظر آجائیں گی۔ یہاں جنگل کے قوانین ہیں۔ جو لاکھوں چوری کرتا ہے وہ بڑا عہدہ پاتا ہے جو انڈا چوری کرتا ہے وہ سالہا سال جیل میں سڑتا رہتا ہے۔ یہاں اربوں کھربوں ڈکارنے والوں سے سوال کرنے کا حق نہیں مگر بھوک اور ننگ سے مجبور اگر ایک لقمہ بھی کسی اور سامنے سے اٹھا لے تو اس کو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔
مگر سب بڑھ کر حیرت کی بات یہ ہے کہ اس سب کے باوجود جب وہ عوام میں آتے ہیں تو عوام ان سے مرعوب ہوکر ان کے سامنے سرجھکائے کھڑی رہتی ہے اور عوام میں اتنی جرائت نہیں ہوتی کہ آنکھیں اٹھا کر ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان سے اپنے دیے ہوئے ووٹ کے درست استعمال کا سوال کرے۔ جی تو یہ وہ ملک ہے جس کی عوام اس کے لیے کٹ مرنے کو تیار ہے مگر ہمیشہ سے چوروں اور ڈاکووں کو منتخب کرتی چلی آرہی ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ عوام بچاری ہوش وحواس ہی کھوبیٹھی ہے۔ یہ سلسلہ تب تک چلتا رہے گا جب تک عوام ہوش کے ناخن نہیں لے گی۔
باتیں تو بہت ہیں مگر سدا بلند رہے نام اللہ کا
تحریر:
حبیب اللہ خان پاندھا
جامعۃ الدراسات الاسلامیہ کراچی